بوہر کی انجانی دنیا (64)۔۔وہاراامبار

سائنسی تحقیق میں معلوم اور نامعلوم کے درمیان کی سرحد گہری دھند میں رہتی ہے۔ کوئی بھی فعال سائنسدان اپنی محنت غیردلچسپ سوالوں یا بند گلی کے راستوں میں ضائع کرتا ہے۔ کامیاب سائنسدان ایسے مسائل کا انتخاب کرتا ہے جو دلچسپ بھی ہوں اور قابلِ حل بھی۔ اور یہاں پر ایک مسئلہ ہے۔

سائنسدان اور آرٹسٹ کا کام نئے کی تخلیق ہے لیکن ان میں ایک فرق ہے۔ آرٹسٹ کو ایک چیز کا فائدہ ہے۔ آرٹ میں اگر آپ کے ہم عصر اور نقاد خواہ آپ کے کام کو کتنا ہی ناقص کیوں نہ کہیں، وہ اسے ثابت نہیں کر سکتے۔ جبکہ فزکس میں وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ فزکس میں خوبصورت خیال بے معنی ہے اگر وہ درست نہیں۔ اور یہ اب ایک مشکل توازن ہے۔ اگر ریسرچ پرابلم کا انتخاب کرنے میں بہت احتیاط کی جائے تو کچھ بھی نیا نہیں کیا جا سکے گا۔ سب سے ہٹ کر الگ ہی کام میں ہاتھ ڈالنا آسان فیصلہ نہیں۔

آئن سٹائن نے فوٹون کا تصور پیش کیا اور ایسا لگتا ہے کہ اس نئی کوانٹم تھیوری کو نئی تحقیق کے دورازے کھول دینا چاہیے تھیں لیکن زیادہ تر ہم عصر اس بارے میں متشکک تھے۔ اور ایسا ہونے کی اچھی وجہ تھی۔ اتنے شواہدات موجود نہیں تھے اور اس سمت میں کسی کو کام کرنے کے لئے بڑی جرات درکار تھی۔

دس سال گزر گئے اور تقریباً کوئی بھی پراگریس نہیں ہوئی۔ آئن سٹائن خود بھی کسی اور مسئلے پر کام کر رہے تھے جو اپنی تھیوری میں گریویٹی کو شامل کرنے کی کوشش تھی جس سے بعد میں جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی تک پہنچے۔ (سپیشل تھیوری آف ریلیٹیویٹی نیوٹن کے حرکت کے قوانین کے بارے میں تھی جبکہ جنرل تھیوری نیوٹن کے گریویٹی کی جگہ پر اور اس کے لئے سپیشل تھیوری آف ریلیٹیویٹی میں ترمیم کرنا پڑی)۔

آئن سٹائن کی اس طرف توجہ نہ دینے پر رابرٹ ملیکن نے لکھا، “اگرچہ آئن سٹائن کی فوٹوالیکٹرک ایفیکٹ کی مساوات بظاہر مکمل لگتی ہیں لیکن ان کی وضاحت کی فزیکل تھیوری اس قدر کمزور ہے کہ میرا خیال ہے کہ آئن سٹائن خود بھی اس سے پیچھے ہٹ چکے ہیں”۔

ملیکین غلط تھے۔ آئن سٹائن نے فوٹون کا تصور ترک نہیں کیا تھا لیکن ان کی توجہ کسی اور طرف تھی۔ اور نہ ہی فوٹون اور نہ ہی ان کا شروع کیا گیا کوانٹم تصور فوت ہوا تھا۔ اس میں نئے سٹار آنے تھے۔ اور اس کے لئے ہم جس کا شکریہ ادا کر سکتے ہیں، وہ ایک نوجوان تھا جس کے پاس اتنا تجربہ نہیں تھا کہ اسے سمجھ آتی کہ ایسے آئیڈیاز جو ہمارے ان تصورات کو چیلنج کرتے ہیں جن پر ہمارے خیال میں دنیا قائم ہے، ان کو بالکل ہی نئے انداز سے سوچنے پر وقت لگانا کرنا بہت بڑا رِسک ہے۔

یہ نوجوان نیلز بوہر تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خلا رکھنے والی شیشے کی ٹیوب اور دیگر ایجادات کی مدد سے کئی اہم بریک تھرو ہوئے۔ ولیم رونٹگن کی ایکسرے کی دریافت، تھامسن کی الیکٹران کی دریافت، رتھرفورڈ کی تابکاری کی دریافت ان میں تھیں۔ رتھرفورڈ نے دریافت کیا کہ یورینیم یا تھوریم جیسے عناصر کچھ پرسرار شعاعیں خارج کرتے ہیں اور یہ تین اقسام کی ہیں۔ الفا، بیٹا اور گاما۔ انہوں نے یہ اندازہ لگایا کہ یہ ایٹم کے ایک عنصر کی ٹوٹ کر دوسرے ایٹم بننے کے درمیان نکلنے والا ملبہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تھامسن اور رتھرفورڈ کی دریافتیں بہت اہم تھیں کیونکہ ان کا تعلق ایٹم اور ان کے حصوں سے تھا اور نیوٹن کے تصوراتی فریم ورک سے ان کی وضاحت نہیں ہو پاتی تھی۔ یہ مشاہدات فزکس کو کرنے کے نئے طریقے کا تقاضا کرتے تھے۔

تجرباتی اور تھیوریٹکل فزکس میں ہونے والی پے در پے دریافتوں کے سامنے فزکس کا ابتدائی ری ایکشن ان کو نظرانداز کر دینا تھا۔ ویسے ہی جیسے پلانک کے کوانٹم اور آئن سٹائن کے فوٹون کو نظرانداز کیا گیا تھا، ان نئے تجربات کے انقلابی نتائج کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔

جو لوگ ایٹم کو میٹافزیکل non-sense کہتے تھے، ان کے لئے الیکٹران کا تصور اس سے بھی بڑی نان سینس تھی۔ لیکن جو لوگ ایٹم کی تصور کے حمایتی تھے، ان کے لئے بھی اسے قبول کرنا آسان نہیں تھا۔ کیونکہ اگر ایٹم ناقابلِ تقسیم تھا تو اس کے مزید حصے کی بات نان سینس تھی۔ تھامپسن کا الیکٹران کسی نے بھی ابتدا میں سنجیدگی سے نہیں لیا۔

اسی طرح رتھرفورڈ کا خیال کہ ایک عنصر کا ایٹم ڈیکے ہو کر کسی اور عنصر میں بدل جاتا ہے، ایسا لگتا تھا جیسے کوئی الکیمیا کا چغہ پہن کر آ گیا ہو۔ 1903 میں رتھرفورڈ کے ساتھی اتنی بہادر نہیں تھے کہ عناصر کی ٹرانسمیوٹیشن کے بلند دعوے کو قبول کر سکیں۔ (ستم ظریفی یہ کہ وہ اتنے بہادر ضرور تھے کہ رتھرفورڈ کے تابکار ٹکڑوں سے کھیلتے رہے اور اس دوران خود کو تابکاری سے ایکسپوز کیا۔ اس عمل سے خود کو ضرر پہنچایا جو ان کے خیال میں ہوتا ہی نہیں تھا)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمع ہوتے ہوئے تجرباتی شواہد اور آئن سٹائن کی تھیوریٹیکل فزکس کے دلائل نے بالآخر فزکس میں ایٹم اور اس کے اجزا کو منوا لیا۔ تھامسن کو الیکٹران کی دریافت پر 1906 میں فزکس کا جبکہ رتھرفورڈ کو اپنی دریافت پر 1908 میں کیمسٹری کا نوبل انعام ملا۔

اور یہ وجہ پس منظر تھا جس نیلز بوہر فزکس کی تحقیق کی دنیا میں داخل ہوئے۔ وہ آئن سٹائن سے صرف پانچ سال چھوٹے تھے لیکن یہ اتنا بڑا گیپ تھا کہ ان کو فزکس کی نئی نسل کہا جا سکتا تھا۔ یہ جنریشن وہ تھی جو ایٹم اور الیکٹران کو قبول کر چکی تھی۔ فوٹون ابھی متنازعہ تھا۔

بوہر نے اپنے پی ایچ ڈی میں تھامسن کی تھیوریوں پر تنقید کا موضوع چنا تھا۔ خیالات کی بحث ہمیشہ سے سائنس کا کلیدی فیچر رہا ہے لیکن تھامسن ایک طالبعلم سے بحث کو تیار نہیں تھے۔ اس کوشش میں بوہر کی ملاقات رتھرفورڈ سے ہو گئی جو تھامسن کے ساتھ کام کرتے رہے تھے۔ رتھرفورڈ کو بوہر پسند آئے اور انہوں نے بوہر کو اپنی لیبارٹری میں کام کرنے کی دعوت دی۔

رتھرفورڈ کے ساتھ کام کرنا بوہر کے لئے سودمند ثابت ہوا۔ رتھرفورڈ ایٹم کا ماڈل بنا رہے تھے۔ بوہر کو اس کا جنون ہو گیا۔ اور یہاں سے بوہر نے کوانٹم آئیڈیا کو پھر زندہ کیا۔ اور انہوں نے وہ کر دکھایا جو آئن سٹائن کے فوٹون کے کام نے نہیں کیا تھا۔ انہوں نے کوانٹم آئیڈیا کو ہمیشہ کے لئے فزکس کے نقشے کا حصہ بنا دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply