• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایٹمی مذاکرات اور امریکی پابندیاں۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

ایٹمی مذاکرات اور امریکی پابندیاں۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

مذاکرات کا آٹھواں دور شروع ہونے کو ہے، مغربی طاقتوں، روس، چین اور ایران کے درمیان جے سی پی او اے ڈیل کو بچانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ساتویں دور کے اختتام پر ایرانی کے چیف مذاکرات کار علی باقری کنی نے گڈ پروگریس کا ٹویٹ کیا تھا۔ یہ گڈ پراگریس تین ہفتوں کی مسلسل محنت کا نتیجہ تھی، جس میں ابتدائی ایرانی تحفظات کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس پیشرفت کے بعد ہی ایران اس بات پر آمادہ ہوا تھا کہ مزید بات چیت ہونی چاہیئے۔ یورپ اور امریکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے، اگر ایران کا ایٹمی پروگرام اسی طرح جاری رہا تو بہت جلد ایران ایٹمی صلاحیت حاصل کر لے گا۔ جب ایران ایٹمی صلاحیت کا مالک بن جائے گا تو یورپ و امریکہ کے مطابق تو اس ڈیل JCPOA کی حیثیت چلے کارتوس سے زیادہ نہیں ہوگی۔ ویسے بھی ایران نے یورینیم کی افزودگی کے عمل کو ساٹھ فیصد تک بڑھا دیا ہے۔ امریکہ اور مغرب کو خوف اسی بات کا ہے کہ کہیں مذاکرات کی مدت طویل ہونے سے ایران مزید کامیابیاں حاصل نہ کر لے۔ مغربی اور امریکی نمائندے مذاکرات کے ساتویں دور کو ختم کرنے کے حق میں ہی نہیں تھے، مگر ایرانی نمائندوں نے مذاکرات کے اس دور کے اختتام پر زور دیا۔

جمہوری اسلامی ایران کا موقف بہت واضح ہےکہ معاہدہ مکمل طور پر دوبارہ نافذ ہوسکتا ہے، مگر اس کی کچھ شرائط ہوں گی۔ ایران کی جانب سے کسی بھی قسم کی ایٹمی سرگرمیوں کو روکنے سے پہلے ایران یہ چیک کرے گا کہ کیا ان انسانیت دشمن پابندیوں کو دوبارہ ہٹایا بھی گیا ہے یا فقط بات اور کاغذ کی حد تک ہی معاہدہ بحال ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاہدے سے یک طرفہ اخراج کے بعد جمہوری اسلامی ایران کی حکومت کو امریکہ پر اعتبار نہیں ہے۔ اسی طرح جمہوری اسلامی اس بات کی بھی گارنٹی چاہتا ہے کہ امریکہ اس معاہدے کو دوبارہ ترک نہیں کرے گا، یہ نہیں کہ آج اس معاہدے پر دستخط کیے جائیں اور کل اس کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جائے۔

ایران کی ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنے کی امریکی پالیسی کے تحت نافذ کی گئی ساری پابندیاں ختم کی جائیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور میزائل پروگرام پر عائد کی گئی پابندیاں یا جو بھی نام دیا جائے، دراصل ٹرمپ کی زیادہ سے زیادہ دباو کی پالیسی کا حصہ ہیں کہ ایران پر زیادہ سے زیادہ پریشر ڈالا جائے۔ ایران کے لیے امریکی حکومت قابل اعتبار نہیں ہے۔ تازہ ترین مثال یہ ہے کہ ایک طرف امریکہ یورپ کے ذریعے مذاکرات کر رہا ہے اور امریکی عہدیدار اپنے پتے بڑی چالاکی سے استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری طرف مذاکرات کے دوران ہی پابندیاں بھی لگائی جا رہی ہیں۔ دنیا کو دکھانے کے لیے بائیڈن اور ٹرمپ مختلف ہیں، مگر دراصل ایک ہی ہیں اور بائیڈن ٹرمپ کی زیادہ سے زیادہ دباو کی پالیسی پر ہی گامزن ہے۔

ویانا میں مذاکرات ہونے جا رہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ نفسیاتی جنگ بھی جاری ہے۔ اسرائیلی عہدیدار مشرق وسطیٰ میں سامنے آنے والے نئے دوستوں کو مل رہے ہیں اور یہ آمر بادشاہ اسرائیل کے کندھے سے کندھا ملا کر ایران کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اسرائیلی آرمی چیف اور دیگر اسرائیلی ذرائع جمہوری اسلامی ایران کو بار بار جنگ کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ جواب میں اسلامی جمہوری ایران کی افواج بھی مختلف قسم کے دفاعی اسلحے کی طاقت کا اظہار کر رہی ہیں۔ میڈیا پر الگ سے پروپیگنڈے کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ صیہونی ریاست کا بہت کچھ داو پر لگ چکا ہے۔ موساد کا سربراہ اور کئی سینیئر عہدیدار امریکی یاترا پر تھے، جہاں وہ امریکی عہدیداروں کو سمجھا رہے تھے کہ ایران سے معاہد ہ نہ کیا جائے بلکہ پابندیوں اور دیگر دہشتگرد کارروائیوں کے ذریعے ایران پر دباو بڑھایا جائے۔

محمد بن سلمان کا موقف آرہا تھا، جس میں وہ اسرائیل مخالف مزاحمتی محاذ میں ایران کے کردار اور میزائل پروگرام پر شدید تنقید کر رہا تھا کہ اسے مذاکرات کا حصہ بنایا جائے۔ محمد بن سلمان کا مسئلہ کئی طرفہ ہے، وہ یمن کی جنگ میں بری طرح پھنس چکا ہے۔ اس کی خارجہ پالیسی کی وجہ سے قطر بھی سعودی عرب کے مقابل قوت بن چکا ہے اور اب عرب امارات اور سعودی عرب میں بھی معاشی مفادات کا ٹکراو شروع ہوچکا ہے۔ سعودی عرب میں آنے والی ثقافتی یلغار، جس نے وہاں کی مذہب قیادت کو کنارے کر دیا ہے اور مقابل میں عرب امارات نے ہر حد کو مٹانے کی سعی جاری رکھی ہوئی ہے۔ سیاحوں کا رخ سعودیہ کی طرف دیکھ کر عرب امارات نے اعلان کیا ہے کہ اس نے فلموں کی سنسرشپ مکمل طور پر ختم کر دی ہے، اب ہر اخلاقی، غیر اخلاقی فلم مکمل دیکھنے کی خواہش ہے تو عرب امارات کا رخ کریں۔ دیکھتے ہیں کہ اس کے مقابل سعودی عرب کس عرب اور اسلامی تہذیبی قدر کے خاتمے کا اعلان کرتا ہے، تاکہ زیادہ سیاح وہاں کا رخ کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مذاکرات کا نیا دور مغرب اور امریکہ کے لیے ایک موقع بھی ہے کہ اگر وہ سالوں کی سفارتی کوششوں کا خاتمہ نہیں چاہتے اور اگر وہ خطے کو ایٹمی دوڑ کا گھر بننے سے روکنے کے خواہش مند ہیں تو انہیں اسلامی جمہوری ایران کو اس کے جائز حقوق دینا ہوں گے اور ہر صورت میں غیر قانونی اور غیر انسانی پابندیوں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ان پابندیوں سے سب سے زیادہ بچے اور عورتیں متاثر ہوئے ہیں اور بین الاقوامی قانون میں ایسی پابندیاں جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ یورپ انسانی حقوق کا ٹھیکدار بھی رہے اور ساتھ میں عورتوں، بچوں اور مریضوں پر ستم بھی ڈھاتا رہے۔ مشرق و مغرب کا انصاف پسند انسان یہ دوغلا پن دیکھ رہا ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply