بھنور میں پھنسی کشتی۔۔۔۔ مبشر علی زیدی

میں جس بستی میں رہتا ہوں، وہاں بہت سے چینی نسل کے لوگ آباد ہیں۔ بس میں، ٹرین میں، سوپرمارکیٹ میں، سڑک پر آتے جاتے ان سے سامنا ہوتا ہے۔ امریکا پہنچ کر سب خوش اخلاق ہوجاتے ہیں۔ اجنبی لوگوں سے بھی سلام دعا کی جاتی ہے۔ ہیلو ہائے گڈ مارننگ سے آغاز ہوتا ہے۔ ہیو اے نائس ڈے کہہ کر الوداع کیا جاتا ہے۔

ہم چینی چہروں میں تمیز نہیں کر پاتے۔ لیکن وہ ا س معاملے میں حساس ہیں۔ ایک دن میں دفتر کے سیکورٹی روم میں شناختی کارڈ بنوانے کے لیے بیٹھا تھا۔ وہاں ایک خوش شکل لڑکی آئی۔ سیکورٹی افسر نے پوچھا، کیا آپ کا تعلق چین ہے؟ وہ خفا ہوگئی۔ کہنے لگی کہ میں کورین ہوں۔ میں نے مسکرا کر تعریف کی کہ آپ بہت خوب صورت ہیں۔ اس کا موڈ اچھا ہوا تو میں نے کہا، ناراض ہونے سے آپ کی خوب صورتی متاثر ہوتی ہے۔ کوئی چینی کہہ دے تو برا ماننے کیا ضرورت ہے؟ اس کا موڈ پھر خراب ہوگیا۔ وہ بولی کہ کسی کورین کو آپ چینی کہیں گے تو اسے اچھا نہیں لگے گا۔ مجھے اس کی بات سمجھ نہیں آئی۔ پھر سیکورٹی افسر نے مجھ سے پوچھا، کیا آپ کا تعلق انڈیا سے ہے؟

واشنگٹن میں تجارتی مراکز اور دفاتر کی بلڈنگز کے دروازے سب کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ لیکن ہماری عمارت میں میڈیا دفاتر ہیں۔ اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ یہاں ہر شخص داخل نہیں ہوسکتا۔ ایک دن میں دفتر کا کارڈ گھر بھول آیا۔ چنانچہ واپس جانا پڑا اور کارڈ لے کر واپس آیا۔ نیویارک میں بھی آپ کسی بھی عمارت میں داخل ہوسکتے ہیں لیکن نیویارک ٹائمز کے دفتر میں سیکورٹی اہلکار دکھائی دیں گے۔ ہمارے ہاں تو سوپرمارکیٹ میں گھسنے سے پہلے بھی سیکورٹی چیک سے گزرنا مجبوری ہے۔

یہاں سوپر مارکیٹس کے بڑے بڑے برانڈ ہیں۔ وال مارٹ، ٹارگٹ، جائنٹ، سیف وے وغیرہ میں ایک گوشہ فارمیسی کے لیے مخصوص ہوتا ہے جہاں ڈاکٹر بھی موجود ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بن ہاشم ایسا ہی ماڈل ہے۔ یہاں میڈیکل اسٹورز کے بھی بڑے بڑے سلسلے ہیں۔ ان میں سے ایک سی وی ایس ہے جو سوپرمارکیٹس کا مقابلہ کرتا ہے۔ کیونکہ اس میں صرف دوائیں نہیں بلکہ بے شمار دوسری اشیا بھی ملتی ہیں۔ کراچی میں شوگر اور بلڈ پریشر کی الیکٹرونک ڈیوائسز عام دستیاب ہیں۔ میں نے یہاں کولیسٹرول چیک کرنے والا آلہ دیکھا۔ لیب جانے، آدھ کلو خون دینے اور کئی دن انتظار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایک قطرہ ٹپکائیں اور چند منٹ میں جان لیں کہ آپ کا خون کیوں جوش نہیں ماررہا۔

میں نے کراچی میں چھ ماہ پہلے کولیسٹرول چیک کروایا تھا۔ معمول سے کچھ زیادہ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مبشر بھائی ہل کر پانی نہیں پیتے تھے۔ بستر سے اترے، کار میں بیٹھ گئے۔ ڈرائیور نے دفتر چھوڑا تو لفٹ پر چڑھ گئے۔ لفٹ سے نکلے تو افسروں والی کرسی پر براجمان ہوگئے۔ چار قدم نہ چلنے کی وجہ سے پیٹ تربوز بن گیا، سیڑھیاں چڑھ کر سانس پھولنے لگا اور پیدل چلتے ہوئے موت آنے لگی۔ یہاں چار پانچ میل روزانہ گشت ہوتا ہے۔ ایک ڈیڑھ میل تو منہ اندھیرے ٹرین پکڑنے کے لیے چلنا پڑتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

صبح سویرے سبزہ اور دریا دیکھنے سے آنکھوں کو تراوٹ ملتی ہے۔ ہماری ٹرین روزانہ دریائے پوٹومیک کو پار کرتی ہے۔ یہ بڑا بیبا دریا ہے۔ شور نہیں مچاتا۔ چپ چاپ بہتا رہتا ہے۔ اس کے سینے پر مرغابیاں اور بطخیں تیرتی رہتی ہیں۔ نیچے ڈولفن، کچھوے اور دوسری آبی حیات اٹکھیلیاں کرتی ہے۔ کبھی کبھی دریا میں کشتیاں بھی نظر آجاتی ہیں۔ کروز نہیں، چھوٹی کشتی جسے فقط ایک شخص چپو چلا کے کھیتا ہے۔
ایک بار میں ٹرین سے جھانک کر ان کشتیوں کو دیکھ رہا تھا۔ میرے برابر میں بیٹھے شخص نے پوچھا، کون سے ملک سے آئے ہو؟ کیا کبھی دریا نہیں دیکھا؟ کیا کبھی کنارہ نہیں دیکھا؟ کیا کبھی کشتی نہیں دیکھی؟ میں نے کہا، دوست! میں اس ملک سے آیا ہوں جس کی کشتی بھنور میں پھنسی ہوئی ہے۔

Facebook Comments

مبشر علی زیدی
سنجیدہ چہرے اور شرارتی آنکھوں والے مبشر زیدی سو لفظوں میں کتاب کا علم سمو دینے کا ہنر جانتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بھنور میں پھنسی کشتی۔۔۔۔ مبشر علی زیدی

  1. یہ نہیں بتایا کہ وہ کورین لڑکی, چینی کہے جانے پر, برا کیوں مان گئی؟ یہ کالمز روزمرہ امریکی زندگی کی بہت اچھی آنکھوں دیکھی منظر نگاری کر رہے. امریکی معاشرے کے بارے میں وہاں کی تہذیب, رہن سہن کا اتنا اچھا اور مختصر احوال یوں پہلے کبھی پڑہنے کو نہیں ملا.

Leave a Reply