چوری حج۔۔اصغر محمود چوہدری

اگر تو آپ ہیومن رائٹس ، چائلڈ لیبر ، چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ ، وویمن رائٹس ، لیبر لا ءاور پرائیویسی جیسے موضوعات کے بارے تھوڑا بہت علم رکھتے ہیں تو حج و عمرہ کا سفر کرنے سے پہلے اپنے ذہن میں صرف ایک بات ڈال لیں کہ آپ وہاں روح کی بالیدگی اور وصال یار کی لذت سے آشنا ہونے جارہے ہیں اس لئے آپ وہاں ہونے والے دیگر معاملات سے اپنی آنکھیں اور کان بالکل بند رکھیں گے ۔ اگر تو آپ دین کو دیگر مذاہب کی طرح عبادات کا مجموعہ ہی سمجھتے ہیں توپھر کوئی مسئلہ نہیں البتہ اگر آپ نے مولانامودودی ، ڈاکٹر اسرار احمد اور طاہر القادری جیسے انقلابی اسلامی لکھاریوں کی تحریروں کا مطالعہ کیا ہے جو اسلام کو ایک مکمل نظام زندگی یا ”کوڈ آف کنڈکٹ“ قرار دینے پر بضد ہیں تو یاد رکھ لیں کہ ایسا کوئی نمونہ فی الحال شاید کسی اسلامی مملکت میں تو کیا وہاں بھی نظر نہ آئے جو مسلمانوں کا مرکز ہے

مسجد الحرام میں کئی لاکھ لوگ ایک ساتھ نماز پڑھتے ہیں ۔ آپ نماز پڑ ھ کرمسجد سے باہر نکلیں تووہاں آپ کو لاتعداد بھکاری نظر آئیں گے ضروری نہیں کہ سب پیشہ ور گداگر ہوں بلکہ بعض مستحق بھی نظر آتے ہیں مثلا ً بعض کے جسم کا کوئی عضو کٹا ہوا ہے ۔ اگر آپ کسی ویلفیئر ریاست سے ہیں تو آپ کے ذہن میں فوراً سوال پیدا ہو سکتا ہے یہ معذور لوگ بھیک کیوں مانگ رہے ہیں ان کو حکومت کی جانب سے معذوری الاؤنس یا پنشن نہیں ملتی ؟ تو اس سوال کو فوراًذہن سے جھٹک دیں اور عبادت پر ارتکاز کریں ۔

پچاس ڈگری سینٹی گریڈ کی تپتی دوپہر میں آپ کوسڑک پر کچھ مائیں نظر آئیں گی جو اپنے شیر خوار بچے کو لیکر بھیک مانگ رہی ہوں گی۔ وہاں اگر آپ کو چائلڈ بینفٹس جیسی خرافات ذہن میں آجاتی ہے تو اسے ذہن سے نکالیں ۔ آپ کسی دکان سے کچھ خریدنے لگیں گے تو وہیں برقعہ پوش خواتین ہاتھ پھیلاتی نظر آئیں گی ۔ اگر تو آپ کے خیال میں عورت کا پردہ سر کے بال اور جسم کو مکمل ڈھانپنا ہے تو وہ عورتیں باپردہ ہیں لیکن اگر آپ کے خیال میں عورت کی عظمت اس کی خود مختاری میں ہے تو ذہن سے وویمن رائٹس کا بھوت نکالیں اور اپنے خالق کی عبادت پر ارتکاز کریں ۔۔

خانہ کعبہ سے فجر کی نماز پڑھ کر باہر نکلیں تو صبح صبح سڑک پر کچھ بچے اور بچیاں چھتریاں بیچتے نظر آتے ہیں ۔ جس بچے سے میں نے چھتری خریدی وہ بمشکل چار سال کا ہوگا ۔ وہ دس ریال کی چھتری بیچ رہا تھا میرے پاس پچاس ریال کا نوٹ تھا ۔ میں نے اسے نوٹ دیا تو اس نے اپنی جیب سے مڑے ہوئے نوٹ نکالے اور ان کو بار بار گننا شروع کردیا لیکن و ہ اتنا کم عمر تھا کہ پچاس کا بقا یا دینے میں بھی مشکل میں پڑگیا۔آخر مجھے اس کی مدد کرنا پڑی ۔جس عمر کے بچے کو صبح سکول جانے کی تیاری کرنی تھی وہ نمازیوں سے بھی پہلے اٹھ کر چھتریاں بیچنے آیا ہوا تھا ۔ اسپین میں میرے ایک پاکستانی دوست کی سبز ی کی دکان تھی وہ ایک دن اپنے بارہ سالہ بچے کودکان پر کھڑا کر کے سبزی خریدنے گیاتو دس منٹ کے اندر اندر ہسپانوی پولیس اس دکان پر پہنچ گئی اس بات کی تفتیش کرنے کے لئے کہ کہیں یہ بچہ اس دکان میں باپ کے ساتھ ہاتھ تو نہیں بٹاتا ۔اگر مکہ میں آپ کے ذہن میں چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ یا چائلڈ لیبر جیسی کوئی خرافات ذہن میں آتی ہے تو اس کو جھٹک دیں اور عبادت پر ارتکاز کریں ۔

حج کا احرام باندھ کر میں منی ٰ پہنچا تو کیمپ میں دوتین پاکستانی نوجوان ڈرے سہمے سے محسوس ہوئے ۔ کوئی بھی نیا حاجی کیمپ میں آتا تو وہ سیٹ چھوڑ دیتے اور اسے جگہ دے دیتے ۔ان میں سے ایک سے بات چیت ہوئی توبتانے لگا کہ و ہ سعودیہ میں ہی رہتے ہیں ریاض میں کام کرتے ہیں لیکن اب چوری حج کرنے آئے ہو ئے ہیں میں نے حیرت سے پوچھا چوری حج ؟ اس کا کیا مطلب ہے ؟ بتانے لگا کہ حج کے دنوں میں سعودی عرب میں رہنے والے لوگوں پر حکومت مکہ آنے پر پابندی لگا دیتی ہے اور حج کی فیس اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ہم اپنی محدود تنخواہ میں حج افورڈ نہیں کر سکتے اس لئے بہت سے مزدور دو تین ماہ پہلے ہی مکہ آجاتے ہیں اور یہاں کے ہوٹلوں میں کام شروع کر دیتے ہیں اور جب حج شروع ہوتا ہے تو ہم بھی حاجیوں کے ساتھ منی ٰ عرفات آکر مناسک حج ادا کرلیتے ہیں وہ کہنے لگا کہ سعودیہ میں اب رہنا مشکل ہوگیا ہے ہم اب واپس پاکستان جا رہے ہیں سوچا جانے سے پہلے حج تو کر لیں ۔

ان کا حج ہوجاتا ہے یا نہیں یہ تو کوئی مفتی ہی بتا سکتا ہے البتہ میں نے ان سے پوچھا کہ مسجد الحرام میں صفائی کا کام کرنے والے کسی ایک مزدور کوپیسے دینے کی کوشش کریں توتھوڑی دیر میں تمام ملازمین دوڑے چلے آتے ہیں ۔ کیا ان ملازمین کو تنخواہ نہیں ملتی جو ٹپ کی خاطر دوڑ پڑتے ہیں ؟کہنے لگے جی ان کی تنخواہ صرف سات سو ریال کے لگ بھگ ہوتی ہے اور اتنی تنخواہ میں تو سعودی عرب میں گزارہ مشکل ہے وہ گھر والوں کے لئے کیا بھیجیں گے ؟میں نے سوچا کہ ہم لوگ تو بڑے فخر سے ان کی تصویر یں سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں اور ساتھ میں لکھتے ہیں کہ کون کون یہ نوکر ی کرنا چاہتا ہے ؟ اگر آپ کے ذہن میں لیبر لاءآگیا ہے اور یہ اصول گھومنے لگا ہے کہ مزدورکی تنخواہ سالانہ انفلیشن کے حساب سے طے ہونی چاہیے تو یہ لبرل ملحدانہ و مغربی سوالات ذہن سے نکالیں اور عبادات پر ارتکاز کریں ۔

سعودی عرب میں حج کے دنوں میں اپنی ذاتی گاڑی والا سعودی شہری بھی کرایہ کے عوض آپ کو ٹیکسی سروس مہیا کر دے گا ۔ہم نے منیٰ جانے کے لئے البتہ اصلی ٹیکسی کرائے پر لی۔ ٹیکسی ڈرائیور ایک کراچی کا نوجوان تھا جو بہت زندہ دل اورہنس مکھ تھا ۔ میں نے پوچھ ہی لیا کہ یہ جو پرائیویٹ لوگ اپنی گاڑیوں میں لوگوں کو بٹھا لیتے ہیں تمہاری روزی کا حق چھینتے ہیں تم لوگ ان کی شکایت نہیں کرتے وہ ہنسنا شروع ہو گیا کہنے لگا صاحب لگتا ہے آپ یورپ سے آئے ہو ۔سعودی شہریوں کے بارے میں شکایت ؟ ۔آپ مذاق کر رہے ہو ۔ یہاں غیر ملکیوں کے کوئی حقوق نہیں ۔“

جب ہم منی ٰ پہنچے تو رش بہت تھاپولیس نے رستہ بند کیا ہوا تھا اس نے ہمیں بہت دور ہی اتار دیا۔ ہم ٹیکسی سے اتر رہے تھے کہ ایک پولیس والادوڑتا آیا اور اس نے ڈرائیورپر تھپڑوں کی بارش کر دی ۔ میرے ساتھ ایک برطانیہ میں پیدا ہوا نوجوان تھا وہ یہ منظر دیکھ کر حیران ہوگیا اس نے انگریزی میں شور مچا دیا کہ ایک پولیس والا کسی ڈرائیور کو” ٹچ“ کیسے کر سکتا ہے ۔ٹیکسی والا نوجوان اپنی گاڑی لیکر نکلنے لگا تو پولیس والے نے اس کی گاڑی پر زور سے ٹھڈا مار دیا یقیناً گاڑی پر ڈینٹ پڑگیا ہوگا اس نے ہم سے اتنے کمائے نہیں جتنا وہ نقصان کروا گیا ۔ اگر آپ کے ذہن میں امیگرنٹس رائٹس آگئے ہیں تو ان کو ذہن سے جھٹک دیں اور عبادات پر ارتکاز کریں ۔۔

میں مسجد نبوی کے صحن میں بیٹھا ہوا تھا اور میرے آگے ایک پاکستانی نوجوان سبز عمامہ باندھے کانوں میں ہیڈ فون لگائے نجانے کسی نعت پر سر دھن رہا تھایا تلاوت قرآن سے لطف اٹھا رہا تھا کہ اتنے میں سرخ رومال سر پر رکھے ایک مبلغ وہاں آگیا اس نے مسجد میں بوٹ پہنے ہوئے تھے ۔ بڑی حقارت اور رعونت سے نوجوان کو ڈانٹتے ہوئے کہنے لگا کہ کیا سن رہے ہو ؟ اتارو کانوں سے۔میں نے سوچا ان تین سو سال میں سارے علوم کو ہم نے فنون کہہ کر جان چھڑا لی اور ایک تبلیغ ہی ہم نے سیکھی ہے لیکن حالت یہ ہے کہ اس میں بھی ہم اتنے نالائق ثابت ہوئے کہ ہمیں یہ ہی نہیں پتہ کہ تبلیغ کا سنت طریقہ کیا ہے ۔

ایسی بہت سی  ویڈیوز اب فیس بک پر بھی دیکھنے  کو  ملتی ہیں جس میں لال رومال والا مبلغ عام مسلمان سے بحث کرتا اور دوران بحث ویڈیو بنواتا ہے اور وہ بارگاہ جس کے بارے میں اللہ نے قرآن میں آوازوں کوپست کرنے کا حکم دیا ہے وہاں کھڑے ہوکر کئی کئی گھنٹوں کی تکرار ہوتی ہے ۔۔اگر آپ پرائیوسی لاءپڑھے ہوئے ہیں تو اس کو ذہن سے نکال دیں اور عبادت پر ارتکاز کریں ۔۔

ایسا نہیں ہے کہ اسلام کے پاس ان سوالوں کے جواب نہیں ہیں ۔ حضرت عمر ؓنے اپنے دور خلافت میں ایک یہودی کو بھیک مانگتے دیکھا تو اس کا وظیفہ لگا دیا ، شیر خوار بچوں کی ماﺅں کے لئے وظیفہ لگا دیا ۔ مزدور کو اس کی مزدوری خشک ہونے سے پہلے ادا کرنے کا اصول بھی اسلام نے دنیا کو دیا ہے ۔ اور جہاں تک تعلق ہے لال رومال والی تبلیغ کا تو شاید ان مبلغین نے بھی وہ واقعہ نہیں پڑھا ہوا جس میں مسجد نبوی میں ایک بدو پیشاب کر رہا تھا تونبی مہربان ﷺ نے صحابہ ؓکرام کو اسے فوراً پکڑنے سے منع کیا مبادا اس کی توہین ہو جائے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مسلمان ممالک غریب ہیں اور وہ یہ سارے ہیومن رائٹس والے اسلامی قانون نافذ نہیں کر سکتے تو آپ نے شاید سعودی شہزادے کا انٹرویو نہیں پڑھا جس نے 45کروڑ ڈالر کی ایک پینٹنگ اور فرانس میں ایک محل خرید اہے جس کی مالیت ایک ہزار 857 کروڑ روپے بتائی گئی ہے۔اور وہ ببانگ دہل کہتے ہیں کہ ”میں غریب نہیں۔ میں گاندھی یا نیلسن منڈیلا نہیں۔ “ منڈیلا بننا واقعی مشکل ہے وہ ہر شہری کے لئے روزگار،روٹی ، پانی اور نمک کا مطالبہ کرتا تھا ۔البتہ مسلمان بننا کوئی مشکل نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : تم میں سے کوئی بندہ تب تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ چیز اپنے بھائی کے لیے پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply