ہم غریبوں کے لئے اتنا تو کر سکتے ہیں

وہ سردیوں کی ایک چمکیلی دھوپ تھی۔گملوں میں لگے پودوں پر کچھ زرد پتے دھوپ کی سنہری کرنوں سے اور بھی نمایاں ہو رہے تھے۔میں نے سوچا چلو ان کی چھانٹی بھی کرڈالوں اور گملے بھی سیٹ کر لوں۔سر سبز سدا بہار پودوں کے ساتھ سرخ سرخ گملے ہمیشہ ہی سے میری کمزوری بنے رہے ہیں۔بھر پور زندگی کا تاثر دیتا ہوا یہ combinationمیرے لبوں پر خوامخواہ ہی گنگناہٹ بکھیر دیتا ہے۔
ناشتہ کرنے کے بعدآچ چھٹی کو پوری طرح انجوائے کرنے کا موڈ تھا۔گھر میں سب نہ جانے کیاچھان پھٹک رہے تھے۔ ماحول بہت Relaxedتھا۔یوں جیسے سکون کی ایک ڈھیلی سی چادر سارے گھر نے اوڑھ رکھی ہو۔میں نے تازگی کے ہر ایک لمحے کوسانس کے ذریعے اپنے اندرجذب کرنے کی کوشش کی اور سٹور سے قینچی لینے چل دیا۔آتے ہی پودوں کی چھانٹی شروع کر دی۔چند ہی لمحے گزرے تھے کہ ایک زور دار سی’’السلام علیکم‘‘ نے مجھے چونکا دیا۔میں نے سلام کا جواب دیا ۔مڑ کر دیکھا تو ایک نحیف سا شخص سامنے کھڑا تھا۔اس کی آنکھوں سے ایک بے بسی جھلک رہی تھی ۔ صاحب!کھانے کو کوئی چیز ملے گی؟میں اسے لے کر اندر چلا گیا اور کھانے کی میز پر بیٹھا کر امی کو اسے کچھ دینے کو کہا۔کھانے کے دوران وہ انتہائی رنجیدہ نظر آ رہا تھا۔اس نے کھانا کھایا اور درخواست کی کہ‘میں بے روزگار ہوں‘میرے چار بچے ہیں‘گھر میں دو تین دن سے فاقے ہیں،مجھے کوئی ایسی نوکری چاہئے جس سے بال بچے کاپیٹ پال سکوں۔میں نے اس سے فوراً معذرت کر لی۔میں نے اسے صاف جواب دے دیا کی میرا چھوٹا سا کاروبار ہے جس میں نئے ملازم کی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی گھر میں کسی ملازم کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔وہ شخص اٹھا اور چپ چاپ باہر چلا گیا۔ابھی اسے گھر سے نکلے چند لمحے ہی گزرے تھے کہ میرا ایک دوست بوجھل قدموں سے گھر میں داخل ہوا اور آتے ہی پانی کا ایک گلاس پی کرمجھے بتانے لگا‘ باہر سڑک پر ایک اڈھیڑ عمر شخص نے گاڑی کے آگے چھلانگ لگا دی۔چونکہ گاڑی تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی تھی لہذا ڈرائیور بروقت بریک نہ لگا سکا اور وہ شخص کچلا گیا۔۔
میں حیرت سے اس کے منہ سے نکلے الفاظ اپنی سماعت میں پیوست کرتا رہا اور میرے ذہن و خیال میں اس نحیف شخص کی تصویر گھوم گئی جسے چند لمحے قبل میں نے گھر سے نکال دیا تھا۔میں تیزی سے اٹھا‘دوست کو ساتھ لیا اور سڑک کی جانب چل پڑا۔مطلوبہ مقام پر پہنچ کر لوگوں کے ہجوم سے راستہ بناتے ہوئے میں اس شخص کی کچلی ہوئی لاش تک پہنچا تووہاں میرے لیے حیرتوں اور حسرتوں کا ایک سمندر موجزن تھا۔وہ نحیف شخص اس دنیاکی بے ثباتی کی گواہی دیتا ہوا زندگی کی تلخیوں سے خود کو آزاد کر چکا تھا۔میرے دوست کی آنکھیں ایک انسانی جان کے نقصان پر غم سے سرخ ہو رہی تھیں اور اپنی ذات کو اس موت کا ذمہ دار سمجھ کر میرے گال بھی بھیگ رہے تھے۔پولیس نے نعش قبضے میں لیکر قانونی کارروائی کی اور اس کے گھر تک پہنچا دی۔میری خصوصی گذارش پر اس کا پتہ دیا گیا تو میں اس کے گھر کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔وہ شہر سے تھوڑے فاصلے پر ایک کچے مکان کا مکین تھا۔میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اس کا چولہاکئی روز سے بجھا ہوا تھا۔گھر کی دہلیز پر بیوہ اور چار یتیم عالم بے بسی میں حسرتوں کا ماتم کر رہے تھے۔۔۔
اتنی داستان سننے کے بعد میرے سامنے بیٹھے شخص کی آواز رندھ سی گئی۔اسے اپنے اوپر قابو نہ رہا اوروہ کسی بچے کی طرح رونے لگا۔میں نے اسے حوصلہ دیا‘اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اس شخص کی موت میں اس کا قصور صرف اتنا ہی ہے کہ ایک پروفیشنل بھکاری سمجھ کر اسے گھر سے نکال دیا تھا۔زندگی کی دہلیز تو اس نے خود پار کی تھی۔وہ خودگاڑی کے آگے کود گیا تھا۔مگر وقار اپنے آپ کو معاف کرنے پر راضی نظر نہیں آتا تھا۔اس نے بیوہ اور بچوں کے لئے کچھ روپوں کا ماہانہ بنیاد پر انتظام تو ضرور کر دیا تھا مگر وہ ا س شخص کی زندگی میں اس کے چہرے کی خوشی نہ دیکھ سکنے پرشدت سے نادم تھا۔وقار اٹھا اور میرے دفتر سے نکل گیا۔اس کے جانے کے بعد میں سوچنے لگا کہ پاکستان میں کتنے ایسے لوگ ہوں گے جو دو وقت کی روٹی کو ترستے ہوں گے۔جنہیں اپنی بھوک کا علاج کرنے کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہوں گی۔اور ان میں بعض ایسے بھی ہوں گے جوضمیر کو سوالی بنا کر کسی سے دست سوال دراز کرنے کے بجائے موت کو ترجیح دیتے ہوں گے۔ کسی کے پھٹے لباس سے اس کا بھرم تو کیااس کا سوکھا تن ڈھانپنے کا حوصلہ بھی نہیں ہوتا ہو گا اور کوئی تار تارخواب لیے پھٹی ہوئی اوڑھنی کے کونے سے بندھی روٹی کے چند ٹکڑوں کا ہی مالک ہو گا۔
کیا اس ملک کے لاکھوں غریبوں کا مستقبل ایسا ہی تاریک رہے گا؟اس ملک کی اکثرحکومتیں چونکہ فطرتاً بھکاری اور غریب پیدا ہوئی ہیں لہٰذا ان سے امید رکھنا بہرے کو نغمہ سنانے کے مترادف ہے۔امیر طبقہ جوزکوٰۃ تک کھلے دل سے دینے سے گریزاں ہے وہ ان غریبوں کے لیے روٹی،کپڑے اور مکان کا انتظام کیسے کرے گا۔ہم ایک ایسے پسماندہ ملک سے تعلق رکھتے ہیں جہاں حوصلہ ہے نہ جذبہ۔ہم بے وسیلا اور غیر منظم لوگ ہیں۔ہم اپنے گھروں میں ہر روز ہزاروں روپے کا کھانا ضائع کر دیتے ہیں مگر کسی ایسے شخص کو اس کھانے میں شریک نہیں کرتے جس کے جسم و جان میں صرف چند سانسوں کارشتہ ہے اور اس کی زندگی ایک روٹی کے ٹکڑے سے جڑی ہے۔ہم اپنا فارغ وقت پارکوں،کلبوں اور پارٹیوں میں بیٹھ کر تو گزار دیتے ہیں مگر اسی وقت کو نیکی میں ڈھال کر انہی کلبوں ‘پارٹیوں اور ریستورانوں کا بچا ہوا کھانا جمع کر کے بھوکے ،لاچار اور مجبور لوگوں تک پہنچانے کے لئے’’فوڈ بنک‘‘ قائم نہیں کر سکتے۔درجنوں لوگ اکٹھے ہو کر ایک اینٹ،ایک بالٹی بجری اور ایک تھیلا سیمنٹ دے کرکسی غریب کو چھت نہیں دے سکتے۔ اپنے تن سے اترے ہوئے کپڑے،جوتے اور سویٹر ضائع کرنے کے بجائے آس پاس موجود سردی میں کپکپاتے ہوئے کسی معصوم کو نہیں دے سکتے۔ہم اگر لاکھوں روپے دے کر کسی کی مدد نہیں کر سکتے لیکن چھوٹی چھوٹی کمیٹیاں ڈال کر ہر شہر،ہر قصبے اور گاؤں غریبوں تک تو پہنچا سکتے ہیں۔
اپنے بچے کی کتابیں،کاپیاں اور یونیفارم خریدتے وقت ایک ایک چیز کسی ایسے کے لئے تو خرید سکتے ہیں جس کے باپ نے بے بس ہو کر گاڑی کے نیچے چھلانگ لگا دی تھی۔ہم ایسے نوجوانوں کی ٹیمیں ہرایک محلے میں بنا سکتے ہیں جواللہ کے دئیے ہوئے رزق اور مال سے تھوڑا تھوڑا اکٹھا کر کے ان لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں جو زندگی کی سخت چکی میں پس رہے ہوں اور اللہ کی مدد کا انتظار کر رہے ہوں۔لیکن شاید 22 کروڑ کے اس ہجوم سے چند لوگ بھی ایسے نہ ملیں جو یہ کر سکیں۔کیوں کہ ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے ‘ہم نے صرف بدنصیبی کا طوق گلے لگا یا ہوا ہے۔جس دن ہم نے آنکھیں کھول کر آس پاس دیکھا اور پھر کسی کا بازو پکڑ کر سہارا دینے کا ارادہ کر لیا اس دن خوش نصیبی مقدر میں لکھ دی جائے گی۔وہ دن قائداعظم کے پاکستان کی نئی صبح آزادی کا دن ہو گا۔جس کا سورج اس ملک کی محکوم قوم کو دنیا کی صف اول میں لا کھڑا کرے گا۔

Facebook Comments

حماد گیلانی
یکم اپریل 1991 ء میں پیدائش ہوئی۔2008ء سے کالم لکھنے شروع کیے ۔آجکل روزنامہ جموں کشمیر کے علاوہ سٹیٹ ویوز ویب سائٹ کے لیے بھی لکھ رہا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply