• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلگت بلتستان کی تہتر سالہ محرومیاں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا کردار۔۔ردا فاطمہ بلتستانی

گلگت بلتستان کی تہتر سالہ محرومیاں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا کردار۔۔ردا فاطمہ بلتستانی

انٹرنیشنل ریلشنز کی طالبہ ہونے کی حیثیت سے اپنی دھرتی ماں گلگت بلتستان پر میرا یہ پہلا کالم ہے۔میری والدہ کہتی ہیں کہ میری پیدائش سے پہلے والدین         بلتستان کے دور افتادہ علاقے سےروزگار اور بچوں کی بہتر تعلیم کی تلاش میں اسلام آباد بری امام بلتی کالونی شفٹ ہوئے لیکن وہاں بھی قسمت نے ساتھ نہیں دیا تو کراچی آ گئے۔یوں آج کل ہم کراچی کی  ایک کچی آبادی میں قدرے بہتر زندگی گزار رہے ہیں ۔والدین  بھی کم آمدنی کے باوجود کافی مطمئن ہیں ۔
میں ذاتی طور پر سوشل میڈیا زیادہ استعمال نہیں کرتی البتہ سوشل میڈیا پر گلگت بلتستان اور کشمیر کے حوالے سے ہر خبر پڑھتی ہوں ہر اُس ویڈیو  کو دیکھتی ہوں جس میں گلگت بلتستان اور کشمیر کا ذکرہو۔ یونیورسٹی میں گلگت بلتستان کے طالب علموں سے بھی صرف معلومات اور ذہین پڑھنے کی حد تک علیک سلیگ کرتی ہوں تاکہ معلوم ہوسکے کہ گلگت بلتستان کی نئی نسل کیا سوچتی ہے اور تعلیم یافتہ طبقہ اپنے وطن کے بارے میں کس قدر ذمہ دار اور فکر مند ہے۔
یقین کیجئے ہر طالب علم کے اندر غم اور غصہ نظر آتا ہے اور ہر کسی کا یہی رونا ہے جب تک اسمبلی میں بیٹھے عوامی نمائندوں کو فورس کمانڈر سے آزادی نہیں ملتی یا اُن کے اندر قومی غیرت بیدار نہیں ہوتی تب تک گلگت بلتستان کے ساتھ یہ کھلواڑ رہے گا اور ہمارے سادہ لوح عوام اس کھلواڑ کو محبت اور عقیدت سمجھ کر نعرے لگاتے رہیں گے۔گلگت بلتستان کی تاریخ بھی عجیب ہے مہاراجہ آرمی کے افسر نے گلگت بلتستان کو مہاراجہ سے الگ کردیا اور ایک انگریز فوجی آفسر نے گلگت بلتستان کی آزادی کو سبوتاژ کرنے کیلئے مذہب کا پتہ استعمال کرکے ایک گریٹ گیم کھیلی جس کے نتیجے میں آزادی کے ہیرو ز کودیوار  کےپیچھےدھکیل دیا اور انگریز سازش کار کو پاکستان نے بعد ازم مرگ قومی ایواڑ سے نوازا۔ اس ناکام بغاوت کو گلگت بلتستان والے یوم آزادی کہتے ہیں اور اس گریٹ گیم کے سرکاری تربیت یافتہ لوگ الحاق کہتے ہیں۔ جو کہ من گھڑت ہے حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان والے آج بھی ایک طرح سے غلامی   کی زندگی گزا رہے ہیں لیکن پاؤں کی زنجیر کو ہار سمجھتیےہیں۔ ہاں یہ بات ایک حقیقت ہے کہ کرنل مرزا حسن خان نے 1946 سے جو انقلابی کونسل تشکیل دی تھی اُسکا مقصد مہاراجہ کی جانب سے الحاق بھارت کی صورت میں بغاوت کرکے ریاست جموں کشمیر کو مکمل طور پر پاکستان میں شامل کرنا ہے۔لیکن بدقسمتی سے اُنہیں اس محبت کی سزا پنڈی سازش کیس کے تحت اڈیالہ جیل میں قید کی شکل میں ملی۔
حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان کا نہ تو کسی مُلک کے ساتھ الحاق ہوا اور نہ آج بھی گلگت بلتستان کسی مُلک کا حصہ ہے۔ گلگت بلتستان کے قوم پرست رہنما نواز خان ناجی بھی ایک تقریر میں یہی کہتے ہیں کہ یکم نومبر اُنیس سو سنتالیس ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک روڈ میپ ہے جو منزل کی طرف جاتا ہے۔ یہی الفاظ انقلاب گلگت کے ہیرو کرنل مرزا حسن خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اُنہوں نے ریاست سے نہیں بلکہ ریاست کے حاکم کے جانبدارانہ رویے اور عوام دشمن فیصلے کے نتیجے میں بغاوت کا علم بلند کیاتھا۔
کرنل مرزا حسن خان کی زندگی کے ایک اہم راز سے شاید نئی نسل آج بھی آگاہ نہیں کہ اُنہوں نے تاحیات ایف سی آر والے سردار عالم خان کو تسلیم کیا اور نہ اسلام آباد سے حقوق کی بھیگ مانگی بلکہ اُنہوں نے مظفر آباد میں سرکاری نوکری کو اسلام آباد کی جانب سے گلگت بلتستان میں اقتدار اعلیٰ کی آفر پر فوقیت دی۔ اس جرم میں اُنہیں کئی سال جیل میں بھی رہنا پڑا لیکن سوال یہ بنتا ہے کہ آزادی کے ہیرو کو پابند سلاسل کرکے الحاق ہوگیا کے نعرے لگانے والے کون لوگ تھے؟ اور آج ہیں۔ سوال کا سیدھا جواب یہ ہے کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ گلگت بلتستان کے ساتھ کھل کر کھیل رہا ہے اوریہاں کے پچیس لاکھ عوام جسے گزشتہ مردم شماری میں کم کرکے صرف پندرہ لاکھ دکھایا ہے تاکہ وسائل اور فنڈ ز کی ترسیل میں بچت ہو اور میرے والدین کی طرح مزید گلگت بلتستان کے لوگ تعلیم اور روزگار کیلئے ہجرت کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ اس گریٹ گیم   سے    ہر کوئی آگاہ ہے لیکن کسی کو بولنے کی ہمت نہیں کیونکہ گلگت بلتستان میں تھانہ سے لیکر پرائمری  سکول تک کس کے زیر کنٹرول ہیں یہاں سوچ پر پابندی کیوں ہے؟ اور ہر سیاسی اور مذہبی شخصیت کو گلگت میں ایف سی این اے ہیڈکوارٹر اور سکردو میں سکسٹی ٹو بریگیڈ کے دفتر پر حاضری یقینی بنانا کیوں ضروری ہے سب آگاہ ہیں۔
ستم ظریقی کی اس سے بڑھ کر انتہاء کیا ہے کہ ضلع گانچھے اور ضلع کھرمنگ کے بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں آج جنگ نہ ہونے کے باوجود وہاں کے باسیوں کو اپنی زمینوں پر جانے کی اجازت نہیں اور عوامی املاک کو نیست و  نابود کرکے طاقتور اسٹبلشمنٹ نے اُن علاقوں کو ایک طرح سے جان بوجھ کر غیر آباد کردیا ہے گاوں کے گاوں ویران ہوگئے ہیں ۔ ظلم کی اس دردناک داستان کو نہ کسی کو رقم کرنے اجازت ہے اور نہ کسی میڈیا کو اُن علاقوں تک رسائی ہے لیکن ہزاروں کی تعداد میں مہاجرین آج سکردو، پنڈی اور کراچی میں آباد ہوچُکے ہیں جن سے ملکر ہی اُن کا درد محسوس کیا جاسکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

گلگت بلتستان میں سابق فورس کمانڈر کی نسبت موجودہ فورس کمانڈر کافی ایکٹیو نظر آتا ہے۔پہلے عوام  براہ راست ڈرائے دھمکائے جاتے تھے جسکا ثبوت گلگت میں راء کا ایجنٹ پکڑنے کا ڈرامہ اور اسلحہ برآمد ہونے کا تماشا ہے لیکن آج بھی کوئی ثبوت نہیں کہ یہاں سے کوئی راء کا ایجنٹ پکڑا ہو بلکہ راء کا ایجنٹ ہونے کے الزام میں قید نوجوان کو گزشتہ روز عدالت نے باعزت بری کردیا ہے۔ لیکن میڈیا پر ایک ہائپ کریٹ کی تاکہ عوام میں خوف و  ہراس پھیلے اور حقوق کی جہدوجہد کرنے والوں سے عوام کو دور رکھا جائے کیونکہ اسمبلی تو پہلے سے ہی اُن کے ماتحت ہے اور اسمبلی کی مجال نہیں کہ فورس کمانڈر کے دفتر سے پوچھے بغیر کوئی بڑا فیصلہ کرے۔ جس کی مثال گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی روکنے کیلئے اسمبلی میں بل لانے کی کوشش کو غدار ی کہہ کر مسترد کرنا ہے۔گزشتہ ماہ مسلم لیگ نون کی جانب سے لینڈریفارمز کمیشن کا شوشا اور اُس کمیشن کے ذریعے گلگت بلتستان کی بیس فیصد زمین سرکاری کے نام کرکے باقی عوام میں تقیسم کرنا تھا لیکن فورس کمانڈر آفس کی مداخلت سے اُس فائل کو اسمبلی سے نکال کر جوٹیال فوجی دفتر لے جایا گیا جہاں سے حکم ملا کہ بیس کے بجائے تیس فیصد سرکار کے نام کرنا ہے۔ اس حوالے سے عوامی ایکشن کمیٹی سمیت دیگر سیاسی اور مذہبی تنظیموں نے کھل اعتراض بھی کی ہے۔ تعجب  کی بات یہ ہے کہ ایک طرف پاکستان کشمیر میں سٹیٹ سبجیکٹ اور آرٹیکل 370 کی خاتمے پر واویلا کرتا ہے دوسری طرف گلگت بلتستان میں اسکندر مرزا کے دور سے لیکر آج تک کھل کر اس قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے یہاں پر زیادہ تر زمینیں فوج اور دیگر ایجسنیوں نے اپنے نام الاٹ کی ہیں  اس  حوالے سے بی بی سی اردو پر تفصیلی رپورٹ بھی گزشتہ سال عاصمہ جہانگر مرحومہ کی مرہون منت  شائع ہوئی تھی وہی ثبوت کافی ہے۔
اس وقت گلگت بلتستان کی مثال ایک پنجرے کی سی ہے جہاں سبسڈی کے نام پر خوراک کھلائی  جارہی  ہے لیکن شعور اور فکر رکھنا جرم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے مسلم لیگ ن کی حکومت آئی یہاں حقوق کیلئے جدوجہد کرنا ایک طرح سے غداری ہے۔ دہشتگردی کی روک تھام کیلئے بنائی گئی قانون ایکشن پلان اور فورتھ شیڈول گلگت بلتستان میں قوم پرستوں کے اوپر لگادیا جاتا ہے جبکہ یہ خطہ اس مُلک کا قانونی حصہ ہی نہیں۔ اسی طرح اخبارات اشتہارات کے آگے مجبور ہیں ،اگر حکومت کی منشاء کے خلاف کوئی خبر چھپ جائے تو اُس اخبار کیلئے مان لیجیے  کمائی بند ہوگئی۔ مذہبی شخصیات کو مذہب کے نام پر بیوقوف بنایا جاتا ہے اور جب سے نیا  فورس کمانڈر جنرل احسان محمود آیا ہے اُنہوں نے دنیا بھر کے جادوگروں اور بہروپیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اُنکا اصل کام بارڈر پر ہے لیکن وہ سیاسی تقاریر ، مذہبی اجتماعات یہاں تک کہ تعلیمی اداروں کے معاملات میں نہایت  چالاکی کے ساتھ دخل اندازی کرتے ہیں اورگزشتہ ماہ اسپیکر گلگت بلتستان حاجی فدا محمد ناشاد کی جانب سے اُن کیلئے ڈومیسائل کی آفر اس چالاکی کا واضح ثبوت ہے۔لیکن میں دیکھ رہی ہوں کہ سوشل میڈیا آنے سے انقلاب کا راستہ ہموار ہونا شروع ہوچُکا ہے ۔ اب دنیا کو معلوم ہورہا ہے کہ گلگت بلتستان میں کیا ہورہا ہے؟ اور یہاں کے پچیس لاکھ عوام کس طرح استحصال اور جبر کے شکار ہیں۔لہذا گلگت بلتستان کی اسمبلی کو فوجی مداخلت سے دور رکھنے کیلئے پاکستان سمیت دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف جہدوجہد کرنے والوں کو آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ گلگت بلتستان اس وقت ایک کالونی کی حیثیت سے کم نہیں یہاں فوجیوں کی ہی موجیں ہیں اور انہی موجوں میں وہ لوگ بھی خطے کو لوٹ کر کھا رہے جو اُن کیلئے مہرے کا کردار ادار کرتے ہیں کیونکہ اس وقت گلگت بلتستان میں جہاں سیاسی طور پر فوجی راج ہے ، وسائل پر بھی فوجیوں کا ہی قبضہ ہے۔ لہذا کشمیر سے کسی کو ہمدردی ہے تو گلگت بلتستان کی صورت حال بھی جموں کشمیر سے کچھ کم نہیں، اس طرف توجہ دینی ہوگی اور حقوق گلگت بلتستان راہ میں اصل رکاوٹ ملٹری اسٹبلشمنٹ ہے لہذا گلگت بلتستان کے سیاسی مسلے کو سیاسی طریقے سے حل کرکے اس خطے کی بہتر سالہ محرمیوں کو ختم کرنے کیلئے اقوام متحدہ کے قرادادوں کر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
اب تازہ ترین ہندوستان کے فاششت وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے لداخ پر مکمل قبضہ کرکے براہ راست دہلی سرکار کے ماتحت کرکے گلگت بلتستان کو بھی لداخ میں بھی شامل کرکے پولٹیکل میپ جاری کردیا ہے جو کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے اُن کے عزائم کو واضح کرتی ہے۔لہذا اس گریٹ گیم کو کمزور کرنے کیلئے گلگت بلتستان کو آئین ساز اسمبلی دینے اور خالصہ کے نام پر عوامی اراضیوں کی لوٹ مار کو روکنے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply