گئے دنوں کی یادیں (3)۔۔مرزا مدثر نواز

اساتذہ کی آمد سے پہلے کچھ بچے کھیل کود میں مصروف ہو جاتے جو زیادہ تر پکڑن پکڑائی (پنجابی میں چھو چھوان) ہی ہوتا‘کچھ گھر کا کام صبح آ کر کسی کی نقل کر کے لکھ رہے ہوتے‘ کچھ کل رات لگنے والے پی ٹی وی کے ڈراموں پر تبادلہ خیال اور اپنے ہم جماعتوں کو مشہور کرداروں کے ساتھ منسوب کر رہے ہوتے‘ کچھ کل میں سنے گئے گانے گنگنا رہے ہوتے تھے۔ ہر طرف شور ہی شور سنائی دیتاجس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی تھی جو اچانک سکول میں داخل ہونے والے پہلے استاد کی آمد کے ساتھ ہی زیرو ہو جاتی جیسا کہ کسی نے بٹن بند کر دیا ہو۔ زیادہ تر اساتذہ سائیکل پر سکول پہنچتے‘ جونہی انہوں نے سکول کے گیٹ پر پہنچنا‘ کسی ایک شاگرد نے آگے بڑھ کر سائیکل لے لینی اور مخصوص جگہ پر پارک کر دینا‘ اس کے بعد استاد کو ہر طرف سے سلام کی آوازیں آنا شروع ہو جاتیں۔ سکول کا مقررہ وقت شروع ہوتے ہی کسی ایک استاد نے اسمبلی کے لیے لائنوں کو سیدھا کرنا شروع کر دینا‘ ہر کلاس کی علیحدہ لائن ہوتی جس میں ٹیڑھے پن کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جاتا تھا۔ دیر سے آنے والے طالبعلم سب سے پیچھے الگ قطار میں کھڑا ہو نا شروع ہو جاتے۔ اسمبلی میں سب سے پہلے ایک خوش آواز لڑکا تلاوت کرتا‘ اس کے بعد دو لڑکے ”لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری“ والی ڈاکٹرؒ صاحب کی لکھی دعا ترنم کے ساتھ ایک ایک لائن کر کے پڑھتے جن کے پیچھے سارا سکول زور زور سے وہ کلمے دہراتا‘ اونچی آواز پر خاص توجہ دی جاتی تھی‘ جو منہ نہ ہلاتا اس کی پیٹھ پر ایک زور دار چھڑی پڑتی یا زناٹے دار تھپڑ‘ دعا کے بعد سب یک زبان ہو کر قومی ترانہ پڑھتے‘ تین دفعہ ”اسلام زندہ باد“ اور تین دفعہ ”پاکستان زندہ باد“ کے نعرے لگتے اور پھر کلاس کے اعتبار سے فوجیوں کی طرح مارچ کرتے ہوئے اپنی اپنی کلاس میں جا بیٹھتے۔ دیر سے آنے والوں کی تفتیش شروع ہوتی اور دلیل کوئی بھی ہوتی‘ سزا لازمی تھی۔ ہفتے میں ایک دفعہ جمعرات کو نعت بھی پڑھی جاتی‘ اکرام کی آواز بہت پیاری تھی۔ ہفتے ہیں ایک دن اسمبلی میں ہر بچے کے ناخن‘ دانت‘ بالوں میں تیل‘ کپڑوں کی صفائی چیک کی جاتی۔

سکول میں ایک سینئر لڑکے کی ذمہ داری دودھ لانا اور اساتذہ کے لیے دن میں ایک دفعہ چائے بنانا ہوتی‘ ان دنوں اللہ بخشے سجاد مرحوم عرف کوٹھی والا یہ فریضہ سر انجام دیتا تھا‘ یاد رہے کہ اساتذہ کی طرف سے دودھ کی قیمت ادا کی جاتی تھی۔ کلاسوں میں جانے سے پہلے اور وقفہ کے دوران صحن میں بڑی سی میز کے گرد کرسیاں پڑی ہوتیں جہاں بیٹھ کر اساتذہ مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے‘ کلاس میں جانے پر وہی کرسی ایک طالبعلم اٹھا کر کلاس کے آگے رکھ دیتا‘ استاد کے اوپن کلاس روم میں داخل ہونے پر تمام شاگرد احتراماََ کھڑے ہو جاتے۔ استاد کی کرسی پر بیٹھنا بھی ایک ناقابل معافی جرم ہوتا تھا۔ بریک میں تمام بچوں کو قریب میں واقع مسجد بلال ؓ میں ظہر کی نماز پڑھنے کی تاکید کی جاتی‘ بریک میں کھانے کا کوئی تصور نہیں تھا تا ہم لڑکوں کی سائیڈ والی جیبوں میں بھنے ہوئے چنے‘ چاول‘ کوکنیاں (چھوٹے بیر)‘ دال پٹی‘ مخانے‘ پتاسے‘ لاہوری پڑا‘ املی‘ فانٹا ٹکیاں‘ گائے ٹافی‘ سردیوں میں السی یا تلّی کی پنیاں‘ بھانڈہ (ایک قسم کا مقوی حلوہ) کے ٹکڑے‘ وغیرہ موجود ہوتے تھے۔ یونیفارم پہلے خاکی‘ پھر نیلا اور بعد میں سفید ہوا۔ ہر سال سکول میں ایک دفعہ بزرگ مسخرا بھی تشریف لاتا تھا جسے ہیڈ ماسٹر کی اجازت درکار ہوتی تھی‘ وہ مختلف کرتب جیسا کہ پیٹ پر اینٹ رکھ کر توڑنا‘ منہ میں مٹی کا تیل ڈال کر اس سے منہ کے سامنے شعلے نکالنا اور کئی دوسرے کرتب دکھا کر بچوں کو ہنسانے کی کوشش کرتا اور پچاس پیسے‘ ایک روپیہ کر کے داد وصول کرتا۔چھٹی سے کچھ دیر پہلے کبھی کبھار تمام سکول کو اکٹھا کیا جاتا اور مضبوط و طاقتور نظر آنے والے بچوں کی کشتیاں کرائی جاتیں‘ جیتنے والے کے لیے تالیاں بجائی جاتیں‘ کبھی ہر کلاس کے بچوں کو دو لائنوں میں آمنے سامنے کھڑا کیا جاتا اور ہر لائن مخصوص اشارے سے جھوم جھوم کر باری باری پہاڑوں (ٹیبلز) کی لائنیں دہراتی‘ جونہی استاد کے منہ سے چھٹی کا لفظ ادا ہوتا‘ بچے بیگ اور بوریاں اٹھائے گلیوں میں بھاگتے شور مچاتے اپنے اپنے گھر کو روانہ ہو جاتے۔

ضرار کے ذہن میں آج بھی اپنے پرائمری سکول کی یادیں تازہ ہیں جو کسی سیڈی میں محفوظ فلم کی طرح کبھی کبھی چل پڑتی ہیں‘ انیس سو نواسی کے کسی ایک دن کی وہ تصویر آج بھی اس کے ذہن میں گردش کر رہی ہے جب اسے پہلی دفعہ سکول میں داخل کرایا گیا‘ پہلی کلاس میں استاد کا نام محمد اسلم تھا‘ اس کلاس میں صرف اردو کا قاعدہ اور اردو کی گنتی یاد کرائی اور لکھنا سکھائی جاتی‘ دوسری کلاس کے استاد کا نام غلام رسول صاحب تھا‘ اس کلاس میں اردو کی کتاب کی ریڈنگ‘ املاء اور ریاضی کے جمع‘تفریق والے سوالات کی مشق کرائی جاتی تھی۔ تیسری کلاس میں استاد کا نام عتیق الرحمٰن تھا‘ جن کا رویہ ضرار کے ساتھ ہمدردانہ تھااور اسے لائق تصور کرتے تھے‘ وہ اسے کلاس میں پہلی لائن میں بیٹھنے کی تلقین کرتے تھے‘ اگلی قطار میں بیٹھنے والوں کو عموماََ لائق اور سب سے پچھلی قطار والوں کو نالائق تصور کیا جاتاہے۔ عتیق صاحب اس وقت ایک نوجوان استاد تھے جو بعد میں نوکری چھوڑ کر یورپ چلے گئے‘ دوسرے اساتذہ انہیں زیادہ قابل نہیں سمجھتے تھے۔ جب کوئی استادریاضی کے کسی سوال کو حل کرنے سے قاصر ہوتا اور دوسرے اساتذہ سے مدد حاصل کرتا اور اسی اثناء میں اگر عتیق صاحب بھی اس سوال کو حل کرنے کی کوشش کرتے تو باقی لوگ کہتے کہ ”چھڈو جناب‘ اے تواڈے وس دا روگ نہیں (چھوڑیں جناب‘ یہ آپ کے بس کی بات نہیں)“۔ تیسری کلاس میں ضرار کی پہلی پوزیشن آئی تو وہ پھولے نہ سمایا‘ اس سے پہلے وہ ہر رزلٹ پر یہی سوچتا تھا کہ استاد چودھریوں کے بچوں کو جان بوجھ کر پوزیشنیں دیتا ہے تا کہ ان کے گھر سے سب چائے پارٹی کھا سکیں۔ چوتھی اور پانچویں کلاس میں استاد کا نام ملک اشفاق صاحب تھا جو بعد میں نوکری چھوڑ کر یورپ چلے گئے‘ انتہائی شریف طبیعت‘ مذہبی اور اعلیٰ اخلاق کے آدمی ہیں‘ اگر آج بھی وہ سامنے آ جائیں تو اتنے سال گزرنے کے باوجود ضرار کو دیکھ کر اس کے نام سے پکاریں گے‘ ان کلاسوں میں بھی اسے ایک لائق طالبعلم تصور کیا جاتا تھا۔ ان کلاسز میں اس کا ایک ہم جماعت و کلاس مانیٹر کاشف تھا جس کے والد اور چچا ڈرائیور تھے‘ جب سکول میں بس کے ہارن کی آواز آتی تو اس نے کہنا کہ اس وقت فلاں نمبر کی بس سڑک سے گزر رہی ہے‘ اس شوق کی بدولت وہ آج خود بھی بس ڈرائیور ہے۔ دوسرے اساتذہ میں شبیر صاحب اور جاوید صاحب کانام بھی اسے یاد ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply