ایک جج کا ایک دن کی زندگی کا بیان حلفی ۔۔۔۔مشتاق خان

نوٹ۔اس بیان حلفی کی 98 فیصد ججز حضرات سے مماثلت لازمی ہے،صرف نام فرضی ہے حالات و واقعات بالکل سچ بیان کیے گئے ہیں ۔

میں مسمی سول جج درجہ اول مجسٹریٹ دفعہ تیس اللّٰہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر سچے دل سے بیان کرتا ہوں کے آج صبح عدالتی کاروائی کا آغاز حسب معمول ریٹائرنگ روم میں بیٹھ کے چائے پینے اور فون پر باتیں کرنے سے ہوا ،یہ وقت میں اپنے ریڈر کو روز دیتا ہوں تاکہ وہ اس دوران آج کی پیشی پر آئے ہوئے دسیوں ایسے ملزمان جو اپنی ہٹ دھرمی یا غربت کی وجہ سے اپنے کیس کا فیصلہ نہیں کروا پا رہے ان سے نذرانے لیکر اگلی پیشی کی تاریخ مقرر کر سکے ،میری موجودگی میں ریڈر کھل کے یہ کام نہیں کرسکتا اس لئے میں یہ وقت ریٹائرنگ روم میں بیٹھ کے گزارتا ہوں ۔

اس کام کے مکمل ہونے کے بعد میں عدالت میں بیٹھ جاتا ہوں اور پولیس گرفتار شدہ ملزمان کو میرے سامنے پیش کرتی ہے، یہ دو تین گھنٹے بہت مصروفیت کے ہوتے ہیں کیونکہ ایک ہی جیسے جرائم میں ملوث کچھ ملزمان کو اسی وقت ضمانت دینی ہوتی ہے تاکہ وہ جیل نہ جاسکیں، اس بات کا فیصلہ وکلاء یا ملزمان کے ورثاء کا عدالتی عملے سے رابطے سے پہلے ہوچکا ہوتا ہے ۔

جبکہ باقی ملزمان جو عدالتی عملے یا کسی وکیل کے ذریعے اپنی رہائی کا سودہ طے کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں ان کو جیل بھجوانے کے آرڈرز بھی لکھنے ہوتے ہیں ۔

میں حلفاً بیان کرتا ہوں مجھے آج تک یہ نہیں پوچھا گیا کہ ایک ہی جرم میں کچھ کو ضمانت اور کچھ کو جیل کیو ں بھیجا گیا۔۔ یہی صورتحال اس روز باعزت بری ہونے والے ملزمان کی بھی ہوتی ہے ،جن کا سودا طے پاگیا وہ باعزت بری جو ناکام ہوئے ان کے استغاثہ کے گواہ طلب کیے جاتے ہیں ۔

میں حلفاً بیان کرتا ہوں کہ میری ایک روز کی آمدن اتنی زیادہ ہے کہ میرا ذہن ہی کام کرنا چھوڑ چکا ہے کہ میں اتنے پیسے کہاں  خرچ کروں مجھے اب یہ ڈر بھی ہے کہ میری ویڈیوز کی تعداد پتہ نہیں  کتنی ہوگی اور کون کون سی ہوگی۔۔ میں یہ بیان اس لئے دے رہا ہوں کہ دن بدن بڑھتی دولت کے ساتھ ساتھ ، وکلاء کی بلیک میلنگ بھی بڑھتی جارہی ہے اور اب یہ وکلاء بہت کم پیسوں میں بہت خطرناک کام بھی نکلوا رہے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے اپنا انجام اچھا نظر نہیں  آرہا،مسلسل بلیک میلنگ اور عیاشیوں نے مجھے بیمار اور کمزور کردیا ہے، میں یہ بیان حلفی نوجوان ججز کے لیے تحریر کر رہا ہوں کہ وہ ہوسکے تو وکالت یا جج کا پیشہ نہ  اپنائیں کیونکہ اس میں صرف اور صرف بدی ہے اور اس کا انجام بہت بھیانک نظر آرہا ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply