محبت کا سمندر۔۔شاہ زیب/قسط1

وہ مجھے پہلی بار میرے کلاس ٹیچر سے کچھ پوچھتے ہوئے نظر آئی ,پہلی نظر میں وہ مجھ پر اپنے پیار کا وار کر گئی اور میں ان کو صرف دیکھتا رہا، چھٹی ہونے پر میں سکول گیٹ کے پاس کھڑا رہا لیکن وہ مجھے کہیں بھی نظر نہیں آئی مجبوراً اسے ڈھونڈنے مجھے اپنے سینئرز اور جونیئرز کی  کلاسوں میں جانا پڑا۔ لیکن تمام کلاسیں  خالی تھیں۔  سب جا چکے تھے ،میں دوڑتا ہوا سکول وین کے پاس گیا لیکن وہاں بھی و  ہ نظر نہ آئی۔

آخر دلبرداشتہ ہوکر کل صبح کا انتظار کرنے لگا اور دل ہی دل میں تہیہ  کر لیا کہ  کل سب سے پہلے سکول جاؤں گا اور گیٹ کے پاس بیٹھ کر ان کا انتظار کروں گا، گھر پہنچ کر کھانا کھایا اور سوچوں میں ڈبکیاں مارتا ہوا لیٹ گیا گھر والوں نے آواز دے کر کہا کھانا کیوں کم کھایا۔ طبیعت تو ٹھیک ہے ؟میں نے اشارتاً  کہا کہ  طبیعت ٹھیک نہیں اور بھوک بھی نہیں تھی لہذا مجھے سونے دیا جائے تاکہ آرام کر سکوں میں اپنے  ذہن پر زور ڈال کر تفتیش کرنے لگا کہ  وہ کون تھی ؟ کون سی  کلاس کی تھی ؟ چھٹی ہونے کے بعد کہاں گئی ؟
اور ہمارے کلاس ٹیچر اور کون سے کلاسوں میں پڑھاتے ہیں ؟
اتنے سارے سوالات کا بوجھ دماغ پر ڈالنے کے بعد میرا سر چکرانے لگا اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ  میں کب سو گیا ۔

ٹھیک پانچ بجے گھر والوں نے نیند سے جگایا میں تیار ہوکر فٹبال کھیلنے اپنے دوستوں کے پاس عید گاہ گراؤنڈ پہنچ گیا اور کھیل میں مگن ہو گیا لیکن  ہر   روز کی طرح دلجمعی کے ساتھ کھیل نہیں پا رہا تھا۔ دوستوں نے کھیل کی طرف کافی بار توجہ مبذول کرائی ،لیکن ہمارے اعصاب پر وہ ہرٹ ہیکر سوار ہو چکی تھی ،جو کسی بھی صورت اترنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی، کافی بار سوچا کہ  اپنے جگری دوستوں سے اس بارے بات کرلوں لیکن ڈر لگتا تھا ، اپنے لئے بھی اور ہرٹ ہیکر کیلئے بھی کہ  کہیں میری نادانی ان کو رسوا نہ کردے ،شام کو فٹبال  کھیل کر   گھر گیا لیکن آج دل ہوم ورک کرنے کو بھی تیار نہیں تھا۔

اللہ اللہ کرکے موذن نے فجر کی اذان دی اور میں انگڑائی لیتے ہوئے بیدار ہو گیا نماز پڑھ کر سکول کی تیاری شروع کردی اور بیگ اٹھاکر بغیر ناشتہ کیے سکول جانے کیلئے پر تولنے لگا تو گھر والوں نے ناشتہ کئے بغیر جانے کی وجہ پوچھی، میں نے  جواب دیا رات کو بہت کھانا کھایا تھا جسکی وجہ سے ناشتہ کرنے کو جی نہیں چاہتا گھر والے سب میرا منہ تکتے  رہ گئے اور کہا کہ  یہ تم کہہ  رہے ہو ؟
جو بندہ ٹائم پر ناشتہ نہ ملنے کی وجہ سے کئی بار سکول نہیں گیا اور آج بغیر ناشتے کے اتنی جلدی سکول جانے کی بات کررہا ہے آج نہ تو آپ نے شوز پالش پر شور مچایا نہ شرٹ کی ٹھیک طرح سے استری کا رولہ ڈالا اور تو اور پینٹ بیلٹ بھی خود ڈھونڈ لی آخر کیا بات ہے کل سے عجیب عجیب لگ رہے ہو بالکل گم صم ؟

میں ناک چڑھاتے ہوئے بڑ بڑ کرتا ہوا گھر سے سکول کی طرف چل دیا اور سیدھا سکول گیٹ کے پاس رک کر گارڈ سے پوچھا مجھ سے پہلے کوئی سٹوڈنٹ آیا ہے کہ نہیں ؟ .
گارڈ نے نفی میں جواب دیا تو میں ایسے خوش ہوا جیسے پوری دنیا مجھے مل گئی ہو ،میں نظریں  چار کرکے گیٹ کے پاس بیٹھ گیا کافی انتظار اور آنکھوں کی ورزش کرنے کے بعد آخر وہ دور سے آتی ہوئی دکھائی دی ،میں پلان کے مطابق باہر کھڑے رہنے کے بجائے ان کے آنے سے پہلے سکول گیٹ کے اندر آگیا اور انتظار کرنے لگ گیا وہ جیسے ہی سکول کے اندر داخل ہوئی ،میں ان کے پیچھے پیچھے چل دیا وہ سیدھا جماعت ہشتم میں گئی مجھے کلاس کا پتہ چلنے پر بڑی خوشی ہوئی اور میں سیدھا اپنے کلاس روم چلا گیا۔

اب میں آگے کی پلاننگ  کرنے  لگا  کہ  کس طرح ان کی توجہ اپنی  طرف مبذول کراؤں  اور خود کو ان کے نوٹس میں کیسے لاؤں میں  نے تھوڑی  ہی دیر میں بیسٹ پلان تیار کیا تھا اور اپنی کلاس روم سے نکل کر ان کی کلاس پر نظر رکھنی شروع کردی وہ تھوڑی دیر بعد باہر آئی اور سکول گراؤنڈ میں اپنی سہیلیوں سے ہیلو ہائے کرتے ہوئے ہنسی مذاق کرنے لگی کچھ دیر بعد پیون نے اسمبلی شروع کرنے کیلئے اٹینشن کہا اور ہم سب لائنوں میں لگ گئے اسمبلی ختم ہونے پر سب اپنی اپنی کلاسوں کی طرف چل دیئے اور میں سیدھا کینٹین میں جاکر کچھ خریدنے کی ایکٹینگ کرنے لگ گیا ۔

جب سب اپنے اپنے کلاس روم میں جا چکے اور مجھے یقین ہوگیا کہ  اب تمام ٹیچرز نے کلاسز لینی شروع کردی ہوں گی،تو  میں سیدھا ان کی  کلاس گیا اور ٹیچر سے ایکسکیوز کرتے ہوئے کہا سر میری  ایک بُک عبید کے پاس ہے ،لہذا مجھے عبید سے بک لینے کی اجازت دیجئے، سر نے حیرانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی تجسس بھری نگاہوں سے پہلے مجھے گھورا پھر سر ہلاتے ہوئے پرمیشن دے دی میں اپنے پلان کے مطابق پوری  کلاس کو ڈسٹرب تو کر گیا تھا اور سب کی نظریں میرا تعاقب کر رہی تھیں ۔ میں سیدھا عبید کے پاس گیا اور بک کے بارے میں پوچھنے لگا تو وہ حیران ہوکر کہنے لگا آپ کی  بک کا میں کیا کروں گا اور آپ سے کب میں نے بک لی ہے ؟

میں نے ان کو کہا کہ  مجھے صدام نے کہا ہے کہ  آپ کی  بک میں کل عبید کے ہاتھ  سکول بھجوا دوں گا، عبید فوراً  کہنے لگا مجھے صدام نے آپ کی کوئی بک نہیں دی ہے میں عبید کا شکریہ ادا کرتے ہوئے چل دیا ،میں نے کلاس سٹڈی متاثر ہونے پر معذرت کرتے ہوئے پہلے سر کو سوری کہا اور پھر پوری کلاس کو ڈسٹرب کرنے پر سوری عبید اینڈ سوری آل فرینڈز کہتے ہوئے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی اور سیدھا اپنی  کلاس کی طرف چل دیا۔

ہمارے کلاس ٹیچر نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے فوراً کہا ٹیچر کل سے عبید کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور وہ گھر میں صبح ٹیبلٹ لینا بھول گیا تھا جب میں سکول آرہا تھا تو راستے میں عبید کی مام مجھے ملی انہوں نے مجھے عبید کو ٹیبلٹ دینے کو کہا تھا اس لئے کلاس آتے ہوئے تھوڑی دیر ہوگئی، سر نے مجھے سیٹ پر بیٹھنے کو کہا میں نے سر کا شکریہ ادا کیا اور میں بےصبری سے انٹرویل کا انتظار کرنے لگا ،آخر کار پیون نے ٹن ٹنا ٹن گھنٹی بجاکر ایک بار پھر مجھے ہرٹ ہیکر کی زیارت کرنے کا موقع فراہم کیا ،میں سیدھا ان کے کلاس روم گیا عبید کو کہا بھائی مجھے میری بک مل گئی ۔
صدام نے کاپی سجاد کو دی تھی ایک جھٹکے میں میں نے اپنی بات مکمل کرنے کے بعد  عبید سے میں نے کنٹین چلنے کو کہا ،چل یار عبید کنٹین چلتے ہیں اس دوران میری نظریں ہارٹ ہیکر پر جمی ہوئی تھیں  اور میں باتیں عبید سے کررہا تھا، وہ بھی مجھے ایک دو بار گھورنے کے بعد اپنی سہیلیوں کیساتھ بات چیت کرنے میں مگن ہو گئی لیکن میں اپنے پلان میں کامیاب ہو چکا تھا کیونکہ میں ہارٹ ہیکر کی پوری توجہ حاصل کرچکا تھا اور مجھے یہ بھی یقین تھا کہ  اب صرف میری آواز سن کر ہی ہارٹ ہیکر کے ذہن میں میری فوٹو گردش کرنے لگے گی۔

عبید کو اپنے ساتھ کنٹین لے جاکر باتوں ہی باتوں میں میں نے ہارٹ ہیکر کا نام نکلوا لیا ،ہارٹ ہیکر کا نام ان کی خوبصورتی پر بہت جچتا تھا اور شاید ان کی خوبصورتی کے ثمرات ان کے نام  کی بدولت ہوں ،خوبصورت اور دلنشین نام کے لفظی معنی (محبت کا سمندر) ہیں ۔لہذا ہم انہیں شروع میں دیئے گئے نام ہارٹ ہیکر ہی سے مخاطب کریں  گے،انٹرویل ختم ہونے کے بعد ہم سب اپنے اپنے کلاس رومز کی طرف لپکے، اب میری اول کوشش یہ تھی کہ  کسی بھی طرح میں ان سے بات چیت کا آغاز کر دوں تاکہ غم دل تھوڑا ہلکا ہو  ، چھٹی ہونے کے  بعد میں گیٹ میں کھڑا ہوکر ہارٹ ہیکر کا انتظار کرنے لگا تھوڑی دیر بعد وہ آئی اور میں ان کو دور سے فالو کرنے لگا وہ چلتی رہی چلتی رہی اور آخر کار ان کے گھر کا پتہ چل گیا، وہ عید گاہ گراؤنڈ سے متصل سامنے والے مکان کی مکیں نکلی۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply