• صفحہ اول
  • /
  • اداریہ
  • /
  • نیکٹاکی دو مزید دہشت گرد تنظیموں کوکالعدم قرار دینے کی سفارش مگر!!

نیکٹاکی دو مزید دہشت گرد تنظیموں کوکالعدم قرار دینے کی سفارش مگر!!

طاہر یاسین طاہر
ریاستیں اپنے فعال اور مضبوط اداروں کی وجہ سے مضبوط اور مستحکم ہوا کرتی ہیں۔ریاستی ادارے جس قدر مضبوط ہوں معاشرتی و سماجی نظام ِحیات بھی اسی قدر آسودہ و مضبوط ہو گا۔ہمارے ہاں ایک المیہ مگر یہ ہے کہ ہم اداروں کے بجائے افراد کو ترجیح دیتے ہیں۔نئے نئے ادارے بنانے اور پھر ان داروں کی سربراہی اور طاقت کے مراکز کے درمیان کھینچا تانی ہماری ریاستی تاریخ کا حصہ ہے۔یہ درست ہے کہ متحرک اور زندہ معاشروں میں سماجی حیات کا نظم برقرار رکھنے کے لیے ضابطہ حیات میں تبدیلی آتی رہتی ہے،ادارے بنتے اور ایک دوسرے میں ضم بھی ہوتے ہیں اور علیحدہ بھی ہوتے رہتے ہیں۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ وطن عزیز گذشتہ ڈیڑھ دہائی سے زائد عرصہ ہو گیا دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ اگرچہ معاشرے کے اندر انتہا پسندی کی جڑیں اسی کی دھائی میں مضبوط کی گئیں اور اس سارے کھیل میں ریاستی سرپرستی ایک کھلا راز ہے۔آج ہم جنرل ضیا الحق کی بوئی ہوئی فصل کو یوں کاٹ رہے ہیں کہ معاشرتی سطح پہ اس بے ثمر فصل نے کانٹوں کے سوا کچھ نہ جنا۔شاید جدید تاریخ کا یہ واحد ملک ہے جس میں آئے روز انتہا پسندانہ تنظیمیں کالعدم قرار دی جاتی ہیں اور وہ تنظیمیں ایک نئے نام کے ساتھ رجسٹرڈ ہو کے پھر سے اسی قتل و غارت گری اور فرقہ وارانہ تکفیریت میں مگن ہو جاتی ہیں۔ پھر سے کالعدم قرار پاتی ہیں اور ایک نئے نام کے ساتھ رجسٹرڈ ہو کر اپنے کام کو جاری رکھتی ہیں۔ اس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں۔
نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) نے وزارت داخلہ کو جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی العالمی نامی دہشتگرد تنظیموں کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کردی ہے۔، نیکٹا نے وزارت داخلہ کو بےگناہ اور معصوم شہریوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والی تکفیری دہشتگرد تنظیمیں جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی العالمی کو باضابطہ طور پر کالعدم قرار دینے کے سفارش کی ہے۔واضح رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے علیحدہ ہونے کے بعد جماعت الاحرار 2 سال قبل اگست 2014 میں سامنے آئی تھی۔اس دہشت گرد تنظیم نے پاکستان میں فوجی اہلکاروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، سرکاری تنصیبات، سیاستدانوں، مذہبی اقلیتوں، ڈاکٹروں اور وکلا پر کئی جان لیوا حملے کیے ہیں۔جماعت الاحرار نے رواں سال 8 اکتوبر کو کوئٹہ میں وکلا پر حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی، جس میں 70 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔اگست میں امریکی محکمہ خارجہ نے جماعت الاحرار کا نام دہشت گردوں کی عالمی فہرست میں شامل کردیا تھا۔ کالعدم لشکر جھنگوی سے علیحدہ ہونے والی لشکر جھنگوی العالمی ملک میں بالخصوص کراچی اور کوئٹہ میں متعدد فرقہ وارانہ حملوں میں ملوث ہے۔رواں سال 25 اکتوبر کو پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ پر حملے کی ذمہ داری لشکر جھنگوی العالمی نے ہی قبول کی تھی، جس میں 61 اہلکار شہید ہوئے تھے۔خیال رہے کہ اصطلاح، تکفیری اس گروہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جن کے مکتب میں ہر وہ عقیدہ جو، ان کے عقیدے سے مختلف ہو ان کے لئے کفر ہے۔ وہ اپنے فرقے کے علاوہ ہر فرقے سے تعلق رکھنے والوں کو واجب القتل سمجھتے ہیں اور اس میں شیعہ، سنی، بریلوی، مسلمان، غیرمسلم کسی کی کوئی تمیز نہیں ہے۔واضح رہے کہ اس وقت وزارت داخلہ کی کالعدم تنظیموں کی فہرست میں 61 تنظیموں کے نام شامل ہیں۔
یوں کوئی پانچ درجن سے زائد کالعدم تنظیمیں اس وقت وطن عزیز کی مٹی کو خوں رنگ کرنے ایک دوسرے پر بازی لے جانے کو تیار ہیں۔سادہ بات یہ ہے کہ جب کوئی تنظیم یا گروہ کالعدم قرار پاتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس گروہ یا تنظیم نے ایسے کام کیے ہیں، یا کر رہےہیں جو ریاست اور ریاستی مفادات کے خلاف ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر لشکر طیبہ کالعدم قرار پاتی ہے تو پھر اس کی قیادت ایسا کون سا کام کرتی ہے کہ وہی قیادت جماعت الدعوہ کے نام سے فعال تنظیم چلا رہی ہوتی ہے؟اسی طرح کالعدم اہلسنت والجماعت کی قیادت ؟تنظیمیں بہت سی کالعدم بھی ہوئی ہیں اور ہوتی بھی رہیں گی۔ لشکر جھنگوی کالعدم دہشت گرد تنظیم ہے اس کے بطن سے لشکر جھنگوی العالمی نے جنم لے لیا۔ اسی طرح کالعدم طالبان کے بطن سے الاحرار پیدا ہوئی۔سوال یہ ہے کہ کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا؟یہ امر واقعہ ہے کہ دفاع پاکستان کونسل کے سٹیج پہ آج بھی کالعدم تنظیموں کے سربراہان اور عہدیداران بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک قانون نافذ کرنے والوں کا یہ رویہ رہے گا دہشت گردی کے خلاف کوئی بھی اقدام مکمل طور پہ اپنے ثمر بار نتائج نہیں دے سکے گا۔ریاستوں کے دفاع کا انحصار کسی کونسل یاگروہ پہ نہیں ہوا کرتا۔ریاستوں کے پاس مضبوط نظام اور پیشہ ور فوج ہوا کرتی ہے۔ الحمد اللہ پاک فوج دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہے۔اب وقت آگیا ہےکہ ریاستی بد نامی کا باعث بننے والے گروہوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے،نیز اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جب کسی تنظیم یا گروہ کو کالعدم قرار دیا جائے تو پھر اس کی قیادت،فعال کارکن اور عہدیداران نئے نام سے کوئی تنظیم سازی نہ کر سکیں۔یہ بھی کہ ایسی تنظیموں کے سہولت کار بھی غیر فعال کر دیے جائیں، جب تک ایسے سخت اقدامات نہیں اٹھائے جائیں گے نیکٹا کی سفارشات بے سود ہوں گی۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کوئی تنظیم دہشت گردانہ کارروائیوں کے باعث کالعدم بھی ہو اور اس تنظیم یا جماعت کی اعلیٰ قیادت انتخابات میں حصہ بھی لے رہی ہو؟اس ریاستی رویے میں تبدیلی لائے بغیر نیکٹا کی سفارشات زیادہ سے زیادہ کیا کر لیں گے؟پانچ کے بجائے چھ درجن تنظیمیں کالعدم ہو جائیں گی اور بس!!!

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply