توڑ کا جوڑ ۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

توڑ کا جوڑ ۔۔ڈاکٹر اظہر وحید/مغربی طرزِ فکر اور طرز عمل نے ہماری بدنی زندگی کوبھاری بھرکم آسائشیں مہیا کی ہیں،زمینی فاصلے دم بھر میں زمین بوس ہو رہے ہیں،جسمانی آلام دُور کرنے کے لیے طب کی ایک باقاعدہ صنعت قائم ہے۔ وجودی لذّات کی تکمیل کے لیے سہل ترین راستے تراش لیے گئے ہیں۔ مغربی تہذیب و ترقی نے انسان کو آزادیٔ افکار و اِظہار کا ایسا مزہ چکھا دیاہے کہ تاریخ ِ انسانی میں اِسے پہلے میسر نہیں آسکا۔ آج کا اِنسان انفرادی آزادی اور انفرادی حقوق کی جنگ لڑنے میں اجتماعی طور پر کامیاب رہا ہے۔
آج ہر قوم جانتی ہے کہ آمریت، فسطایت اور شہنشاہیت قابلِ قبول نہیں۔ جبر کے کوڑے سے کوئی ملوکیت منوانا چاہے ٗتومنوا سکتا ہے لیکن اجتماعی طور پر ضمیرِ آدم آج آزادئ جمہور کا قائل ہے۔ آزادیٔ افکار کے اِس عَلم کو سائینسی علم نے مزید شہرہ دیا ہے۔ آزاد معیشت کے تصور نے انفرادی آزادی کا نعرہ مزید بلند بانگ کردیا۔ آزادئ معاش و معاشرت کے تصور نے کیپیٹلزم کی گود میں آنکھ کھولی ، کیپیٹلزم کے دیرینہ حریف سوشلزم اور کیمونزم مَرورِ زمانہ سے اپنے نظریے سے منحرف ہو چکے ، اسے کھلا میدان میسر آگیا۔ یونی پولرورلڈ کا تصور پولر بیئر کی طرح ہر کسی کو ہر جگہ سے دکھائی دیا۔ گلوبل ویلیج کے چوہدری اپنے بَلَد کے طُول وعرض میں ایک کرنسی اور حکومت کے لیے اپنے راستے میں حائل سیاسی اور اقتصادی رکاوٹیں بتدریج دُور کر چکے ہیں۔ معاشرتی رکاوٹوں کو دُور کرنے کے لیے میڈیا کے برزجمہروں نے اپنے خوب جوہر دکھائے ۔۔۔۔لیکن افکار کی دنیا میں ابھی کچھ رکاوٹیں باقی ہیں۔ اِن میں سب سے بڑی روک اور رکاوٹ روحانی اقدار و افکار کا پیغام ہے۔ یہ پیغام عام طور پر مذہب کے پلیٹ فارم سے جاری ہوتا ہے ٗاس لیے اپنے اہداف کی تکمیل کی راہ میں اس رکاوٹ کا دُور کرنا اِن کے لیے ہدفِ اوّل قرار پایا۔ یہ آویزش اَزل سے جاری ہے ، فطری قوانین کی طرح ۔۔۔
اس میں گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ چور سادھ کو پہچانتا ہے اور سادھ چور کو۔۔۔ یہاں چوری چھپے کچھ بھی ممکن نہیں۔ یہاں اپنے ہدف کو زیر کرنے کے لیے دامِ ہمرنگِ زمین بچھا کر رُوحانی افکار کے متلاشیوں کو مادّی افکار کا نوالہ پیش کرنے کا نسخہ بھی کارگر ٹھہرتا ہے۔ دین کے نام پر رُوحانیت اور پھر رُوحانیت کے نام پر دین سے دُوری۔۔۔ امن کے نام پر جنگ اور جنگ کے زور پر دفاعی صنعتوں کی نمائش ایسے فکری اضداد آج کے دَور میں دیکھنے میں آتے ہیں۔ تبلیغ کا مائیک مبلغین کی جگہ موٹیویشنل ایسے ایموشنل اسپیکروں کے ہاتھ میں آگیا اور وہ موٹیویشن کے نام پر طرح طرح کے افکار دنیائے فکر کی لوکل مارکیٹ میں امپورٹ کرنے لگے۔چنانچہ ہم تزکیۂ نفس کی بجائے رعونت ِ نفس کا سبق پڑھنے لگے، سیلف لیس ہونے کی جگہ سیلف ہیلپ کے اسباق تیزی سے اَزبر کرنے لگے۔ ہمیں رونے کا حکم تھا، ہم قہقہہ تھیراپی کے وکیل بن گئے۔ مقدار کی چکا چوند دیکھ کر یار لوگوں نے معیار پر سمجھوتا کرنے میں ایسی تیزی دکھائی کہ سمجھوتا ایکسپریس میں جا سوار ہوئے ۔ اوپن مارکیٹ میں جہاں گاہک زیادہ میسر آئے ‘وہیں چھابہ لگانے میں جلدی کر دی !
بنیادی طور پر ہر انسان اپنے افکار کا مبلغ ہے۔ ہم اپنے افکار کی اشاعت کیے بغیر رہ نہیں سکتے۔ ہمارا کردار ہمارے افکار میں سے چھلک چھلک جاتا ہے۔ تھڑے سے لے کر اسٹیج تک جسے جو پلیٹ فارم بھی میسر ہے‘ وہ اِس پر اپنے افکار کی تبلیغ کرتا ہے۔۔۔۔ اور اِس میں کچھ بھی اچنبھے کی بات نہیں۔ صراحی میں سے وہی کچھ برآمد ہو گا ‘جو صراحی کے اندر ہو گا۔ ہم الفاظ کی مدد سے زیادہ دیر تک خود کو محفوظ اور ملفوف نہیں رکھ سکتے۔ دیکھنے والوں کے لیے یہ جہانِ رنگ وبُو اِس قدر صاف اور شفاف ہے کہ بقول اقبال:ؒ
کوئی دیکھے توہے باریک فطرت کا حجاب اتنا
نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسّم ہائے پنہانی
اِن دنوں خود کو مسرت سے ہم کنار کرنے کے کئی نسخے مارکیٹ میں میسر ہیں۔ ان میں سے چند ایک تو بہت ہی سیدھے ہیں‘ مثلاً ’’دوسروں کے غم اور خوشی کی پرواہ کیے بغیر اپنی زندگی گزارو، جو تمہاری قدر نہیں کرتا ‘تم بھی اس کی پرواہ نہ کرو، جو تمہیں وقت نہیں دیتا‘ تم اس کے لیے اپنا وقت کا سرمایہ برباد نہ کرو،اردگرد کے لوگ تمہاری ذمہ داری نہیں، آخر تمہار ا بھی تم پر حق ہے، اپنا حق پہچانو، طلب کرو، حاصل کرو، اور آسودۂ فکر ہو جاؤ‘‘ ۔۔۔۔ اگر بنظر ِ عمیق اور تحقیق دیکھا جائے تو یہ اندازِ فکر سرتاپا مادّے کی کثافت سے لتھڑا ہوا ہے۔ یہاں ایثار، احسان اور قربانی کی خوشبو سرے سے عنقا ہے۔ زما نۂ طالبعلمی کی بات ہے کہ ہمارے ایک مہربان کسی مغربی مفکر کا مقولہ سمجھا رہے تھے کہ اگر تم نے اَ میر ہونا ہے تو غریب لوگوں کو اپنے تعلقات کی فہرست سے خارج کردو، کیونکہ یہ لوگ تمہیں کچھ دے نہیں سکتے بلکہ یہ تمہارے وقت اور وسائل سے چمٹی ہوئی جونکیں ہیں۔ افسوس صد افسوس! ہمارا روحانی اور اخلاقی ورثہ یہ ہرگز نہ تھا۔۔۔۔ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ مسکینوں کے ساتھ میل جول رکھو۔ رسولِ کریم ؐ کی دعا ہے‘ یااللہ! مجھے مسکینوں میں زندہ رکھ اور مسکینوں میں اُٹھا۔ ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جو تجھ سے توڑے‘ تو اُس سے جوڑ، اور جو تجھے محروم کرے ‘ اسے عطا کر۔ہمیں برائی کے جواب میں نیکی کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی فضیلت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس طرزِ عمل سے تمہارا بدترین دشمن بھی تمہارا گرم جوش دوست بن جائے گا۔
اپنے ارد گرد لوگوں کے درمیان سے رخصت لے لینا ‘ایک رخصت کا راستہ ہے‘ عزیمت کا نہیں۔ رخصت کی راہ اختیار کرنے میں اورراہِ عظمت انتخاب کرنے میں بہت فرق ہے۔ خوشی شاید ڈھونڈنے سے نہیں ملتی‘ بلکہ خوشی دینے سے میسر آتی ہے۔ کسی کے ہاں خوشی کا دیا جلانے کے لیے خود خرچ ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے پاس لامحدود وقت اور زندگی نہیں، یہی آس پاس کے چند لوگ ہیں ‘ جو ہماری عاقبت ہیں۔ فیس بک پر ٹرانس گلوبل لاکھوں کلک لینے سے میرا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ میرے دل کے تار اُس وقت بجتے ہیں‘ جب آس پاس کسی چہرے پر میری وجہ سے مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے۔ کہتے ہیں‘ وقت قیمتی ہوتا ہے۔۔۔ انسان زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ بس! جس کا چہرہ انسان جیسا ہے ‘وہ میرے وقت اور وسائل میں بلادھڑک دخیل ہو سکتا ہے۔ میں نے سارے جہان کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا ۔۔۔۔لیکن جو شخص چل کر میرے پاس آ گیا ہے‘ جسے قدرت نے میرے آس پاس پیدا کر دیا ہے ‘ میرے وقت اور وسائل پر اُس کا حق ہے۔ میں اپنا وقت کسی انجانے وقت اور انجانے شخص کے لیے بچا کر نہیں رکھ سکتا۔ یہی عام آدمی اگر مجھے اپنے دل تک رسائی دے دے‘ تو میرے لیے خاص ہو جاتا ہے۔ عام اور خاص کا فیصلہ کرنے والا گلوبل اکانومی کا کوئی کلرک کون ہوتا ہے؟ کیا میں کسی شخص کے لیے صرف اِس لیے دروازہ بند کر لوں کہ اُس کی جیب میں فی الوقت چند رائج الوقت سکّے موجود نہیں، اس کے تعلقات کے حلقے میں طاقتور لوگ نہیں، شہرت کے حلقوں میں اس کا شہرہ نہیں، وہ میری کسی صفت کا معترف نہیں۔ اگر میں مصنف ہوں‘ تو لازم نہیں کہ میں اپنے دوستوں کا انتخاب دارالمصنفین سے کروں، اگر میں ڈاکٹر ہوں تو کیا لازم ہے کہ میرے حلقۂ احباب میں صرف ڈاکٹر لوگ ہی ہوں؟ اپنی کسی ضرورت میں بندھے ہوئے لوگ بھی جب میرا وقت ’’برباد‘‘ کرنے چلے آتے ہیں ٗ تو وہ مجھے ایسے ہی عزیز ہونے چاہیں ‘جیسے میرے عزیز ہوں۔
ہر تعلق کی ایک قیمت ہوتی ہے اور ہر تعلق کا ایک بوجھ ہوتا ہے۔ کم قیمت تعلقات کا بوجھ وہی اُٹھا سکتا ہے ‘ جو بیش قیمت ظرف کا مالک ہو۔۔۔ جو اعلیٰ ظرف لوگوں کے نقشِ قدم پر ہو ۔ جس پر انعام ہوتا ہے ‘وہ انعام تقسیم کرتا ہے۔ اِس زندگی میں وقت سے بڑا انعام کیا ہوگا؟ جو توجہ میں ہوگا ‘وہ لوگوں کی طرف متوجہ ہوگا ۔۔۔ وہ اپنے جبہ و دستار کے شایانِ شان ماحول تلاش نہیں کرے گا، بلکہ وہ اپنے آس پاس گرے پڑے، مفلوک الحال اور احسان ناشناس لوگوں کے تصرف میں ہوگا۔ اگر کوئی اپنے خاص ہونے کا خراج وصو ل نہ کرے تو عام ہی خاص ہے۔ احساس سے لے کر احسان تک سارا سفر ‘ بوجھ اُٹھانے کا سفر ہے۔۔۔ یہ بوجھ تعلقات کا بھی ہوتاہے، اور ذمہ داریوں کا بھی!! کوئی ذمہ دار شخص ‘اپنی ذمہ داریوں سے فرار نہیں ہوتا!!
ایک کرن میں جلوۂ خورشید دیکھنے والے ، ایک قطرے میں موجۂ قلزم کا نظارہ کرنے والے اور ایک ذرّے میں وسعت ِ صحرا آنکنے والے یہی لوگ ہوتے ہیں ‘جو اُن کے فقیر ہوتے ہیں۔۔۔۔ آدمی بے نظیر ہوتے ہیں۔ فقیر کا وقت کبھی ضائع نہیں ہوتا کیونکہ اُس نے اپنے وقت سے اپنے لیے کچھ بھی حاصل نہیں کرنا ہوتا۔ دریا دوسروں کی پیاس بجھاتا ہے، پھل دار درخت مخلوق کو ثمر بار کرنے کے لیے اپنی شاخوں سمیت جھک جاتا ہے، اُس کے جھکنے سے اُسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اُس کی عاجزی کا فائدہ ہمیشہ دوسرے اُٹھاتے ہیں۔ ہماری نیکی اور ہماری عاجزی دوسروں کے کام آنی چاہیے۔ ہمارا اخلاق اگرچہ آسودگی کی صورت میں لوٹ کرہماری طرف ہی آتا ہے، لیکن ہمارے اخلاق کا مقصد دوسروں کو آسودہ کرنا ہے۔ کسی کے ظاہر کو شانت کریں‘ تو ہمارا باطن شانتی کا نغمہ سننے کا اہل ہو جاتا ہے، کسی کا ظاہری آزار دُور کریں‘ تو ہمارا روحانی روگ دُور ہو جاتا ہے ۔ ممکن ہے’ خوشی کسی حاصل کا نام ہو ‘ لیکن سرخوشی قربانی سے میسر آتی ہے۔ درویش لوگ بتاتے ہیں کہ جب تُولقمہ اپنے حلق میں اُتارتا ہے‘ تو اگلے دن یہ بدبو بن کر خارج ہو جاتا ہے،یہی لقمہ کسی کے منہ میں ڈالے گا تو خوشبو بن کر فضا میں ٹھہر جائے گا۔ لقمہ خوراک کا ہو‘ یا وقت اور وسائل کا‘ دوسروں کا حق فائق ہے! اگر ہم حق پرہیں ‘ تو اپنے حق کے مقابلے میں دوسروں کا حق مقدم جانیں۔ سکھ‘ سکھ دینے میں ہے۔ دوسروں کو سکھ پہنچانے کے لیے دُکھ اُٹھانے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے ۔ کوئی خود غرض دوسروں کے لیے فائدہ مند نہیں ہو سکتا۔ ایثار اور احسان کی منزلیں اہلِ دل طے کرتے ہیں:
ع فیصلہ تیرا ‘ترے ہاتھوں میں ہے‘ دل یا شکم !
کالم پر ایک تبصرہ اور جواب
تبصرہ:
Bohat alla sir lakin kia he acha hota k madiat ki tarki k liay bhi hamary ahl e dil nai kuch kaam kia hota. Kia he acha hota k ahl e dil aik aisa nizam bhi paida ker saktay k jin ko misal bana ker ahl e mada ko apni taraf raghib ker saktay, kia he acha hota k ahl e dil madiat ki sirf buraion ko ginwa ker apnay falsafay ki phaki na bechna chahtay balkay aik practical solution dai saktay aur gumrahoon ko kuch rah e hidayat muyasar atti. Afsoos aisa kuch na ho saka.
جواب:
۔۔۔۔۔ اور ایسا ہو بھی نہیں سکے گا، اہلِ دل اسی طرح پٹتے رہیں گے، مار کھاتے رہیں گے، دوسروں کا بوجھ اٹھاتے رہیں، اور اہلِ مادہ چھینا چھپٹی کرتے رہیں گے، اہل دل کو مارتے رہیں گے۔ اس دنیا میں ایسے ہی MIGHT IS RIGHT کا قانون نافذ رہے گا، انبیاء قتل ہوتے رہیں گے، فرعون بادشاہت کرتا رہے گا، سرمد شہید ہوتا رہے گا، اورنگ زیب ایسا حکمران حکمرانی کرتا رہے۔۔ غالب غریب ہی رہے گا، خواجہ صاحب بوریا نشین ہیں رہیں گے، بس ایسے ہی ہوتا رہا ہے اور ایسے ہی ہوتا رہے گا۔ ، اہلِ دل کے پاس کوئی ایسا مادی فارمولہ یا نظام نہیں آئے گا جس کی طرف گمراہ لوگ متوجہ ہو جائیں اور اپنی گمراہی چھوڑ دیں۔۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو انبیاء کی بعثت کی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔ اس دنیا میں دل بھی ایک نظام کی طرح رائج ہوتا، اہلِ دل حکمران ہوتے۔۔۔۔۔ لیکن یہ کیا اہلِ دل حکمرانی چھوڑ دیتے ہیں، ابراہیم ادھم بھی تخت جھوڑ دیتے ہیں، کنگ ایڈورڈ ہفتم بھی وہ تخت چھوڑ دیتا ہے ۔۔۔۔۔شاید ان کے دماغ میں کوئی خلل ہوتا ہے،  بس ایسا ہی ہے۔ جس نے اس طرف آنا ہے وہ یہ قمیت ادا کرنے کا سوچ کر آئے
سوچ سمجھ کے چکیں بھار
ایویں نہ لا بیٹھیں یار

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply