نیل کے سات رنگ-قسط7/انجینئر ظفر اقبال وٹو

چونکہ رات تک ہمارے دورے کے تحفظ کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں ملی تھی اس لئے ظالب امکان یہی تھا کہ شائد کل کے دن بھی ہم “دریسا” کے لئے نہ نکل سکیں-ریسٹ ہاؤس واپسی پر اطلاع ملی کہ مقامی سیکیورٹی کے چیف نے ہمیں کل اپنے دفتر طلب کیا ہوا ہے-اگلے دن جب اس کے دفتر میں ملاقات ہوئی تو وہ “الجنینہ” میں ہماری سرگرمیوں سے کوئی زیادہ خوش نہیں تھا-اسے رات ہماری یو این کے پاکستانی دوستوں کے ہاں دعوت کی پوری معلومات مل چکی تھیں –وہ اس طرح بلا اجازت ہمارے گھومنے پھرنے سے ناخوش تھا-ہم اسے پھرجلداز جلد سیکیورٹی فراہم کرنےکی درخواست کی تاکہ اس کی سر دردی ختم ہو-
وہاں سے نکل کر ہم نے لنچ کے لئے “الجنینہ” کے اس واحد کیفے چلے گئے جہاں پر ہماری مقامی پاکستانی دوستوں کے مطابق برگر وغیرہ مل جاتے تھے-یہ جگہ ہمارے لئے ایک بہت اچھی دریافت ثابت ہوئی جہاں پر ہم کم ازکم “ابلی ہویئ لوبیا” سے بچ سکتے تھے جو پچھلے دو دن سے صبح شام ہم ریسٹ ہاؤس میں کھا رہے تھے-شاہ جی نے دو برگروں پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد ایک ڈکار لیا اور اعلان کیا “موگمبو خوش ہوا”-
ہم اسی سرشاری میں کیفے کے باہر مین بازار میں تصاویر بنوا رہے تھے کہ ڈرائیور نے آکر بتایا کہ ریسٹ ہاؤس میں سیکیورٹی ادارے والے پہنچ گئے ہیں اور ہماری تلاش جاری ہے-ہم لوگ فورا سے پہلے گاڑی میں سوار ہوئے اور کچھ دیر میں ہی ریسٹ ہاؤس پہنچ گئے جہاں پر سیکیورٹی چیف اپنے سکواڈ کے ہمارا منتظر تھا- وہ کل کے لئے “دریسا ڈیم” کے لئے ہمیں سیکیورٹی کے حوالے سے بتانے آیا تھا لیکن ہمارے تازہ ترین “سیکیورٹی بریچ “پر سخت خائف تھا-اس نے ہمیں کل کے لئے بریف کرنے کے بعد ہمیں حکم دیا کہ صبح تک آپ ریسٹ ہاوس سے باہر نہیں نکل سکتے- اس کے ساتھ ہی اس نے ریسٹ ہاؤس کے باہر دو جوانوں کو ہم پر نگاہ رکھنے پر معمور کردیا-اسی دوران شہری منصوبہ بندی کے وزیر ابوالقاسم الامین کا فون آگیا جو کل کے دورے کےانتظامات کے ھوالے سے پوچھ رہے تھے-ان کی کوششوں سے ہمارے ریسٹ ہاؤس کی نظر بندی تو ختم ہوگئی لیکن ساتھ ہی انہوں نے بھی ہمیں محتاط رہنے کا مشورہ دیا-شاہ جی کو لوکل سیکیورٹی کا چیف ایک آنکھ نہیں بھایا تھا اور وہ ہر وہ کام کرنے کا پلان بنائے بیٹھے تھے جس سے اس کو زچ کیا جا سکے- تاہم میری درخواست پر شام کو انہوں نے دہبارہ برگر کیفے جانے کا پرگرام ملتوی کرکے “فول” پر ہی گزاراہ کیا تھا-
رات کو ہم بہت پرجوش تھے اوآنے والے کل کے سنسنی خیز سفر کے بارے میں دیر تک پروگرام بناتے رہے-ہم نے سورج طلوع ہونے سے پہلے “الجنینہ” چھوڑ دینا تھا-اپنے سفری بیگوں کو دورے کے ضروری لوازمات سے بھرنے کے بعد ہم سونے کے لئے لیٹ گئے-سب سے ضروری کام موبائل اور دیجیٹل کیمرے کو چارجنگ پر لگانے کو تھا کیونکہ پورے سفر میں کہین بھی بجلی مہیا ہونے کی کوئی اطلاع نہیں تھی-میرے لئے یہ ایک وصل کی رات تھی –کل مورنی سے اس کے گھر میں ملاقات ہونے جارہی تھی- اس لمحے کا ہم پچھلے سات ماہ سے خرطوم میں انتظار کر رہے تھے- وہ اس رات میرے خواب میں آئی تھی- وہ بھی مجھ سے ملنے کے لئے بے چین تھی-
15 جنوری 2013 کی صبح ‘سوجلہ” ہوتے ہی ہمارا قافلہ ریسٹ ہاوس سے روانہ ہو گیا-ایک گاڑی میں میرے ساتھ شاہ جی اور انجنئر حماد سوار تھے جو کہ ریاست غرب دارفور کی واٹر کارپوریشن میں کام کرتے تھے جبکہ دوسری گاڑی میں محکمہ وفاقی شعبہ برائے تعمیر ڈیم کے دارفور ریاستوں کے لئے سربراہ انجنئر مبارک مہدی،اور اسی محکمے کے مقامی انجنئر موسی اور انجنئر اغبش سوار تھے-ہمارے ساتھ بیٹھنے والے انجنئر حماد ایک پرلطف قسم کی طبیعت رکھنے والے بزرگ تھے-انہوں نے آج شکاریوں والا سفاری سوٹ پہن رکھا تھا اور وہ اپنی ہنٹر رائفل ساتھ لے کر آئے –ان کے بقول جوانی میں دریسہ کے ویرانے میں گھنے جنگلات تھے جس میں اس رائفل سے انہوں کئی یادگار شکار کھیلے تھے- اس زمانے میں اس علاقے میں جنگلی حیات بہت زیادہ تھی-پھر خانہ جنگی کا عذاب شروع ہوگیا اور سب کچھ برباد ہو گیا- وہ آج اپنی جوانی کی یادوں کو تازہ کرنے جا رہےتھے-میں نے ان سے مورنی کے بارے میں بھی پوچھا تھا-انیوں نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہا تھا کہ اس کا سب کچھ برباد ہو چکا ہے-
سیکیورٹی والوں کی گاڑی الجنینہ کے اندر سے گزرنے والے سیلابی پانی کے نالے پر بنے سٹیل کے گاڈروں والے پل کے اس پار ہمارا انتظار کر رہی تھی- یہ ایک قسم سے شہر کا اختتامی علاقہ تھا جہاں سے آگے “آئی ڈی پیز” کے نہ ختم ہونے والے کیمپوں کا سلسہ شروع ہو جاتا تھا-یہ سارا علاقہ سیکیورٹی تھریٹ تھا-کچھ پتہ نہیں تھا کہ میلوں تک پھیلے ان خیموں میں کس کیمے میں “بے خانماں” لوگ رہتے ہیں اور کس میں “جنجوید”-ہماری سیکیورٹی پر چھ لوگ مامور تھے جو جنگی لباس میں ملبوس تھے – وہ ایک بکتر بند نما شکاریوں والی گاڑی مین سوار تھے جس کا پٹرول اور ان لوگوں کا چائے پانی ہمارے ذمہ تھا- انہوں نے جدید اسلحہ اٹھایا ہوا تھا اور گاڑی کے اوپر ایک مشین گن بھی نصب تھی – سیکیورٹی کا انچارج ہماری گاڑی کے پاس آیا اور ہمیں سفر کے لئے ہدایات دینا شروع کر دیں-
وہ کہہ ریا تھا کی تینوں گاڑیاں تھوڑے تھوڑے فاصلے سے ایک قطار میں سو کی رفتار سے چلیں گی اور اس رفتار میں کسی جمپ کھڈے یا کسی بھی اور رکاوٹ پر بریک نہیں لگے گی—پچھلی گاڑیوںوالوں کا کام ہوگا کی وہ سب سے آگے جانے والی سیکیورٹی کی گاڑی کو آنکھ سے اوجھل نہ ہونے دیں ورنہ بھٹکنے کی صورت میںمیں سیکیورٹی والی گاڑی کسی کے لئے واپس نہیں آئے گی- یہ کہتے ہی وہ اپنی گاڑی میں تیزی سے بیٹھا اور ہم ویاں سے روانہ ہوگئے- ہم بے وسیلہ مہاجرین کے نہ ختم ہونے والے کیمپوں کے درمیان سے تیزی سے گزر رہے تھے جن کے اندر زندگی موت کےانتظار مین بیٹھی تھی- ننگ دھڑنگ بچے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے- لاغر آوارہ کتے راستے پر پھر تھے ادر کچھ عورتیں گدھوں پر گدلے رنگ کا پانی پلاسٹک کے ڈرموں میں لاد کر لارہی تھیں – اسی وقت فضا میں ایک ہیلی کاپٹر کی آواز آنے لگی تھی جس کے نیچے بڑا سا لکھا ہوا تھا ” یواین” جو شائد آج کے راشن کے طورپر پیاز ٹماٹر کنڈوم اور ولایئتی شراب کی بوتلیں یو این کے مورنی بیس کیمپ پہنچانے جا رہا تھا-
کافی دیر بعد ہم کیمپوں والے علاقے سے صحرا میں نکل آئے جہاں چاروں طرف ریت ہی ریت تھی-ہم سے آگے سیکیورٹی والوں کی گاڑی کچے راستے پر گردوغبار اڑاتی جا رہی تھی جس کے تعاقب میں ہماری گاڑی بھاگ رہی تھی-نومینز لینڈ شروع ہو چکی تھی سب لوگ انتہائی خاموش اور پرتفکر لگ رہے تھے- میں دائیں طرف نظر آنے والی مٹی کی ایک پٹی کو دیکھ ریا تھا- ایک چینی ٹھیکیدار اس ویرانے میں سڑک بنا ریا تھا-یہ میرے لئے ایک خوش گوار حیرت تھی لیکن اس کا کام کافی سست روی کا شکار تھا- حماد بتا ریا تھا کہ چند دن پہلے ہی اس چینی کمپنی کے کچھ لوگوں کو جنجوید تاوان کے لیے اٹھا کر لے گئے تھے-میں نے ایک جھرجھری سی لے کر شاہ جی کی طرف دیکھا جو کہ آنکھیں بند کئے صبح سویرے ہی قیلولہ فرما ریے تھے-مجھے ان کی یہ تیکنیک مناسب لگی اور میں نے بھی اپنی آنکھیں بند کرلیں –
بیرونی خطرے کی وجہ سے میرا دماغ بے حد بیداری کی حالت میں تھا اور نیند مجھ سے کوسوں دور تھی-میں اپنے ذہن کو چکر دینے کے لئے ان مکالموں کا سوچنے لگا جو آج مورنی سے پہلی ملاقات کے موقع پر میں نے بولنے تھے-میں ایک شرمیلا سا بندہ تھا اور سوچ رہا تھا کہ اس سے پہلی ملاقات میں میں اس سے اپنے دل کی بات بھی کہہ پاؤں گا یا نہیں- یہ مکالمے مجھے نیند کی وادیوں میں لے جا نے لگے تھے لیکن سیکیورٹی گاڑی کو نظر میں رکھنے کی کوشش میں ہمار ا ڈرائیور صحرائے صحارا کے کچے راستوں پر ہماری ہڈیوں کا کچومربنانے جا ریا تھا- حماد اگلی سیٹ پر بیٹھا زور زور سے ہمیں دریسا کے علاقے میں اپنی جوانی میں کئے گئے شکار کے قصے سنا رہا تھا-جب وہ کسی بات پر ہنستا تو اس کے موٹے کالے ہونٹوں سے سفید دانت باہر نکل آتے- اس نے رائفل اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی تھی-وہ ہمارے محافظ کا کردار بھی ادا کر رہا تھا-
کافی دیر کے سفر کے بعد جب میں نے اپنی آنکھیں کھولیں تو وہ مجھے دور سے ہی نظر آگئی تھی-ڈرائیور بتارہا تھا کیہ ہم کوئی بیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں-تاہم صحرائے صحارا کی زرد رنگ کی ریت پر وہ مجھے اتنے ر دور سے بھی نظر آ رہی تھی-وہ ریت کے لق دق صحرا میں آسمان کی طرف منہ کئے لیٹی ہوئی تھی جیسے آسمان سے کسی غیبی مخلوق کے اترنے کی صدیوں سے راہ تک رہی ہو- زرد ریت اور نیلے آسمان کے افق پر اس کے متناسب جسم کے خدوخال اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ نظر ارہے تھے-جیسے جیسے ہم اس کی طرف بڑھ ریے تھے اس کے جسم کے نظارے اور قیامت ڈھانا شروع ہو گئے تھے- اس کے جسم کی رنگت سنہری تھی- وہ فراعین مصر کی حنوظ شدہ ممیوں کی طرح اپنے بازو اور ٹانگیں سیدھی کئے لیٹی ہوئی تھی- شاہ جی نے میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور شیشے سے منہ باہر نکال کر بولے “صحارا کی سسی کو ہمارے تھل کے شہزادے کا سلام قبول ہو۔۔۔۔۔”- میں نے شاہ جی کو “شش’ کہہ کرخاموش رہنے کا اشارہ کیا کی کہیں وہ بیدار نہ ہو جائے- میں اسے سرپرائز دینا چاہتا تھا – میرا خیال تھا کی کہیں وہ شاہ جی کی کڑک دار آواز سن کر ایک انگڑائی لے کر اٹھ کرہی نہ بیٹھ جائے – —-

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply