گوہر افشاں تنقیدی جائزہ/یوحنا جان

لفظوں کا انتخاب اور ان کے پس منظر چُھپی گہرائی کا تعلق مصنف و قلم نگار اپنے تجزبہ اور مشاہدہ سے اردگرد لوگوں پر اپنے فن کے ذریعے آویزاں کرتا ہے۔ جو کتاب کا روپ لیے قاری کے ہاتھوں میں مجسم شدہ تصویر کہلاتی ہے۔ اس تصویر کے ہر زاویہ میں ایک راز اور کنایہ سے بھرپور علامتی و تجریدی تقش موجود ہوتے ہیں۔ جس سے قاری کا احساس ، فکر ، شعور اور اوصاف نکھر کر نئی اُمنگ کا دامن پکڑتے ہیں۔ ہر قلم اور مصنف اس کی تگ و دو میں محوِ عمل ملتا ہے۔ اسی لحاظ سے ڈاکٹر شاہد ایم شاہد کی کتاب ” گوہر افشاں ” جو مختلف مضامین کا مجموعہ ایک نئی تحقیق کی جھلک اور قوت تخیل کا آمیزش لے کر اس دھرتی اور قاری کے مابین ہم آہنگی بنی ہے۔ مسیحی اُردو مصنفین میں اگر مضمون نگاری کی بات ہو تو اس لحاظ سے میرے نزدیک وہ اولیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ الفاظ کا چناو ان کی تراکیب متواتر زندگی کا قالب تعمیر کرنے میں اہم پیش رفت ثابت ہوا ہے۔

ان کی کتاب کے موضوعات اصلاحی ، اخلاقی ، روزمرہ ، زندگی کا تقدس اور تبدیلی کا محور بیان کرتے ہیں۔ جو آج نہیں بلکہ ماضی و حال اور مستقبل کے ہر فرد کی ضرورت ہے۔ انھوں نے اس کا عملی مجسمہ خود کو تخلیقی و تحقیقی تعلق کے گراں قدر مشاہدہ اور حدود اربعہ کو قائم کرکے دکھایا ہے۔

اگرچہ اُن کا شعبہ تعلیم و تدریس کے ساتھ طب ( ہومیو پیتھک ) کا بھی ہے پر وہ جسمانی مسائل کا حل بتانے کے ساتھ بطور معلم باطن کے مسائل اور ان کا معیار بھی متعین کرتے ہیں۔ ان کا مجموعہ کلام ” گوہر افشاں ” دونوں الفاظ ہی نایاب اور ظاہری و باطنی انکشاف کرتے ہوئے قاری کے شعور کو تہ در تہ اُجاگر کرتے ہوئے پائے گئے۔ وہ اپنے مضمون ” تبدیلی کی شروعات” میں لکھتے ہیں۔
” مگر افسوس ہم ایک ایسے ماحول اور معاشرے میں پرورش پارہے ہیں جہاں صرف اخلاقی اصول دوسروں کی اصلاح کے لیے وضع کیے جاتے ہیں جب کہ ہم نے خود اپنی ذات کا دروازہ بند کر دیا ہے۔ یہاں نصحیت کے جام صرف دوسروں کو پلاتے ہیں اور خود اس کا ذائقہ چکھا نہیں جاتا۔”

یہ اصل مسئلہ ہے جو وہ الہی نقطہ کی تشریح اور کلام خُدا کو منظرعام کرکے باطنی تصویر کشی کرتے ملتے ہیں۔ بطور معلم اور طبیب دونوں لحاظ سے مسئلہ کو بیان کرکے ایک تیر میں دو شکار کیے ہیں۔ وہ مسئلہ کو بیان کرنے کے ساتھ حل بھی بتاتے ہیں جو ان کے معلم و طبیب کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اگر مسائل پر بحث کی بجائے اس کے حل پر زور دیا جائے تو زندگی کی کشتی رواں ہو سکتی ہے۔ یہی ڈاکٹر شاہد ایم شاہد کا اسلوب عیاں کرتا ہے۔

ان کا سادہ اور محاوراتی انداز بات میں چاشنی پیدا کرکے منفرد اسلوب میں سمجھنا کمال کا فن ہے یہ ان کے کمال ہنر ، تبدیلی اور تدریسی گوہر کی دلیل ہے۔

ان کے مضامین میں تاکید اور مصالحتی بات کو فروغ دیا گیا ہے جو اصلاحی پیراہن میں اہم قدم ہے۔ مثلاً ” عدم مساوات کی شجر کاری ، اخلاقیات کے پہاڑ ازبر ، سوچ بھی لہولہان ، اُمید کے محل ، سوز کی وادی ، شعلہ نفسی ، عضو کی فضیلت ، سوچ و بچار کا چراغ، غسل کی صراحی ، خوشی کا آئینہ ، اُمید کی جھونپڑی ، باٹ کا ترازو ، اعتماد کی شہ رگ اور جھوٹ کا پھندا ” وغیرہ وہ نایاب استعاراتی الفاظ ہیں جن کے پس منظر میں تاکیدی تراکیب کا استعمال کرتے ہوئے قاری کے قلب و ذہن پر گہرے نقش عیاں کیے ہیں۔ جو نئی بات کو یاد کاسحر دے کر ترتیب اور قدروقیمت کے معیار کو پرکھنے کے لیے نئی ہوا کا جھونکا فراہم کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب قاری ان باتوں کو داخلی طور پر رواں دواں ہو کے اپنی تلاشی لیتا ہے تو اپنائیت کا احساس ، فلاح کا رنگ اور فن کا ڈھنگ ضرور حاصل کرتا ہے۔ جو اس گلشن میں لاکھڑا کرتا ہے جہاں پر باطن کا سفر ایک اصلاح کا حامی ہو کر راہنمائی کرتا ہے۔ یہ زندگی کو منفرد ، حیرت انگیزی اور پوشیدگی میں تعلق قائم کرکے لامتناہی اُمیدوں کو نتھی کرتا ہے اور بدرجہ مکاشفائی بھید عیاں ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر شاہد ایم شاہد کا یہ اسلوب مسلسل سراپانگاری ہے کبھی نبض پر ہاتھ رکھ کر زندگی کا عنوان دے رہے ہیں تو کبھی حقائق کی کھوج لگانے کے لیے اپریشن تھٹیر میں چراغ روشن کرنے میں محو ہیں۔
المختصر یہ کہوں کہ ان کا انداز بیاں راز رنگ کی فراوانی ، ہمیشہ کی زندگی اور زندگی کے فن کی نمائندگی بتاتا ہے جو ہر لمحہ کے بعد گہرائی میں جانے کو کہتا ہے جہاں قاری خودی ہی شائستگی و شعور کے اوصاف کو فروغ دے کر قیمتی موتی اکھٹے کرتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply