شبِ غم مختصر نہیں ہوتی۔۔سید مصعب غزنوی

آج سے ٹھیک اڑھائی سال پہلے میں ایک جاب چھوڑ کر نکلا تھا، نکالا گیا کہ لیجئے۔۔

حالات خراب تھے، فیملی کو سپورٹ کرنے والا بندہ کہاں سے پیسہ لائے اگر جاب نہ کرے تو۔
خیر ایک دو ماہ فارغ گھوم کر جب جمع پونجی لگ گئی تو دو چار دوستوں کے ترلے منتیں کیے کہ کہیں جاب لگوا دیں، لاہور ہو تو بیسٹ ہے ورنہ اسلام آباد بھی چلا جاؤں گا حوصلہ کرکے۔

یقین کریں کسی جانب سے کوئی اشارہ نہیں ملا، یہاں تک کہ اس چکر میں 6 ماہ گزر گئے۔ میرے گھر کے حالات شدید تنگ ہوگئے، یہاں تک کہ میں کبھی کبھار دو وقت کی روٹی بھی شاید نہیں کھا رہا تھا کہ دل نہیں کرتا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ میں نے اپنی وجہ سے گھر والوں کو اذیت میں ڈال رکھا ہے۔
شاید میں نکما یا نااہل ہوں۔

میرے پاس چند سو روپے  باقی بچے تھے، مجھے اچھے سے یاد ہے
میں نے کئی بار اپنے ایک بااثر دوست کو بھی کہا کہ خدارا کہیں جاب کا کچھ سسٹم بنوا دیں مگر انہوں نے نہیں بنوایا، اور آخر ایک دن اس نے جب میری رج کے بس ہوچکی تھی مجھے اپنے ہی ایک پراجیکٹ کا ہیڈ بنا دیا۔

اب یہاں آپ پراجیکٹ ہیڈ سے یہ مت سمجھ لیجئے گا کہ لاکھوں روپے تنخواہ لگ گئی میری، یا میں راتوں رات امیر ہوگیا۔

میری ذمہ داری ان کی این جی او کے مختلف دکانوں پر موجود فنڈ والے گلّے کھولنا، مختلف دیہات کا وزٹ کرنا۔ مختلف پراجیکٹس کی نگرانی کرنا تھا، میں اس جاب کو ہرگز نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ اس میں میری عزت نفس مکمل طور پر پامال ہوچکی تھی، وہی لوگ جو میری عزت کرتے تھے اب مجھے گلے کھولنے والا بھکاری سمجھنے لگے تھے۔
یہ جذباتی بیان نہیں حقیقت ہے۔
دو ماہ کچھ نہ  ملا ،مگر دو ماہ گزر جانے کے بعد ان صاحب بہادر کی این جی او نے مجھے تنخواہ پتہ کتنی دی؟

پراجیکٹ ہیڈ، بڑی بڑی میٹنگز میں اس این جی او کی تمام رپورٹس بھی مرتب کرکے پیش کرنا میری ہی ذمہ داری تھی، اور ان میٹنگز کے لیول کا اندازہ آپ یوں کرلیجئے کہ ہر میٹنگ یا سیمینار فائیو سٹار ہوٹل میں ہی ہوتا تھا۔ اور میرے سامنے ڈاکٹرز، انجینئرز یا پھر معروف کاروباری شخصیات بیٹھی ہوتیں جن کے لباس بھی شاید 25 سے 30 ہزار کے لگ بھگ تھے اور میں پرانے کپڑے اور پرانا جوتا پہنے اس میٹنگ میں موجود رہتا۔
خیر دو ماہ کے بعد میرے اکاؤنٹ میں 19 ہزار ٹرانسفر ہوا تنخواہ کی مد میں۔۔۔
کتنےبھلا۔۔۔؟؟۔۔جی جی 19 ہزار دو ماہ بعد، یعنی 9500 ماہانہ۔ اور میرا جو دو ماہ کا پٹرول اور دیگر خرچ تھا وہ 21000 روپے تھا۔ یعنی مجھے میرے پیسے بھی مکمل نہیں ملے تھے۔

میں نے احتجاج ریکارڈ کروایا، میٹنگ میں لیٹر لکھا، مگر اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا تو میں نے اس نوکری سے استعفی دے دیا۔۔۔ کیونکہ مناسب فورم سے صرف چورن ہی ملتا ہے۔ لہذا میں نے چورن لیا اور کپڑے جھاڑ کے چل دیا۔

اسی پراجیکٹ سے تعلق رکھنے والے ایک ذمہ دار نے گزشتہ روز مجھے فون کرکے کہا تم وہ وقت بھول گئے ہو جب تم ہمارے سامنے پیسوں کی بھیک مانگ رہے تھے، ترلے کرکے ملازمت لی تھی۔ تمہارے گھر کے خرچے بھی ہم نے چلائے ہیں۔۔ آپ یقین کیجئے اس شخص کا لہجہ اس قدر حقارت آمیز تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے جو میں نے دوستوں میں بیٹھے بمشکل روکے۔
میں دو تین دن شدید ڈپریشن میں رہا ہوں، میرے لیے یہ چیز بالکل ناقابل برداشت ہے۔
صرف اتنا ہی نہیں مجھے اس نے دو تین ایسی گھٹیا باتیں بھی کیں کہ میں نے زندگی میں پہلی بار کسی کو شاید بددعا دے ڈالی، حالانکہ میں بددعا دینے کے سخت خلاف ہوں۔یہ میری طبیعت نہیں ہے، میں نے اس دنیا کی سردی گرمی برداشت کی ہوئی ہے، میرا لہجہ میری خودداری کو لے کر بہت کرخت ہے۔۔مگر میں کسی کا محتاج نہ بن کے بھی اتنی بیہودہ باتیں خاموشی سے سن گیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں نے سپیئرئر کالج کو بطور ایڈمنسٹریٹر خیرباد کہا تھا، یعنی میں کہیں بھی بڑی پوسٹ کے لیے اہل تھا مگر صرف گھر بار کی خاطر یہ جاب کرنا پڑی اور دو ماہ بعد بھی میں دوستوں سے لیا گیا 21 ہزار روپیہ قرض نہیں اتار پایا تھا۔
مگر میں اب بددعا کی توبہ کرتا ہوں، کیونکہ میں نہیں چاہتا کسی کے بال بچوں پر رب کبھی بھی تنگی ءحالات کا وقت لائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply