پیدائش: 118اکتوبر 1859 عیسوی وفات 4 جنوری 1941 عیسوی ملک فرانس اہم کام تخلیقی ارتقاء
نوبیل انعام یافتہ فرانسیسی فلسفی ہنری لوئی برگساں وجدانیت (Intuitionism) کا پیرو کار تھا۔ اُس نے انسانی زندگی کی روحانی جہت کی بنیاد پر ایک نظریہ ارتقا پیش کیا جس نے متعد د نقطہء ہائے نظر پر وسیع اثرات مرتب کیے۔ وہ ایک ادبی صاحب طرز تھا اور 1927ء میں نوبل انصاف برائے ادب کا مستحق قرار پایا۔
برگساں 18 اکتوبر 1859ء کو ایک با صلاحیت موسیقار کے گھر پیرس میں پیدا ہوا۔ اُس کا تعلق ایک امیر پولش یہودی گھرانے سے تھا۔ گھرانے کا نام Berek-son ہی بگڑ کر برگساں بن گیا۔ اُس کی ماں ایک انگلش یہودی خاندان سے تھی۔ برگساں کی پرورش تربیت اور دلچسپیاں مخصوص فرانسیسی قسم کی تھیں اور ساری زندگی فرانس ( زیادہ تر پیرس ) میں ہی مقیم رہا۔ برگساں نے پیرس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور 1881ء سے 1898 ء تک مختلف سیکنڈری سکولوں میں پڑھاتا رہا۔ آخر کار Ecole Normale میں پروفیسر شپ قبول کرلی۔ دو برس بعد د college de Frances میں فلسفے کی چیئر پر تعینات ہوا۔
دریں اثناء برگساں کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ Time and Free Will ( 1889ء) شائع ہوا اور فلسفیوں میں موضوع بحث بن گیا۔ یہ ذہنی آزادی کے بارے میں اُس کے نظریات پیش کرتا ہے۔ اس کے بعد “Matter and Memory” (1896ء) میں انسانی دماغ کی انتخابیت (Selectivity) پر زور دیا گیا ہے۔ کامیڈی کی مشینی بنیادوں پر ایک مضمون “Laughter ( 1900ء ) غالباً اُس کی سب سے زیادہ بطور حوالہ استعمال کی گئی تحریر ہے۔ پھر اُس نے “Creative Evolution ( 1907ء) میں انسانی وجود کے مسئلے پر تفصیل سے بحث کی اور ذہن کو خالص توانائی (elan vital) یا قوت حیات کے طور پر تعبیر کیا۔۔۔ یہی قوت تمام نامیاتی ارتقاء کی ذمہ دار ہے۔ 1914ء میں برگساں فرنچ اکیڈمی میں منتخب ہوا۔ 1914ء میں وہ کالج ڈی فرانس سے مستعفیٰ ہو کر بین الاقوامی امور سیاست اخلاقی مسائل اور مذہب پر توجہ دینے لگا۔ اُس نے رومن کیتھولک ازم قبول کیا۔ اپنی زندگی کے آخری دو عشروں کے دوران اُس نے The Two Sources of Morality” ”and Religion ( 1932ء ) لکھی جس میں اپنے فلسفہ کو عیسائیت کی مطابقت میں پیش کیا۔
برگساں کا شمار ارتقاء پسند(Evolutionist) فلسفیوں میں ہوتا ہے۔ اس فلسفہ کے دیگر حامیوں میں سپنسر مورگن اور سیموئل الیگزینڈر شامل تھے۔ بلاشبہ ارتقاء پسند نظریات انیسویں صدی کے فلسفیوں پر حیاتیات کے اثرات کا نتیجہ تھے ۔ اس کے علاوہ نفسیات نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ سپنسر کے نظریہ ارتقاء پر نہایت حیرت انگیز تنقید برگساں نے اپنی تخلیقی ارتقاء میں پیش کی ۔ اُس کے مطابق سپنسر نے ارتقاء کے اصل مرکز کو نظر انداز کر کے صرف باہری خول پر توجہ دی۔ برگساں نے تصور ارتقاء کی صورت کو قائم رکھتے ہوئے اس کے مشتملات کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ اگر آپ خارجی مشاہدے کا عام نقطہ نظر چھوڑ کر خود کو حیات کے عین مرکز میں رکھ لیں اور خود کو اُسی کے ساتھ شناخت کریں تو یہ نتیجہ نا گزیر ہے کہ ” تغیر واحد حقیقت ہے۔”
کسی بھی غیر معمولی ارتقاء پسند فلسفی کی طرح برگساں بھی اپنے نقطۂ نظر کی حمایت میں جدید حیاتیات اور نفسیات کے حقائق استعمال کرتا ہے۔ لیکن اُس کا نقطۂ نظر انوکھا اور یورپی فکر میں بے مثل ہے۔ ارتقاء کو ایک مشینی عمل تصور کیا جاتا ہے جس میں ماحولیات کے لیے نامیاتی جسم کی سازگار حالت بقاء کی کسوٹی ہے۔ مشینی علیت نے طبعی سائنس میں تو خود کو منوایا لیکن یہ حیاتیاتی سائنسوں کے مظاہر کی توضیح کے لیے بھی ناکافی ہے۔ برگساں نے مشینی حیاتیات کے اسی طرز عمل کو خالصتاً سائنسی بنیادوں پر چیلنج کیا۔
اپنی تخلیقی ارتقاء میں وہ نامیاتی حیات کی تمام سطوحات سے اخذ کردہ مثالیں پیش کرتے ہوئے ارتقاء پسندوں کی مشینی قسم کی توضیحات کو علمی غلط ثابت کرتا ہے۔ اس نے کہا کہ اگر مشینی ارتقاء کی کسوٹی درست ہوتی تو ارتقائی عمل بہت زمانہ پہلے ہی رک گیا ہوتا۔ ” زندگی سبھی جگہوں پر ہی کیوں جاری و ساری رہی؟ ایک ایسی تحریک کیوں موجود ہے جو اسے بڑے سے بڑے خطرات کے ساتھ دو چار کرتے ہوئے اعلیٰ تر فعالیت اور استعداد کے مقصد کی جانب بڑھاتی رہی؟ یہ تحریک یہ حیاتی قوائیت برگساں کے مطابق ارتقاء کے تمام بوکھلا دینے والے حقائق کی واحد ممکنہ وضاحت ہے۔ فلسفہ ارتقاء میں یہ برگساں کی نمایاں ترین حصہ داری ہے۔ وہ ارتقائی عمل کی گہرائی میں گیا اور وہاں حیاتی قوائیت پائی ۔ حیات کو متحرک رکھنے والی اس قوت کی موجودگی میں اتفاق ایک بے معنی محاورہ بن جاتا ہے اور تغییرات و تبدیلیاں ایک غیر مشکوک مقصدی اہمیت اختیار کر لیتی ہیں۔
برگساں کی نظر میں ارتقاء کسی عظیم آرٹسٹ کے کام کی طرح حقیقی معنوں میں تخلیقی ہے۔ فعالیت کی ایک تحریک ایک خواہش ایک انجانی ضرورت پیشگی موجود ہے، لیکن خواہش کی تسکین ہو جانے تک ہم اس کی تسکین کر سکنے والی چیز کی نوعیت کے متعلق نہیں جان سکتے ۔ عین اسی طرح جیسے کسی آرٹسٹ کے ہر اگلے سٹروک کا نتیجہ پیشگی نہیں بتایا جا سکتا۔ قوت حیات یا olan vital ( جو خلیقی اُمنگ کے تحت عمل کرتی ہے ) نے پہلے پہلے میں جانوروں اور پودوں کو تخلیق کیا۔ پودوں نے بالعموم توانائی کو ذخیرہ کیے رکھا اور بے حرکت رہے جبکہ جانوروں نے توانائی سے کام لیا اور متحرک ہو گئے۔ جانوروں میں فطرت نے دو مختلف روشیں اختیار کیں۔۔۔ ایک حشرات کی جانب جو جبلتی مخلوقات ہیں اور دوسری ریڑھ دار جانوروں کی جانب جن میں ذہانت نے جنم لیا اور درجہ بدرجہ ترقی پائی۔ جبلت اور عقل کے درمیان اینٹی تھیس برگساں کی فکر میں اساسی حیثیت رکھتا ہے۔ اُس نے جبلت کو ذہانت کی نسبت فطرت سے زیادہ قریب قرار دیا: وہ جبلت جو خود آگاہ اپنے معروض پر غور و فکر کے قابل بن جائے۔ بہ الفاظ دیگر وجدان کی صورت میں قلب ماہیت کر جانے والی جبلت ہی ارتقاء کی داخلیت کی تفہیم حاصل کرنے کی اہل ہے۔
اس تصویر وجدان کو سمجھنے کے لیے برگساں کے ایک اور فکری پہلو کو سامنے رکھنا مفید ہے۔ یعنی تخلیقی ارتقاء میں مادے کا کردار تخلیقی ارتقاء میں ہمیں قوت حیات” کی زبر دست قوت اور مادے کی جانب سے اس کی مدافعت کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ قوت کے تحت فروغ پاتی ہوئی زندگی کو اپنے متضاد مادے سے نمٹنا اور اُسے مغلوب کرنا پڑتا ہے۔ قوت حیات تو زندگی کے اختیار میں ہے لیکن مادہ نہیں۔ زندگی مادے میں جذب ہونے کے ذریعہ اسے مغلوب کرتی ہے۔ وہ مادے میں داخل ہوتی اور اُسے تھوڑا تھوڑا کر کے اپنی جانب مائل کرتی ہے۔
برگساں نے دکھایا کہ زندگی عمومی صورت اور انفرادی شعور میں بھی ایک ہی جیسے اوصاف کی مالک ہے: بلا رکاوٹ متواتر بہاؤ جو پائیدار ہے اور جس کا جو ہر زماں (Time) ہے۔ زندگی کی دونوں صورتوں کی تہہ میں قوت حیات کی زبر دست تحریک کارفرما ہے۔ یہی تخلیقی ارتقاء انواع کے آغاز اور ترقی کے لیے حتمی ذمہ دار ہے۔ اس عظیم تخلیقی ایڈونچر کے راز کو وجدان کے ذریعہ کھوجا جا سکتا ہے۔ وجدان عام طور پر ہمارے اندر کو خواب رہتا ہے جسے جگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
بیسویں صدی کے فلسفیوں، آرٹسٹوں اور اہل قلم نے برگساں کی کتب کے علاوہ متعدد مقالوں اور لیکچرز کا بھی گہرا اثر قبول کیا۔ اگر چہ اُسے اکثر وجدانیت پسند فلسفیانہ مکتبہ فکر کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے لیکن وہ بہت اچھوتا اور حقیقی نادر خیالات کا حامل ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں