آج بیٹھا ہوا یوٹیوب استعمال کر رہا تھا تو سامنے ایک گانا آگیا ” ایک پیار کا نغمہ ہے موجوں کی روانی ہے زندگی اور کچھ بھی نہیں تیری میری کہانی ہے” ۔ ہے تو ایک گانا ہی مگر بات بڑی پتے کی کہی ہے اُس نے، کہ زندگی ایک کہانی ہے۔ ہم جو زندگی گزار رہے ہوتے ہیں دراصل ساتھ میں ایک کہانی لکھ رہے ہوتے ہیں ہم تو چلے جاتے ہیں مگر ایک کہانی چھوڑ جاتے ہیں۔ جس کو ہمارا معاشرہ پڑھتا ہے ہم سے بعد میں آنے والے پڑھتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ یہ کہانی اچھی لکھیں سبق اموز ہو، جس کو پڑھ کہ لوگ اپنی اصلاح کریں اور آپکی تعریف کریں۔ کوشش کریں کہ یہ کہانی امر ہو جائے جس طرح عمر فاروق ؓ ، حضرت حسینؓ ، محمد بن قاسم ؒ ، علامہ اقبال ؒ، اشفاق احمد وغیرہ کی ہوئی ہے ہم بات کریں آج سے دو تین ہزار سال پہلے کی تو ہمارے ذہن میں سقراط ، بقراط، ارسطو اور افلاطون جیسی کہانیاں سامنے آتی ہیں ۔ کہانی تو فرعون اور ابو جہل کی بھی امر ہوئی ہے یاد رہے کہیں ایسی کہانی نہ امر ہو ،کہیں گستاخوں میں نام نہ آجائے۔
ایسا نہ ہو کہ بروزِ قیامت جب ہماری ہی کہانی ہمارے ہی سامنے ہم ہی کو پڑھ کے سنائی جائے تو ہم اللہ کے سامنے اپنا مُنہ چُھپاتے پھریں بالکل اُس بچے کی طرح جس نے سارا سال پڑھائی نہ کی ہو اور امتحان والے دن اپنے اساتذہ سے چُھپتا پھرے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ چیز شامل کردی ہے کہ وہ کردار سے زیادہ سیکھتا ہے نہ کہ کتاب سے ،یہی وجہ ہے کہ کردار(پیغمبر) ایک لاکھ چوبیس ہزار آئے اور کتابیں صرف چار کیونکہ انسان کردار سے جلدی اور زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ آپ سب نے ایک ضرب المثل سنی ہوگی کہ ” تُخم تاثیر صحبت کا اثر” ہم جو زندگی گزار رہے ہوتے ہیں ہم کسی کی صحبت میں ہوتے ہیں اور ہماری بھی کوئی صحبت میں ہوتا ہے جو ہماری صحبت میں ہوتا ہے بلاواسطہ یا بلواسطہ اُس انسان پر ہماری صحبت کا اثر ہو رہا ہوتا ہے یہ نہ ہو کہ کہیں یہ اثر منفی ہو اس لئے ہمیں چاہیے کہ اچھی کہانی کے اچھے کردار بنیں۔
مولانا جلال الدین رومیؒ درباری مولوی تھے بادشاہوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا تھا اور علم کا دریا اپنے اندر سموئے ہوئے تھے۔ بادشاہی طرز کا لباس لمبی لمبی پوشاکیں پہنتے تھے ۔ مولانا رومیؒ کے اندر تکبر بہت تھا۔ ایک دفعہ مسجد میں حوض کے کنارے بیٹھے اپنے شاگردوں کو پڑھا رہے تھے کہ حضرت شمس تبریزؒ وہاں آئے پھٹا پرانا دیہاتی سا لباس پہنا ہوا تھا۔ مولانا رومیؒ سے کتابوں کی طرف اشارہ کرکے پوچھتے ہیں کہ ایں چیست ( یہ کیا ہے)۔ مولانا رومیؒ نے کپڑوں سے اندازہ لگایا کہ کوئی فقیر ہی ہے۔ مولانا رومیؒ نے بڑے تکبر سے جواب دیا کہ یہ وہ ہے جس کی تم کو سمجھ نہیں۔ شمس تبریزؒ نے یہ سنا تو ساری کتابیں پانی والے حوض میں پھینک دیں۔ مولانا رومیؒ نے بڑے غصیلے انداز میں اُن سے کہا کہ یہ تم نے کیا کیا میری ساری محنت ضائع کردی( کیونکہ ساری کتابیں ہاتھ سے لکھی ہوئیں تھیں)۔ شمس تبریزؒ نے پانی والے حوض میں چھلانگ لگائی اور ساری کتابیں اُٹھا کر باہر کی جانب پھینک دیں۔ مولانا رومیؒ نے دیکھا تو ساری کتابیں بالکل سوکھی ہوئیں تھیں۔ مولانارومیؒ نے حیرانگی کے عالم میں شمس تبریزؒ سے پوچھا کہ ایں چیست ( یہ کیا ہے)۔ شمس تبریزؒ نے جواب دیا کہ یہ وہ ہے جس کی تم کو سمجھ نہیں۔ اور شمس تبریزؒ چل دیئے۔ مولانا رومیؒ اُن کے پیچھے بھاگے۔ اُن سے منت کی کہ مجھے معاف کردیں اور اپنی شاگردی میں لے لیں۔ کہتے ہیں کہ اُس کے بعد مولانا رومیؒ دنیا سے بے خبر ہوگئے اور فقیری کا رستہ اختیار کرلیا۔
اللہ اللہ کرنے سے اللہ نہیں ملتا
اللہ والے جو ہوتے ہیں اللہ سے ملا دیتے ہیں (اقبالؒ)
اسی لئے آپ کا ایک اچھا عمل، ایک اچھی نصیحت، ایک اچھا اور پیار سے بولا ہوا بول شاید کسی کی زندگی بدل دے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں