قَسَم(یمین)  کی  اقسام   اور  احکام ۔۔ڈاکٹر محمد عادل

یمین کی لغوی تعریف:

لغت  میں یمین تین معانی  میں استعمال ہوتا ہے:

(۱)قوت و قدرت[i]     (۲)دایا ں ہاتھ[ii]                        (۳)قسم[iii]

یمین کے اصطلاحی معنیٰ:

اصطلاح میں یمین کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے نام یا صفات سے تاکید پیدا کرنے کو کہتے ہیں[iv]۔علامہ زیلعی کے نزدیک وہ عقد جس سے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا ارادہ پختہ کیا جاتا ہے یمین کہلاتا ہے[v]۔

یمین کی اقسام :

یمین کی تین قسمیں ہیں: (۱) یمین لغو (۲) یمین غموس (۳) یمین منعقدہ [vi]

یمین لغو کی تعریف:

لغت میں لغو کے معنیٰ باطل و بے فائدہ کےہیں،چاہے کلام ہو غیر کلام[vii]۔اصطلاح میں لغو کی تعریف یہ ذکر کی گئی ہے کہ  انسان کے زبان پر بغیر ارادہ  کے قسم کے الفاظ آجائے[viii]۔ احناف کے نزدیک  انسان ماضی یا حال سے خبر دیتے ہوئے  غلطی  سے جھوٹی قسم کھائے تو اس قسم  کو یمین لغو  کہا جاتا ہے[ix]۔

یمین لغو کا حکم:

سورۃ البقرۃ  اور سورۃ المائدۃ میں یمین  لغوی یہ حکم بیان کیا گیا :

اللہ تعالیٰ “یمین لغو”  میں   تمہاری پکڑ نہیں فرمائیں گے،لیکن تمہارے دلوں نے جس کا ارادہ کیا ہو اس میں گرفت فرمائیں گے[x]۔

اس آیتِ کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ  یمین  لغو میں نہ کفارہ ہے اور نہ گناہ[xi]۔علامہ ابن قدامہؒ کے نزدیک امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ یمین لغو  میں کفارہ  نہیں ہے[xii]۔

یمین غموس کی تعریف:

لغت میں کسی شے کو دوسری  شے میں  داخل کرنے کو غمس کہتے ہیں[xiii]۔اصطلاح میں غموس   کسی گزرے واقعہ سے متعلق جھوٹی قسم کھانے کو کہتے ہیں۔[xiv] اور  اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ چونکہ اس طرح کی  قسم  کھانے والا گناہ  میں ڈوب جاتا ہے یا عذاب میں داخل ہوگا اس لئے اس کوغموس کہتے ہیں[xv] اور  اس قول کی تائیدایک حدیث مبارک سے بھی ہوتی ہےکہ جو شخص کسی مسلمان کا مال ناحق کھانے کی غرض  سے جھوٹی قسم کھائے ،اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کرتا ہے[xvi]۔

یمین غموس  کو حدیث مبارک میں گناہِ کبیرہ قرار دیا گیا ہے ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایااللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک،والدین کی نافرمانی،ناحق قتل کرنا اور یمین غموس بڑے گناہ  ہے[xvii]۔

یمین غموس کا حکم:

یمین غموس میں کفارہ واجب نہیں ہوتا[i]۔ سورۃ البقرۃ آیت ۲۲۵ اور سورۃ  آل عمران آیت ۷۷ سے یہی حکم   ثابت ہوتا ہے۔ان دونوں آیات میں اخروی  عذاب   کا ذکر کیا گیا ہے   اور کفارہ  کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ علامہ ابن رشد ؒ نے اس مسئلہ میں کفارہ کے عدم وجوب کو جمہور کا قول قرار دے کر ترجیح دی ہے[ii]۔

۳ : یمین منعقدہ   کی تعریف:

عقد لغت میں عزم  وجزم اور تاکید کو کہتے ہیں[iii]۔ اصطلاح میں یمین منعقدہ سے مراد وہ قسم ہے جو اس بات یا کام  کے متعلق کھایا جائے جو  مستقبل میں ممکنہ طور پر پیش آسکتا ہو[iv]۔ایک تعریف یہ بھی کی گئی ہے  کہ یہ وہ قسم جو مستقبل میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کھایا جائے[v]۔

یمین منعقد ہ کی اقسام :

 (۱) یمین منعقد اگر واجب کام کے کرنے اور حرام  کے ترک سےمتعلق ہو ،تو   پھر اس یمین کا پورا کرنا واجب اور اس کا توڑنا حرام ہے ، مفسرین   کے نزدیک سورۃ النحل آیت ۹۱  سے ثابت ہوتا ہے کہ  جب انسان کسی نیک کام کے کرنے کا عہد کر لے  ،تو یہ اس  کا وہ  عہد ہے، جس کا پورا کرنا واجب ہوتا  ہے[vi]۔اس کی تائیداس حدیث مبارک سے بھی ہوتی ہے:جو شخص اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی قسم اٹھائے ،تو اسے پورا کرے[vii]۔

(۲) یمین منعقد اگر واجب کے ترک یا حرام کے  کرنے سے متعلق ہو ،تو اس کا توڑنا واجب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس نے قسم کھائی ، پھر اس سے ذیادہ بھلائی والا کام دیکھا تو اسے چاہیئے کہ وہ کام کریں اور اپنے قسم کا کفارہ دیں[viii]۔

(۳) یمین منعقد اگرمندوب  کے ترک یا مکروہ کے کرنے سے متعلق ہو ،تو اس توڑنا مندوب اور پورا کرنا مکروہ ہے۔سورۃ البقرۃ آیت  ۲۲۴  اور سورۃ النور آیت  ۲۲میں ایسے قسموں  سے منع فرمایا گیا ہے جو نیکی  اور صلہ رحمی سے روکنے  والی ہو۔

یمین منعقد  کا حکم:

یمین منعقد توڑنے  سے کفارہ واجب ہوتا ہے،سورۃ المائدۃ  آیت ۸۹  میں یمین منعقدہ کا حکم بیان کیا گیا ہے :اللہ  تعالیٰ تمہیں تمہاری فضول قسموں پر نہیں پکڑتا لیکن ان قسموں پر پکڑتا ہے جن پر تم اپنے آپ کو پابند کرو، سو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو اوسط درجہ کا کھانا دینا ہے (ایسا کھانا) جو تم اپنے گھر والوں کو دیتے ہو یا دس مسکینوں کو کپڑا پہنانا یا گردن (غلام) آزاد کرنا، پھر جو شخص یہ نہ کر پائے تو پھر تین دن کے روزے رکھنے ہیں، یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھاؤ، اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔

اگر کوئی شخص قسم کھا لے اور پھر توڑنے سے پہلے ہی کفارہ دیدے تو یہ کفارہ  کافی نہ ہوگا بلکہ قسم توڑنے کے بعد دوبارہ کفارہ دے گا[ix]۔

یمین منعقدہ کے کفارہ کی تفصیل

۱: کھانا کھلانا(اطعام الطعام):

کفارہ ٔ یمین میں سب سے پہلے دس (۱۰) مسکینوں کو کھانا کھلانے کا ذکر کیا گیا ہے ۔احناف کے نزدیک  ہر مسکین کو نصف صاع(پونے دوسیر) گندم  ،جَویا ایک صاع کھجور دینا واجب ہے[x]۔قسم توڑنے والے  کو یہ  اختیار حاصل ہے چاہے تو دس مساکین کو صبح وشام

کھانے کھلائے یا ایک مسکین کو دس دن صبح شام کھانا کھلائے ۔اس طرح یہ بھی جائز ہے کہ  دس مساکین کو صبح کھانا کھلا کر شام کے کھانے کے بدلے ہر ایک کو ایک مد(ایک کلو) گندم یا جَو دے۔

۲: کسوۃ(کپڑے پہنانا):

لغت میں پہنانے کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے [i]۔یہاں  بطور کفارہ دس مساکین کو کپڑے پہنانا  مراد ہے۔

۳: غلام کا آزاد کرنا(تحریر  رقبہ) :

سورۃ المائدۃ میں کھانا کھلانے اور کپڑے پہنانے کے بعد غلام آزاد کرنے کاذکرہے یعنی یہ اختیار دیا گیا کفارہ میں غلام کا آزاد کرنا بھی جائزہے ۔ کفارہ میں مؤمن غلام کا آزاد کرنا ضروری نہیں[ii]۔

۴: روزے رکھنا(صیام) :

یمین کے کفارہ میں  چوتھے نمبر پر روزے رکھنے کا  ذکر ہے ۔ قسم توڑنے کے بعد اگر پہلی تین چیزوں (کھانا کھلانے، کپڑے پہنانے اور غلام آزاد کرنے )پر کوئی قادر نہ ہو تو وہ بطور کفارہ تین روزے رکھے گا۔یہ تین روزے متواتر رکھنا لازم ہے۔

کفارہ  کے برابر قیمت دینا:

احناف کے نزدیک کفارہ میں کھانے کھلانے یا کپڑے پہنانے کی  جگہ اس   قیمت دینا جائز ہے  کیونکہ  کفارات میں مقصود مساکین کو نفع پہنچانا ہوتا ہے اور یہ مقصد قیمت  دینے سے بھی پورا ہو جاتا ہے۔اسی طرح  جب زکو ٰۃ میں فصل وغیرہ  کی بجائے اس کی  قیمت  دینا جائز ہے ، تو کفارات میں بھی ایسا کرنا جائز ہے کیونکہ زکوٰۃ و کفارات کا حکم  ایک  ہی ہے[iii]۔لیکن اگر ایک مسکین کو پیسے دینا ہو تو  اکھٹے دینے کی بجائے دس روز تک اسے  پونے دو سیر گندم کی قیمت  ادا  کی جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

نتائج:

  • یمین کا مشروع ہونا قرآن کریم سے ثابت ہے۔
  • یمین کی تین قسمیں ہیں ،جن میں یمین لغو پر نہ گناہ اور نہ کفارہ جب کہ غموس پر گناہ  ہے مگر کفارہ نہیں۔
  • صرف یمین منعقد میں کفارہ  لازم ہوتا ہے۔
  • کفارۂ یمین میں کھانا کھلانے ،کپڑاپہنانے  اور غلام آزاد کرنے میں انسان کو اختیار دیا گیا ہے ۔
  • اگر کوئی پہلے تین کفارات پر قادر نہ ہو ،تو پھر متواتر تین روزے  رکھے گا۔
  • حوالہ جات
  • [1] جمہرۃ اللغۃ،۲ : ۹۹۴[1]مقاییس اللغۃ ،۶ : ۱۵۸[1]مقاییس اللغۃ،۶ : ۱۵۸

    [1]فتح الباری ،۱۱ : ۵۱۶

    [1]تبیین الحقائق ،۳ : ۱۰۷

    [1]بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ،۳ : ۳

    [1]الصحاح تاج اللغۃ ،۶ : ۲۴۸۳ ۔احکام القرآن للجصاص ،۲ : ۴۳

    [1]سنن ابی داؤد،حدیث نمبر : ۳۲۵۴

    [1]بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع،۳ : ۳

    [1]البقرہ،۲ : ۲۲۵

    [1]تفسیر قرطبی،۱ : ۲۹۵

    [1]المغنی،۹ : ۴۹۷

    [1]العین ،۴ : ۳۸۰

    [1]التعریفات، ،۱ : ۲۵۹

    [1]البنایۃ ،۶ : ۱۱۲

    [1]صحیح ابن حبان ،حدیث نمبر: ۵۰۸۷

    [1]صحیح البخاری، حدیث  نمبر: ۶۶۷۵

    [1]بدایۃ المجتہد ،۲ : ۱۷۲ ۔ تخفۃ الفقہاء ،۲ : ۲۹۴

    [1]بدایۃ المجتہد،۲ : ۱۷۲

    [1]تاج العروس، ، ۸ : ۳۹۴

    [1]المحرر فی الفقہ علیٰ مذہب الامام احمد بن حنبل ،۲ : ۱۹۸

    [1]بدائع الصنائع،۳ : ۵

    [1]زاد المسیر فی علم التفسیر ،۲ : ۵۸۰

    [1]صحیح البخاری، حدیث  نمبر: ۶۶۹۶

    [1]صحیح مسلم،حدیث نمبر : ۱۶۵۰

    [1]بدائع الصنائع، ۳ : ۱۹ ۔ تفسیر قرطبی ،۶ : ۲۷۵

    [1]تخفۃ الفقہاء،۲ : ۳۴۱

    [1]الصحاح تاج اللغۃ،۶ : ۲۴۷۴ ۔ مقاییس اللغۃ،۵ : ۱۷۸

    [1]تحفۃ الفقہاء،۲ : ۳۴۳

    [1]احکا م القرآن للجصاص،۴ : ۱۱۹

Facebook Comments

ڈاکٹر محمد عادل
لیکچرار اسلامک اسٹڈیز باچا خان یونیورسٹی چارسدہ خیبر پختونخوا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply