کتھا چار جنموں کی۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط25

اردو کے ایک فرزانہ و دیوانہ کی کتھا!
میں جب واشنگٹن ڈی سی کے ایک نواحی قصبے آرلنگٹن میں اقامت پذیر ہو گیا تو اردو کے جن احباب سے میری ملاقات سب سے پہلے ہوئی ان میں دس بارہ کی تعداد میں لوگ ایسے تھے جو جدید شاعری کے تناظر میں تو شاید اس قدر نہیں جتنا افسانوں کے حوالے سے میرے نام سے واقف تھے۔ سر فہرست ڈاکٹر عبداللہ تھے۔۔ اور اب تک ہیں۔(اللہ کرے کہ  زندگی کی آخر سانس تک، یعنی میری  آخری سانس تک یا ان کی  آخری سانس تک یہ ساتھ نبھاتے رہیں)

ڈاکٹر عبداللہ سے دوستی، رفاقت اور پیا رکا تعلق اب بیالیس برس پرانا ہو چکا ہے۔ عام طور پر دوستی کے رشتوں میں اتار چڑھاؤ آتے ہیں، یہ عجیب اتفاق ہے کہ اس تعلق خاطر میں اتار بالکل نہیں آئے، چڑھاؤ کی بھی ایک مدت ہوتی ہے اس کے بعد سطح مرتفح کا ایک ایسا پڑاؤ آتا ہے جو پڑاؤ رہتے رہتے بھی منزل کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ دوستی کے ایک ایسے مرحلے کا سراغ ملتا ہے، جس سے آگے کوئی نئی منزل سرے سے ہے ہی نہیں۔

انگریز سیاست دان چیسٹرٹن ؔChestertpnنے اپنے غیر سیاسی دوست گرینوےؔ Greenway اور اپنی دوستی کے بارے میں لکھا ہے، ”اب ایک ایسا وقت آ گیا ہے کہ میں کسی بھی شام کو ایک دو گھنٹوں کے لیے اس کے گھر چلا جاتا ہوں۔ مجھے علم ہے کہ پاؤں میں گنٹھیا ہونے کی وجہ سے وہ خود نہیں آ سکتا۔ ہم لوگ برآمدے میں ساتھ ساتھ کرسیوں پر بیٹھتے ہیں، اپنا اپنا پائپ سلگاتے ہیں، ایک بار، دو بار یا تین بار۔ پھر تمباکو جھٹکتے ہیں، نیا تمباکو بھر کرچوتھی بار بھی سلگاتے ہیں۔ جب وہ بھی راکھ میں بدل جاتا ہے تو میں راکھ جھاڑ کرPilpe اپنی ویسٹ کوٹ کی جیب میں رکھ لیتا ہوں۔ کھڑا ہو جاتا ہوں، اس سے ہاتھ ملاتا ہوں، اور دو گھنٹوں میں چلتے چلتے صرف ایک فقرہ کہتا ہوں، جو ہر کوئی سن سکتا ہے۔ ’گُڈ بائی،آج بہت اچھی گفتگو رہی۔‘وہ گفتگو جو صرف ہم دونوں ہی سن سکتے ہیں، صرف ہمارے مابین ہی ہوئی ہے، اسے کوئی تیسرا نہیں سن سکتا۔“

یہی حال میری اور عبداللہ صاحب کی رفاقت کا ہے۔پینتیس برسوں میں اس دوستی نے”گرم سرد چشیدہ“ مراحل نہیں دیکھے اور یہی اس کی کامیابی کا پیمانہ ہے۔اس بارے میں اس سے زیادہ اور کیا لکھ سکتا ہوں۔

کتھا چار جنموں کی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط24

چنڈیگڑھ یونیورسٹی میں چوتھائی صدی کے قیام کے دوران ایک رویہ سا اختیار کر لیا تھا کہ چونکہ میں اردو کی غزلیہ شاعری کو سنی سنائی جانے والی صنف سمجھ کر اسے ”اوریچر“ کہتا ہوں اور مشاعروں میں صرف اسی صنف کا کاروبار ہوتا ہے، اس لیے مجھے مشاعروں میں نہیں جانا چاہیے۔(نجی محافل کی بات دوسری ہے) یہ رویہ میرے واشنگٹن ڈی سی میں پہنچنے کے بعد بھی ایک راسخ عقیدے کی طرح غزل گو شعرا کے وطیرے کے بر عکس میرے ایک مختلف قسم کے شاعر ہونے کی سند تھا، لیکن ڈاکٹر عبداللہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی المنائی ایسوسی ایشن، شمالی امریکا، کے محرک، بانی اور سربراہ تھے اور چونکہ یہ انجمن اپنی مادر علمی کے لیے فنڈنگ کی خاطر ہر برس مختلف شہروں میں مشاعرے منعقد کروا کر کچھ رقم بٹورتی تھی، ایک دو مشاعروں میں شرکت کے لیے وہ مجھے بھی ساتھ لے گئے۔

کہاں مشاعرے میں ترنم سے پڑھنے والے یا ’والیاں‘ اور کہاں ایک آزاد نظم کا شاعر جس کی نظموں کے معانی سطح سے کہیں نیچے، بہت نیچے، پوشیدہ ہوتے ہیں! مجھے ہر بار یہ احساس ہوا کہ میں اس اسٹیج پر misplaced ہوں، جیسے کھانے کے کمرے کا کوئی برتن اٹھا کر سنڈاس میں رکھ دیا جائے، ابکائی آنے کی حد تک میں یہ برداشت کرتا رہا، لیکن ایک دن آخر میں نے صاف انکار بھی کر دیا۔ ناراض نہیں ہوئے، لیکن کچھ نا امید ہوئے، لیکن پھر ہم دونوں نے چیسٹرٹن اور اس کے دوست کے خاموش انسلاک باہمی کے رویے کوسامنے رکھ کر یہ بھی منظور کر لیا۔ چھٹی ہوئی، خلاصی ہوئی، میں نے سوچا، لیکن اب بھی کبھی کبھی میں گھیر لیا جاتا ہوں اور دیگر کچھ شاعر دوستوں کے ساتھ جو میرے غریب خانے پر قیام فرماتے ہیں، نرغے میں لے کر مجھے مشاعرہ گاہ میں پہنچا دیا جاتا ہے۔لیکن پنجا بی کا ایک محاورہ ”پھاتھی وی تے ہُن چیں چیں کیوں؟“، کسی پرانی لوک کہانی میں سے ہے، جس میں ایک ’چڑی مار‘ جال میں پھنسی ہوئی چڑیا سے کہتا ہے، ”تم جانتی تو ہو کہ تم پھنس گئی ہو، تو اب شور و غل کیوں مچا رکھا ہے؟“

ڈاکٹر عبداللہ سائنس کے کسی طبی مضمون میں امریکا کی Buffalo یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہیں۔ ان کی بیگم صوفیہؔ ڈاکٹر ہیں۔ خدا جانے کب اپنی لیبارٹر ی میں ڈاکٹر عبداللہ اپنے کام کو سنبھالتے ہیں، خدا جانے کب وہ بیوی اور بچوں کی طرف توجہ دے پاتے ہیں یا گھر کے سینکڑوں کام کاج، جو یہاں کی زندگی میں مرد کے معمول کا خاصا ہیں، کرنے میں مصروف ہوتے ہیں، کیوں کہ میں جب بھی انہیں پایا، شہر کے اندر یا شہر کے باہر دوستوں اور عزیزوں کے کاموں میں غرق پایا۔ فلاں کی بیٹی کی منگنی ہے،فلاں کے بیٹے کی شادی ہے، فلاں کے پوتے کا عقیقہ ہے، فلاں کا انتقال ہو گیا ہے، آج نماز جنازہ ہے، فلاں بیمار ہے اور ہسپتال میں داخل ہے اور مجھے مزاج پرسی کے لیے جانا ہے۔ آج فراز ؔ آ رہا ہے، اسے ائیر پورٹ پر ریسیو کرنا ہے اور پھر ہوٹل پہنچانا ہے، آج شبانہ اعظمی اور ان کے خاوند جاوید اختر آ رہے ہیں، ان کی پیشوائی کرنی ہے۔ آج ستیہ پال آنند کی عزت افزائی کے لیے سفارت خانے کے ہال میں ایک مخلوط ہندی اردو مشاعرہ ہے، اس کی نظامت کرنی ہے۔ آج سروج جوشی جی کے ہاں لکھنؤ سے ڈاکٹر داؤ جی گپتا آئے ہوئے ہیں، ان سے ملنے جانا ہے۔ آج ظفر اقبال صاحب کی انجمن G.O.P.I.O کا اجلاس ہے، اس میں شرکت کرنی ہے۔ آج ابو الحسن نغمی صاحب کی انجمن ”سوسائٹی آف اردو لٹریچر“ (S.O.U.L.)کا ماہانہ اجلاس ہے، اس میں شرکت ضروری ہے۔ آج ہندی کوی سمیلن میں اپنی نظمیں سنانی ہیں، اس کے لیے درگا مندر جانا ضروری ہے۔

”بیچاری صوفیہ بھابھی!“ میں نے ایک دن کہا، ”ان کے لیے آپ کب وقت نکالتے ہیں؟ اگر میں ایسے کروں تو میری بیوی تو مجھے طلاق دے دے!“ کہنے لگے، ”وہ بھی میری مجبوری کو جانتی ہیں۔ ایک المنائی ایسوسی ایشن ہی نہیں ہے، اور بھی لاکھ قضیّے ہیں، سب سے نپٹنا پڑتا ہے۔“ میں نے لقمہ دیا، ”گویا، صوفیہ بھابھی اگر گھر نہ سنبھالیں اور پیچھے رہ کر، خود کو پس پشت ڈال کر، لائم لائٹ میں آئے بغیر، آپ کی سماجی مصروفیات کو ترقی دینے کے لیے خود کو قربان نہ کریں، تو آپ کہاں ٹھہریں گے؟“ بولے، ”آپ صحیح فرماتے ہیں لیکن اب جیسا ہم دونوں بن چکے ہیں، اس میں تبدیلی ممکن نہیں! “

اسی دن ستار اور تان پورے کے استعارے کو لے کر ایک نظم خلق ہوئی۔ ستار کے پیچھے، یعنی پس پردہ یا روشنی کے ہالے سے باہر تان پورہ بجانے والا موسیقار بیٹھ کر اپنا ساز بجاتا رہتا ہے۔ اس کی لگاتار ایک جیسی دھُن، تان کی ”پورتی“ کے لیے یعنی تان کو پورا کرنے کے لیے ہی ہوتی ہے۔ اگر ستار پر موسیقار کی انگلی ایک ثانیے کے لیے پھسل جائے یا رک جائے تو بھی تان پورا بجتا رہتا ہے اور سامعین کو یہی احساس ہوتا ہے کہ ستار بجتا چلا جا رہا ہے۔ نظم ستار اور تان پورے کے ہم آہنگ باہمی تعلق کو میاں اور بیوی کے تعلق کو استعارے کے طور پیش کرتی ہے۔ یہ بھی ان نظموں کے سلسلے کی نظم ہے جو سب کی سب بحر خفیف میں خلق ہوئیں اور جن میں رن۔آن۔لائنز کا التزام ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بند ہو جا، ستار، پیچھے سے
ایک ہی سُر میں، ایک ہی لے میں
تیری تانوں میں خود کو کھوئے ہوئے
تان پوراجو بج رہا ہے، اسے
مجھ کو سننا ہے۔۔۔اس حقیقت کا
مجھ سے بڑھ کر کسے پتہ ہے کوئی
پیچھے رہ کر بھی اپنا سارا وجود
ساری محنت، تما م فکرو عمل
خود سے کچھ آگے رہنے والے پر
کیسے قربان کرتا رہتا ہے!!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply