بارے کچھ یوسفی صاحب کے—– احمد رضوان

یوسفی صاحب سے ہماری اولین شناسائی شبِ تنہائی میں “چراغ تلے” ہوئی اور ایسی ہوئی کہ پھر اس کے بعد ۔۔میں میں نہ رہااور جو رہی تو باخبری رہی۔ جی ہاں ہمارے جیسے بے بضاعت ،کم فہم  و علم انسان میں  ان کی  تحاریر  خرمن ِ باطن  کو روشن  کر نے کے ساتھ ساتھ دماغ کو  جلا بخش  گئیں۔ جس زمانے میں   جوانوں نے   ستاروں پر کمند ڈالنے سے مراد  فلمی ستارے نکالا تھا اور ان کے تکیوں کے نیچے سےاور خوابوں  کے دریچے سے یہی صورتیاں اور مورتیاں نکلتی تھیں تب بھی میرے سرہانے ان کی کتب یوں دھری اور دوہری رہتی تھیں کہ اکثر شب تنہائی میں نیند سے ذرا پہلے مطالعہ یوسفی ایک ایسے ہی ٹانک کا درجہ رکھتا تھا جیسے دنیا ٹرانکولائزر کا سہارا لیتی ہے سکون کی تلاش میں ۔لڑکپن کی یہ عادت ایسی مستقل ہوئی کہ آج بھی بیڈ سائیڈ پر پانچوں کتب ہر وقت دستیاب رہتی ہیں اور جب تک ان سے کچھ پڑھ نہ لوں، نیند کی وادی میں اترنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ تو صاحبو یہ مسکن  اور خواب آور   کا کام سر انجام دینے لگی ہیں اپنے مؤلف کے نام کی نسبت سے کہ جس وفور ِ شوق سے ان کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور پھر ان سے مہمیز ہو کر  خواب دیکھنے اور ان کی تعبیر پانے کا عزم بالجزم ازخود نمو پاکر پروان چڑھتا ہے اور چھتنار شجر  کا روپ دھار لیتا ہے  ۔

معروف گلوکار  غلام علی خان صاحب  سے ریڈیو پروگرام میں ایک سکھ نےسوال پوچھا کہ خان صاحب کیا وجہ ہے جب دوچار پیگ لگانے کے بعد آپ کا گایا ہوا کلام سنتا ہوں  تو نشہ یوں چڑھ جاتا ہے جیسے شرابیں  شرابوں میں ملیں اور سرور اپنی آخری حدوں کو چھونے لگتا ہے ؟ غلام علی خان بولے، پھر تو آپ کو مجھے گانے کے ساتھ ساتھ خمارچڑھنے کی بھی رائیلٹی دینی چاہیئے۔  کچھ اسی طرح مجھے لگتا ہے کتاب کی قیمت کے ساتھ ساتھ یوسفی صاحب ایک نشاط انگیز اور پرسکون نیند کا باعث بننے پر اضافی رائیلٹی  کے حقدار ہیں جو میرے جیسا ایک ادنیٰ قاری ان پر چند  لفظی چاند ماری سے تو ادا کرنے سے قاصر ہے۔ آپ احباب اگر کوئی راہ سجھا سکیں تو مجھ پر احسانِ عظیم ہوگا ۔

کچھ کتابیں اپنے چاہنے والوں کے لئے اتنی قیمتی بن جاتی ہیں کہ پھر ان سے دوری کسی بچھڑے محبوب کی یاد سے زیادہ تکلیف دہ بن جاتی ہے۔   سالِ گذشتہ بعد مدت کے جب شام شہر یاراں کا اجراء ہوا تو ہماری خوشی دیدنی تھی۔ خوش قسمتی سے(ہر لحاظ سے ہماری ) زوجہ محترمہ اپنے والدین کی قدم بوسی کے لئے پاکستان میں تھیں اور ہمیں ان کے پاکستان سے واپس آنے سے ذیادہ خوشی ان کے ہاتھوں شامِ شہر یاراں کے آنے پر ہوئی۔ جس لپک اور لہک سے ہم نے اس  محبوب کو  سینے سے لگایا اور پلکوں کی مسند پر بٹھایا اس کا اگر ہم عشرِ عشیر بھی بیگم کی نازبرداریوں میں کرتے تو خانگی زندگی کا سکون برقرار رہتا۔ کتابوں کے بارے میں   مگر صاحبو ہمیں ہر طرح کی دشنام  اور طعن وتشنیع بھی منظور ہے۔ جب ایک دور پار کے عزیز اس کتاب کے بارے  مشک بار  ہوکر رشک بار ہوئے اور انہوں نے عاریتاََ کتاب مانگی تو ہم اشک بار ہوئے  بغیر  ان کو کورا جواب دے کر ان کی نظر میں برادرانِ یوسف کی صف میں جگہ پا گئے۔ اور سچ پوچھئے تو ہمیں بالکل بھی برا نہیں لگا کہ آخر نام کی رعایت سے اتنا تو حق بنتا ہے یوسفی صاحب کا ہم پر۔ یوسفی صاحب کے ایک اور ممدوح جگت چاچا  مستنصر حسین تارڑ رقم طراز ہیں  “۔مشتاق احمد یوسفی۔۔۔ کیا کسی کو شک ہے کہ ہم عہد یوسفی میں جی رہے ہیں اگرچہ یوسفی صاحب تو اس طرح نہیں جی رہے جس طرح جیا جانا چاہیے۔ زہرہ نگاہ کے بقول کبھی پہچان لیتے ہیں اور کبھی پوچھتے ہیں کہ یہ کون لڑکی ہے۔ ان سے کراچی میں ملاقات ہوئی تو اُن کے مہرے پر میرے لیے کوئی پہچان نہ تھی، اس کے باوجود کہ انہوں نے شوکت صدیقی کے بعد دوہا قطر کے عالمی ایوارڈ کے لیے میرا انتخاب کیا۔ بقول افتخار عارف جب اس نے یوسفی صاحب سے پوچھا اور یہ بہت برس پہلے کا قصہ ہے کہ لمحۂ موجود میں وہ کس نثر نگار کو بڑا مانتے ہیں، اس کے قائل ہیں تو انہوں نے میرا نام لیا۔۔۔ یوسفی صاحب میرے محسن ہیں۔”

یوسفی صاحب کی کتابوں میں موجود کردار اور ان کا روزمرہ زندگی میں عمل دخل  اور واقعات جو ان پر بیتتے ہیں کہیں افسانوی رنگ لیے ہوئے نہیں ہیں۔ ایسی تحریر کے لئے صرف گہرا مشاہدہ ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ گہرائی اور  گیرائی میں اتر کر اسے اپنی ذات پر محسوس کرنے سے ہی آپ پر وہ بین السطور اور ملفوف بات کھلتی ہے جسے ہم سرسری سمجھتے ہوئے نظر انداز کرجاتے ہیں۔ یہ سارے لوگ ہمارے معاشرے میں موجود پائے جاتے ہیں، ہمارے اردگرد ہی ہیں مگر ہماری نگاہ اور شعور  اس کا اس طرح سے مشاھدہ نہیں کر پاتا جسطرح ایک اسیب۔ یہ ایسا وصف ہے جو  ہر ادیب میں کسی نہ کسی درجے میں موجود ہوتا ہے اور وہ اس سے اخذ کردہ جوہر کو کامل اور سندر کرکے پیش کرتا ہے۔ اس مشاہدے کو اوج کمال تک پہنچانا ہی اصل کاریگری ہے ۔  یوسفی صاحب کے ہاں  نازک اور لطیف طنز کی آمیزش اپنے قاری کو اپنے سحر میں جکڑ کر،اپنی لہروں میں بہا کر، تبسم کے جزیروں میں لا پٹکتی ہے  اور انسان اس مقام پر اپنے آپ سے ہمکلام ہونے کا ہنر آشنا ہونے لگتاہے ۔زبان و بیان کی چاشنی ایسی کہ انسان پڑھتے ہوئے بغیر چینی کی چائے پی جائے اور باخبر ہونے پر بیگم صاحبہ پر نکتہ چینی بھی نہ کرسکے۔شوخ و طرار بلکہ طرح دار جملے، باریک و متین و برجستہ  شوخی سے مزین بے ساختہ ان کے قلم سے جھرنوں کی طرح پھوٹتے ہیں۔ان کا طنز دل میں تیر کی طرح نہیں  پھول کی طرح ترازو ہوتا ہے ۔

ایک نسبت جو ہمیں ان سے محسوس ہوتی ہے اور جو اکثر بڑے ادیبوں میں پائی جاتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی جسمانی عارضے میں مبتلا ہونا ہے۔ اگر انسان جوانی میں زبان دانی کے چسکے کے ساتھ ساتھ طعام کے چٹپٹے پن کا شکار ہوجائے، میری طرح، تو فم معدہ سے السر تک کی ساری بیماریاں آپ کو دودھ میں روٹی بھگو کر کھانے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ واقعی نعمت کے چھن جانے سے پہلے اس کا احساس نہیں ہوتا۔ اس تیزابیت نے ہمیں بھی کہیں کا نہیں چھوڑا۔ مرچوں کے بارے ہی کہا گیا تھا شائد کہ اک آگ کا دریا ہے اور انہیں ٹوٹ کر کھانا ہے۔  سوندھے بھوبھل کے چنوں کی خوشبو ہو یا تازہ سبز  مرچ کو ہلکا سا چیرا دے کر ہنڈیا میں ڈالتے جو مہک اٹھتی ہے، ایک نارمل صحتمند انسان شائد ان کے بارے سوچتا بھی نہ ہو مگر ہمارے تو منہ میں پانی اور کلیجے کی جگہ معدے سے نکلتی آہ اشتہا کے اس درجے میں لے جاتی ہے جہاں معدے کی تیزابیت  دوچند ہو جاتی ہے۔

شگفتگی کسی کی میراث نہیں ہوتی ورنہ آج مشتاق احمدیوسفی ،شفیق الرحمٰن اور پطرس بخاری کے وارثین بھی اسی طرح مزاح نگاروں کے سرخیل ہوتے جس طرح سیاست،صحافت،شجاعت اورعدالت نامی چاروں ستونوں پر قابضیں اور ان کی اولاد ہے۔ مزاح نگاری بلاشبہ ادب کی مشکل ترین اصناف میں سے ایک ہے۔ ایک ایک جملے کو یوں  سوچ کر لکھنا کہ کہیں بھی پھکڑ پن کا احساس نہ ہو اور نازک آبگینوں کو ٹھیس لگنے کا زرا سا بھی اندیشہ نہ ہو۔ کیونکہ مزاح اور طنز میں بال سے باریک اور تلوار سے تیز پل صراط پر آبلہ پا چلنا پڑتا ہے اور لڑکھڑا کر گرنے کے امکانات بڑھتے جاتے ہیں ہر اٹھتے قدم کے ساتھ۔ زودگوئی بھی عمدہ اور نفیس مزاح کے لئے سم قاتل ہے۔ پطرس بخاری ایک کتاب اور یوسفی صاحب پانچ کتابوں کے ساتھ ادب کی دنیا کے روشن ستارے ہیں اور جب تک لکھا جاتا رہے گا یوں ہی چمکتے رہیں گے۔ جبکہ کئی ایسے جنہوں نے کتابوں کے ڈھیر کے ڈھیر لکھ مارے شاید آپ کے اور میرے اذہان میں ان کے نام تک محفوظ نہ ہوں ان کا کام اور کلام تو دور کی بات ہے ۔مرزا غالب ساری عمر کی شاعری کا نچوڑ چند سو اشعار کی شکل میں مطبوعہ کروا کر دواوین والے سارے ہم عصر شعراء پر بھاری پڑ گئے۔

یوسفی صاحب نے مقدار اور میعار کی جو اونچائی مقرر کر دی ہے اس کو پھلانگنا تو ممکن نہیں البتہ اس تک پہنچنا لکھنے والے کے لئے  متعین نصب العین رہنا چاہئے۔ پول والٹ کے کھیل کی طرح  جس کے لئے بہت زیادہ مشق کی ضرورت ہے کہ اس کے اوپر سے کود کر فاتح بنا جائے بلکہ آپ کے قلم کو بھی چھڑی کی  طرح لچکیلا اور سہار والا ہونا چاہیے،  ورنہ نٹ کھٹ جملے نشتر بن کرپہلے آپ کو  زخمی کریں گے اور قاری کے حصے مایوسی آئےگی۔

میری مادری زبان اردو کی بجائے پنجابی ہے مگر اہل زبان کا وہ قرض جو انہوں نےپاکستان کی محبت میں ہجرت کرکے ہم پر چڑھا دیا تھا، ہم پنجابیوں نے اس کا احسان اردو کو اپنے گھروں میں مادری زبان کا درجہ دے کر کسی حد تک اتار نے کی کوشش کی۔ گھروں میں عام طور پر ساری درسی و غیر درسی کتب اردو میں ہی دستیاب ہوتی ہیں اور پنجابی کتب آپ کو ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں۔ ہاں مگر پنجابی صوفیا کا کلام آپ کو پڑھنے کے لئے کتابی صورت میں مل جاتا ہے جو اپنے آپ میں ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اردو ادب یوسفی صاحب کو آداب و تسلیم کہتا رہے، وہ ان چند ادیبوں میں سے ہیں  جنہیں پڑھ کر ،سن کر ،دیکھ کر  یکساں فرحت کا احساس ہوتا ہے ۔دعا ہے یہ روشنی چراغ تلے بھی رہے اور ہمارے دلوں میں بھی ۔یوسفی صاحب حروف تہجی کی طرح ہیں ہماری لوح ِ دل پر ،اللہ جل شانہ ان کو عمرِخضر عطا کرے اور ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔ چوتھی نسل ہے جو ان کے لکھے کو پڑھ کرہنستے ہنستے اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو پونچھتی ہوئی ان کی درازیِ عمر و صحت کے لئے دعاگو ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply