دیوار اور نوشتہ دیوار۔۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

جذبات بہت خوب ہوتے ہیں لیکن جذباتیت نہیں ۔ ہم عجب قوم ہیں، جذبات سے زیادہ جذباتیت ہماری شناخت بن چکی ہے۔ سنی سنائی باتوں پر ایسے پہرہ دیتے ہیں‘ جیسے کسی نوشتۂ دستاویز پر، تاریخ کا معاملہ ہو یا جغرافیائی حقیقت‘ معروضی اندازِ فکر ہمارے اندر پنپنے کا نہیں۔ کبھی اپنے دین دار بادشاہ سے ٹوپیاں سلواتے ہیں اور کبھی تاریخ کے جھروکوں سے اُسے قرآن کی کتابت کرتے ہوئے دکھاتے ہیں۔مسلمان بادشاہوں کی تاریخ کو اسلام کی تاریخ کہنے پر مصر ہیں۔۔۔ان کی کشور کشائی اور محاذ آرائی کو نظریاتی معرکہ آرائی قرار دیتے ہیں۔ ہماری قوتِ شامہ اس قدر زُود حس ہے کہ ہر شعبۂ حیات میں ہم سازش اور سیاست کی بُو سونگھ لیتے ہیں۔ سازش تھیوری ہماری مرغوب ترین تھیوری ہے۔۔۔۔۔۔اس میں کرنا کچھ نہیں پڑتا، بس الزام دھرو اور بری الذمہ ہو جاؤ۔ بیماری و صحت کے معاملات ہوں یا معاملاتِ معاشیات، یا پھر سماجیات کا کوئی مسئلہ درپیش ہو، ہماری زود فہمی بروزنِ زود رنجیٗ ہمیں فوراً بتا دیتی ہے کہ اِس کے پیچھے ہنود کا ہاتھ ہے یا یہود کا۔ ہم دیوار دیکھتے ہیں، نہ نوشتۂ دیوار ۔۔لیکن دیوارکے پار قیاس آرائیاں ہماری بزم آرائیوں کا حصہ ہے۔

لاہور کے ایک نسبتاً پوش علاقے میں کلینک کرتا ہوں، یہاں تعلیمی و معاشی دونوں اعتبار سے خوشحال طبقے سے واسطہ پڑتا ہے، یہاں کا حال یہ ہے کہ ابھی تک میرے مریض مجھ سے راز دارانہ انداز میں پوچھتے ہیں ” ڈاکٹر صاحب، یہ کرونا ورونا ہے بھی۔۔۔۔۔ یا؟؟” اِن پڑھ لکھ جانے والے لوگوں کو مجھے یہ بتاتے ہوئے صبح سے شام ہوتی ہے کہ خدا کا خوف کرومیا،یہاں ڈاکٹر مر رہے ہیں، پیاری پیاری نرسیں بیچاری اللہ کو پیاری ہو رہی ہیں، لیکن معاملہ وہی ڈھاک کے تین پات،یعنی یہ غیروں کی سازش ہے یا پھر اپنی حکومتوں کا ہتھکنڈہ ہے، قرضے لینے اور معاف کروانے کا دھندہ ہے۔

استغفراللہ من ذالک، ہر دوسرا مریض اِس سازش تھیوری کےساتھ دس بیس سال پرانی فلموں کا حوالہ دینا نہیں بھولتا کہ فلاں فلم میں بھی کرونا کا ذکرتھا۔ مخاطب اگر مصنف یا ادیب ہو تو اسے سمجھایا جاسکتا ہے کہ انسان کی قوتِ متخیلہ اُس کے رب کی طرف سے عطا کردہ ایک بہت بڑی قوت ہے،یہ مستقبل کو حال کے نقشے میں کھینچ لاتی ہے۔ جن کے ہاں تحقیق کا چلن ہے،وہ اپنے اَفسانے کو حقیقت کے اِس قدر قریب کھینچ لاتے ہیں کہ حقیقت کا گمان ہونے لگتا ہے، جس موضوع پرقلم اٹھاتے ہیں، اس پر قلم توڑ دیتے ہیں، اس پر سائینس کو خوب کھنگالتے ہیں، اور بعینہٖ وہی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں جو اُس شعبے کے ماہرین کے ہاں مستعمل ہوتی ہیں۔ فلو قبیلے کا کرونا وائرس پہلے سے دریافت شدہ ہے، بس کرونا لفظ استعمال کرنے کی ایک غلطی ہوئی فلم ڈائیریکٹر سے کہ ابھی تک ڈاکٹر بھی بھگت رہے ہیں۔ ظاہر کا انکار کرنے والے‘ ظاہر پر تحقیق کیسے کریں گے؟ جب تک کسی مسئلے کی گھمبیرتا کا اعتراف ہی نہ کیا جائے‘ اُس کی تشخیص اور پھر علاج کا مرحلہ کیسے طے ہوگا۔

کم و بیش یہی رویہ ہمارا دین کے بارے میں ہے۔ ہمارا دی، دینِ وسط ہے، اِس اُمت کو اُمت وسط قرار دیا گیا ۔ اور حال یہ ہے کہ راہِ وسط کو چھوڑ کر ہم اَفراط و تفریط کا شکار ہیں۔ اِسلام دینِ فطرت ہے، دینِ فطرت پر چلنے والوں پر فطرت کے اصولوں کی نگہبانی ایک فرض کی طرح لازم ہے۔ ہمارے ہاں اِنفرادی طور پر باصلاحیت افراد کی کمی نہیں‘ لیکن یہاں ہم اجتماعی رویے کی بات کر رہے ہیں۔
اِسلام ظاہر و باطن میں مکمل ہوتا ہے۔ کوئی ظاہر باطن کے بغیر نہیں،اور کوئی باطن ایسا نہیں جس کا ظاہر میں کبھی اظہار نہیں ہوا۔ ظاہر پرست‘ باطن سے کسی کمان سے تیر کی طرح نکل چکے ہیں، انہیں لفظ باطن میں عجم کی بُو باس محسوس ہوتی ہے۔ دوسری انتہا پر باطن سے شغف رکھنے والے ہیں کہ ظاہر سے بیزار پائے جاتے ہیں۔ اُنہیں ہر حکم کی ایک باطنی تاویل چاہیے، ظاہر کے سب احکامات انہیں جملہ فروعات لگتے ہیں، اور اُن کی دانست میں یہ سب کچھ شاید “عوام الناس” کو بہلانے کی تدبیریں ہیں۔ باطنی وجدان و کشف کی ہلکی سی جھلک دیکھتے ہی اُن کے ظرف کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے اور ظاہر کے نظام پر مامور لوگوں کی توہین و تحقیر اُن کا چلن بن جاتا ہے۔ ان کا یہی رویہ قرآن و حدیث اور نصوص شریعہ کے متعلق دیکھنے میں آتا ہے۔ ایسے ہی رویوں کو دیکھتے ہوئے ظاہر پرست قبیلہ باطنی تفاہیم کو یک قلم بدعت قرار دے دیتا ہے۔ گویا شیخِ اکبر اور کافر اکبر کے درمیان میں ہم کہیں نہیں ٹھہرتے۔ مانا کہ کشف کی ہوائی سواری عقل کی شاہراہ پر نہیں چلتی لیکن کسی کشف کو عالمِ خلق میں حجت بننے کیلئے اُسے عقل اور شریعت کے رن وے پر لینڈ کرنا ہوتا ہے۔ ہم ایسی سیف لینڈنگ کے قائل نہیں۔ بس جو محسوس ہواٗ وہی قانون بنا دیتے ہیں۔ خواب اور کشف خود اپنے لیے حجتِ قطعی نہیں ہوتےٗ ہم اپنے خوابوں کو دوسروں کیلئے حکم اور حجت قرار دیتے ہیں۔

ہمارا عمل بالعموم دوسروں کے عمل کا ردّ عمل ہوتا ہے۔ عمل کی بجائے ردِّ عمل اختیار کرنے کی روش ہمیں اُس راہِ اعتدال پر نہیں رہنے دیتی‘ جسے دین ایک نصابِ زیست کے طور پر ہمارے لیے مقرر کرتا ہے۔ بس ادراک کا کوئی ٹکڑا ہاتھ لگ جائے تو ہم فوراً پنساری کی دکان کھول لیتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ دین کے دسترخوان پر ہم سب مہمان ہیں، کسی مہمان کیلئے مناسب نہیں کہ وہ میزبان بننے کی کوشش کرے۔ دعوت میں ہر شخص ہی میزبان بن جائے، قافلے میں ہر شخص ہی لیڈر بن تو قافلۂ عمل جادہ پیما کیسے ہو گا۔
خیال رہے کہ خیال ہمارے عمل کا امام ہوتا ہے۔ اگر امام بےوضو ہو ‘تو مقتدا کیسا، اور اقتدا کیسی؟ طہارت کو نصف ایمان کہا گیا ہے ۔۔۔۔ طہارت صفائی کے بعد کا مرحلہ ہے۔ اگر ظاہری گندگی لگی ہوتو کلمہ پڑھ کر بھی کپڑا صاف نہیں ہوتا۔ کووئیں سے مردہ کتا نہ نکالا جائے تو سیکڑوں ڈول گرانے سے بھی پانی پاک نہیں ہوتا۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ظاہری عارضے کا اُپائے کس قدر ضروری ہے۔ ایک بندۂ مومن کو ظاہری صفائی کا اہتمام بھی ایسی ہی تندہی سے کرنا ہوتا ہے،جیسے باطنی پاکیزگی کا۔ ہم ظاہر سے باطن کی طرف جاتے ہیں۔ باطن سے ظاہر کی طرف آنا ،صرف فرستادہ پیغمبروں کا منصب ہوتا ہے۔۔ وہی ہیں  جو وحی کی روشنی میں اہلِ ظاہر سے مخاطب ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس قرآن لفظوں کی صورت میں پہنچا ہے، اُنؐ کے پاس وحی تھی، وہ لفظوں کے محتاج نہ تھے۔ ہم اُمتی ہیں، بندگانِ خاک سرشت ہیں، خاک پائے نقوشِ کفِ پا ہونا ہی ہماری سعادت ہے… ہم لفظ سے معنی کی طرف جائیں گے۔ لفظ ظاہر ہے،اور اِس کے معانی باطن میں ہیں۔ اہلِ باطن ظاہر کے عارف ہوتے ہیں، وہ ظاہر کا علم پہلے حاصل کرتے ہیں اور اِس کے بعد ظاہر کی باطنی جہت کی پرتیں کھولتے ہیں۔ بڑے بڑے مستوار، سُکر میں ڈوبے ہوئے قلندر صفت اولیا کی سوانح پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مروجہ ظاہری علوم پر بھی حاوی تھے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے‘ ہر عالم عارف نہیں ہوتا لیکن ہر عارف عالم بھی ہوتا ہے۔ سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ فرماتے ہیں:
ع علموں باہجھ کرے فقیری تے کافر مرے دیوانہ ھوؔ

اہلِ باطن حفظ مراتب کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ کلیہ اہلِ باطن ہی نے مرتب کیا ہے کہ “حفظِ مراتب نہ کنی‘ زندیق شود”۔حفظِ مراتب نہ رکھو گے تو زندیق ہو جاؤ گے۔ حفظِ مراتب میں ظاہر کا مرتبہ پہلے ہے‘ خواہ وہ علوم میں ہو، یا احکامات میں۔ زکوٰۃ، روزہ، نماز اور حج ظاہری عبادتیں پہلے ہیں، اِن کے باطنی اَسرار بعد میں کھلنے والی برکتیں ہیں۔ منہ بند کیے بغیر کوئی روزے کی حقیقت تک نہیں پہنچتا۔ نماز پڑھے بغیر نماز قائم نہیں ہوتی۔ مال خرچ کیے بغیر زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی، زکوٰۃ ادا کیے بغیر مال پاک نہیں ہوتا۔

سیّدِ ہجویر حضرت علی بن عثمان الجلابی المعروف داتا گنج بخشؒ اپنی شہرہ آفاق کتاب “کشف المحجوب” میں اہلِ زندقہ کے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں۔۔۔۔۔ مفہومِ عبارت یوں ہے کہ زندیق کا ماخذ “ژند” ہے، اور یہ فارسی سے معرب ہے، اہل فارس اپنی کتاب کی تاویل کیا کرتے تھے، انہی کے طرزِ فکر پر اہلِ زندقہ بھی اِلہامی کلام کی ایسی تاویل کرتے ہیں جو اِلہامی حکم کے ظاہرکو کاٹ دیتی ہے۔

درحقیقت کشف میں اور تاویل میں وہی فرق ہوتا ہے‘ جو صدق اور کذب میں ہوتا ہے۔ تاویل در تاویل میں ہماری حالت ِ انکار طویل تر ہوتی جارہی ہے۔ ہم حالتِ انکار میں کب تک یونہی بھٹکتے رہیں گے۔ کبھی ظاہر کا انکار ۔۔۔۔ اور کبھی باطن کا ، باطن کا انکار تو ایمان ونفاق کا معاملہ ہے، ظاہر کا انکار تو نری عقل کی بربادی ہے۔۔۔۔۔۔ کجا مقامِ مردِ مومن کہ ظاہر و باطن کا عالم ہو، آفاق و انفس کے عوالم اس کے ذوقِ پرواز کیلئے کم ہوں ۔۔۔۔۔۔ اور ایک ہم ہیں کہ ظاہر سے بھی حالتِ انکار میں بیٹھے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہماری حالتِ انکار ختم ہونے میں نہیں آرہی، ہم من حیث القوم اقرار کی طرف کب پلٹیں گے؟ کلمۂ توحید مکمل ہے…توحید سے شروع ہو کر رسالتؐ پر مکمل ہوتا ہے۔ انکار اور جراتِ انکار سے شروع ہوتا ہے لیکن حالتِ انکار میں برقرار نہیں رہنے دیتا۔ کلمۂ طیبہ اِقرار بھی ہے اور تصدیق بھی … اقرار باللسان و تصدیق بالقلب، توحید اقرار ہے‘ اور رسالتؐ تصدیق،،
دراصل اس آزاد فطرت اِنسان پر قوانین فطرت کا پہرہ ہے، یا یوں کہیں کہ قوانین ِ فطرت انسان کی آزادی کی راہ میں حائل دیوار ہیں۔۔۔۔ نوشتہ دیوار یہی ہے کہ قوانین ِ فطرت پر اُن کے پروٹوکول کے مطابق چلنے والوں کو راستہ ملے گا۔ مادّی قوانین کی طرح اِخلاقی اور روحانی قوانین بھی اٹل ہیں، اِن قوانین کی پاسداری کرنے والے ہی اپنے جسم اور معاشرے کو آفت سے دُور اور عافیت کے قریب رکھ پائیں گے، وہی اپنی روحوں کو فرحان کر سکیں گے۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply