لاہور میں دھماکہ،دہشت گردوں کے سہولت کار بھی پکڑیں

لاہور میں دھماکہ،دہشت گردوں کے سہولت کار بھی پکڑیں
طاہر یاسین طاہر
دہشت گردی کے خلاف قوم کے حوصلے بلند ہیں۔اس میں دوسری رائے نہیں کہ دہشت گردوں کے سہولت کار ہر دھماکے کے بعد اسے دشمن کی سازش اور کبھی را کی کارستانی کہہ کر قوم کی توجہ منتشر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسی "را "اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کرواتی ہیں۔ بے شک بھارت ایک کھلا دشمن ہے اور اس کی پوری کوشش ہے کہ وہ پاکستان کو عالمی سطح پہ اس حوالے سے تنہا کردے کہ پاکستان انتہا پسندوں کا محبوب ٹھکانہ ہے۔انشا اللہ بھارت اپنی اس کاوش میں ناکام و نامراد ہو گا۔جونہی دھماکے کی خبر نشر ہوئی تو سوشل میڈیا سمیت کئی حلقے اس دھماکے کو پی ایس ایل کے فائنل سے جوڑ رہے ہیں۔سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر وہ کون سے قوتیں ہیں جو پاکستان کے گراونڈ آباد ہونا نہیں دیکھنا چاہتیں۔میرا خیال ہے کہ اس حوالے سے ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ اس دھماکے کی اگر ایک وجہ کرکٹ میچ کے فائنل کو قرار دیا جائے تو ان قوتوں کو بھی ذہن میں ضرور رکھا جائے جنھوں نے لاہور ہی میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ کیا تھا۔
پاکستان یا لاہور میں ہونے والا یہ کوئی پہلا دھماکہ نہیں بلکہ پاکستان جب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بنا ہے اس وقت سے ایک خاص مائنڈ سیٹ پاکستان اور ہر ا س شخص کو نشانے پر لیے ہوئے ہے جو پاکستان اور پاکستان کے اداروں کی حفاظت اپنا فرض سمجھتا ہے۔آپریشن ضرب ِعضب کے بعد دہشت گردی اور خود کش حملوں میں کمی ضرور آئی ہے مگر دہشت گردی ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئی۔بیانیہ کوئی بھی ترتیب دے لیں،ایک بات مگر طے ہے کہ جب تک دہشت گردوں کے حمایتی موجود ہیں،دہشت گردی کی منصوبہ بندی بھی ہوتی رہے گی اورخدا نخواستہ دھماکے بھی ہوتے رہیں گے۔ضرورت اب اس امر کی ہے کہ دہشت گردوں کے" جلی و خفی "حمایتیوں کی گردن کے گرد بھی پھندا کسا جائے۔کالعدم پاکستان تحریک طالبان،کالعدم جماعت الاحرار،کالعدم لشکر جھنگوی العالمی،کالعدم لشکر جھنگوی،اور مذکورہ تنظیموں سے فکری طور پہ ہم آہنگ دیگر تنظیمیں،سب داعش کی طرف دیکھ رہی ہیں۔خطے کی مجموعی صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ اب تمام قسم کے دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑا علاقائی اتحاد بنا کر ان کی جڑیں کاٹ دی جائیں۔انسانیت کے دشمنوں کا دین و مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔
یاد رہے کہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق لاہور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے دھماکے کے نتیجے میں ڈی آئی جی ٹریفک احمد مبین اور ایس ایس پی آپریشنز زاہد گوندل سمیت16 افرادشہید اور57سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ایک نجی ٹی وی کے مطابق دھماکا پنجاب اسمبلی کے سامنے مال روڈ پر ہوا، جس کے نتیجے میں آج ٹی وی کی ڈی ایس ین جی کا ڈرائیور،انجینئر اور کیمرا مین بھی زخمی ہوئے۔ یاد رہے کہ دھماکے کے وقت مال روڈ پر فارما مینوفیکچررز اور کیمسٹس کا دھرنا جاری تھا، اور احمد مبین مظاہرین سے مذاکرات کے لیے آئے تھے۔دھماکے کے بعد علاقے میں بھگڈر مچ گئی، پولیس کی بھاری نفری نے جائے وقوع پر پہنچ کر علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور مال روڈ پر جمع لوگوں کو منتشر کرنے کا عمل شروع کیا۔ریسکیو ٹیموں نے ایمبولینسز کے ذریعے زخمیوں کو گنگا رام اور میو ہسپتالوں میں منتقل کیا جہاں ایمرجنسی بھی نافذ کردی گئی ہے، جبکہ زخمیوں میں سے متعدد کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔فائر بریگیڈ کی ٹیمیں بھی دھماکے کی جگہ پر پہنچ گئیں اور دھماکے سے لگنی والی آگ پر قابو پالیا گیا۔
پولیس کے مطابق دھماکا خیز مواد موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا تھا جس کے پھٹنے سے کئی موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں میں آگ بھی لگ گئی، جبکہ قریبی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا مگر بعد میں کنفرم کیا گیا کہ دھماکہ خود کش تھا۔چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد بزدلانہ کارروائیوں سے ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکتے، جبکہ ایسے واقعات سے دہشت گردی کے خلاف قوم کا عزم اور مضبوط ہوجاتا ہے۔واضح رہے کہ 7 فروری کو نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کی جانب سے الرٹ جاری کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ لاہور میں دہشت گرد حملے کا خطرہ ہے۔نیکٹا کی جانب سے یہ مراسلہ سیکریٹری داخلہ پنجاب، صوبائی پولیس آفیسر (پی پی او) اور ڈی جی پاکستان رینجرز پنجاب کو بھیجا گیا تھا۔نیکٹا نے اپنے مراسلے میں ہدایات جاری کی تھیں کہ لاہور میں تمام اہم تنصیبات بشمول اہم عمارتوں، ہسپتالوں اور اسکولز کی سخت نگرانی کی جائے۔
یہ امر درست ہے کہ نیکٹا نے الرٹ جاری کیا تھا، مگر یہ بھی تاریخ ہے کہ ہر دھماکے کے بعد وزارت داخلہ ایک بیان جاری کرتی ہے کہ وزارت نے الرٹ جاری کر دیا تھا۔ کیا الرٹ جاری کرنے کے بعد داخلی سیکیورٹی کے ذمہ دار اداروں کا کام ختم ہوجاتا ہے؟ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست کو دہشت گردوں کی حمایت کرنے والوں کے گرد بھی سخت حصار قائم کرنا ہوگا۔بصورت دیگر دہشت گرد پہاڑوں سے نکل کر شہروں میں آباد اپنے سہولت کاروں کی پناہ گاہوں سے وار کرتے رہیں گے اور وطن کے در و دیوار لہو رنگ ہوتے رہیں گے۔ابھی تک اس دھماکے کی کسی تنظیم نے ذمہ داری قبول نہیں کی ۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply