چین کیخلاف امریکی ساز ش اور ماضی کا پروپیگنڈہ۔۔عمیر فاروق

کچھ دن قبل امریکی میڈیا میں ایک خبر ریلیز ہوئی تھی جس پہ تبصرہ کا وقت نہ مل سکا۔
خبر یہ تھی کہ امریکہ نے چونتیس چینی فرموں پہ پابندی لگادی ہے اور وجہ یہ بتائی کہ وہ “ مائنڈ کنٹرول ٹیکنالوجی “ ڈیولیپ کر رہی ہیں۔ عملی پوزیشن یہ ہے کہ سرے سے کوئی مائنڈ کنٹرول سائنس ہی موجود نہیں تو مائنڈ کنٹرول ٹیکنالوجی کیسے بنائی جا سکتی ہے ؟
یہ ایسے ہی ہے جیسے ہمارے ہاں کسی نے جنوں کی مدد سے بجلی پیدا کرنے کا آئیڈیا دیا تھا۔
جنوں کی موجودگی نا موجودگی سے قطع نظر آج تک جنوں پہ سائنسی ریسرچ کرکے انکی قوتوں کی درست پیمائش کی ہی نہیں گئی یعنی جنات کی کسی سائنس کا وجود ہی نہیں تو اس کی ٹیکنالوجی کیا تیار ہونی ؟
بالکل اسی طرز فکر کا مظاہرہ امریکہ میں ہوا اور اے بی سی نیوز سے لیکر بڑے بڑے اشاعتی اداروں نے دھڑلے سے خبر شائع کی، کسی نے  یہ سوچنے کی زحمت نہ کی  کہ جس چیز کی سائنس موجود نہیں   اس پہ مبنی ٹیکنالوجی تیار کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اتنی بنیادی چیز سے اتنے بڑے ادارے ناواقف ہوں وہ خوب جانتے تھے کہ یہ جھوٹ ہے لیکن اسے دھڑلے سے عوام کے سامنے اس لئے بول دیا گیا کہ امریکی ریاست کی یہی مرضی تھی امریکی پریس پوری طرح سے اپنی ریاستی پالیسیوں کی گائیڈ لائن پہ چلتا ہے اس سے سرتابی کی مجال نہیں مشرقی پڑوسی جمہوریہ کی طرح۔

اس میں ایک سبق تو ہمارے فکری چلغوزوں کے لئے پنہاں ہے جو ہر بات پہ سچ کی حرمت کا نعرہ لگا کے کہتے ہیں کہ
سوال کی حرمت کا سوال ہے
جبکہ ترقی یافتہ ترین جمہوریت میں بھی سب سے پہلے ریاست کی حرمت کا سوال ہوتا ہے اور کمپاس کے اس نکتہ کو مرکز مان کر ہر قابل بیان سچ کو طے کیا جاتا ہے۔

اب اس سے منسلک اگلا سوال جو کہ لازماً فکری چلغوزے اٹھائیں گے اور وہ یہ کہ پھر ریاست کے ہر جھوٹ پہ بھی اندھا یقین کر لیا جائے ؟
عموماً اگلی دفاعی دلیل یہی ہوا کرتی ہے۔

تو بھائی کوئی ضروری نہیں کہ ریاست کے ہر جھوٹ پہ اندھا یقین کرو۔ بات سچ کے عوامی اظہار کی ہے اور ہر وہ سچ جو فساد پھیلائے اس کا نہ بتانا ہی مفاد عامہ کا تقاضا ہوا کرتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی باقاعدہ سروے کرکے ڈیٹا مرتب کر کے یہ تحریر یا مقالہ لکھنے کی کوشش کرے کہ فلاں لسانی ، ثقافتی یا مذہبی گروپ میں پاکستان سے غداری، تشدد یا جبر کا رجحان سب سے زیادہ ہے۔ تو یہ بات علمی طور پہ جتنی بھی درست ہو اس سچ کے اظہار پہ ریاست کا پابندی لگانے کا حق اس لئے ہے کہ ایسے سچ کا اظہار مفاد عامہ کے خلاف ہے اور یہ نفرت کو بھڑکانے کا مؤجب ہوگا۔

اکہتر کے واقعات میں  مشرقی پاکستان میں بہاریوں اور مغربی پاکستانیوں کے قتل ِ عام ، ریپ اور لوٹ مار کی خبریں نشر کرنے پہ اسی لیے پابندی لگائی گئی تھی تاکہ مغربی پاکستان میں موجود بنگالی کسی عوامی نفرت کا نشانہ نہ بنیں۔
اسی طرح کے بے شمار مفادات ہوتے ہیں جن کے تعین کا ریاست کو حق ہوتا ہے اور اس کا احترام لازم ہے۔

اب واپس لوٹتے ہیں اس خبر کی جانب ، یہاں جو کچھ امریکی کر رہے ہیں وہ بنیادی اصول کے بالکل الٹ ہے۔ سچ پہ قدغن کا بنیادی اصول یہ ہے کہ
ایسا سچ فساد برپا نہ کرے
جو یہاں امریکی ریاست کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ
ایسا جھوٹ ریاستی سطح پہ پھیلایا جائے جو فساد برپا کرے

ہم صرف اس لیے اس کی مخالفت کررہے ہیں۔ ورنہ امریکی ریاست کا اپنی ریاست کو کنٹرول کرنے کا حق ہم تسلیم کرتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امریکی اس وقت وہی کچھ چین کے خلاف کر رہے ہیں جو ماضی میں کیمونسٹ سوویت یونین کے خلاف کیا تھا یعنی پروپیگنڈہ کے زور پہ اسے “evil empire “ ثابت کرنا۔ سوویت یونین کے معاملہ میں یہ تو سمجھ آتا تھا کہ سوویت یونین بھی اپنا نظام دوسرے ملکوں پہ مسلط کرنے کی باقاعدہ پالیسی اپنائے ہوئے تھا لیکن چین کا تو یہ معاملہ بھی نہیں۔ نہ صرف چین بلکہ پاکستان کا بھی واضح موقف ہے کہ ہم دنیا کی کسی بلاکس میں تقسیم اور کسی نئی سرد جنگ کے خلاف ہیں،تو بھی امریکہ چین کے بارے میں غیر ضروری خوف اور عوامی نفرت پھیلانے کا مؤجب بن رہا ہے۔ خوف یہ ہے کہ بالآخر چین بھی جوابی ہتھکنڈوں پہ مجبور ہوگا تو دنیا کے مسائل مزید بڑھیں گے اور سب سے زیادہ نشانہ پاکستان جیسے معاشی طور پہ کمزور لیکن بہت زیادہ جیوسٹریٹجک اہمیت کے حامل ممالک بنیں گے۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply