کھیر ڈاکٹرائن — بلال شوکت آزاد

کہاوت مشہور ہے کہ جب کوئی میٹھے سے مر سکتا ہو تو اسکو زہر دینے کی کیا ضرورت؟

کہاوت کا براہ راست  اس مضمون سے کوئی تعلق بظاہر تو نہیں ہے مگر مجھے عالمی برادری اور با الخصوص یو این اور یو ایس اے کے حالیہ صلح جوئی کے اور محبت بھرے اقدامات سے اسی مقولے کی ، بلکہ اس مقولے پر مبنی “کھیر ڈاکٹرائن” کی بو آرہی ہے۔

الیکشن سے قبل ٹرمپ کم جو انگ, طالبان, پاکستان اور مسلمانوں کے سخت خلاف تھا بلکہ اسکی الیکشن کیمپین اور مینیفسٹو تک مخالفتوں اور نفرتوں کا عکاس تھا۔پھر ابتدائی مہینوں میں ٹرمپ نے الیکشن کیمپین اورمینیفسٹو والے وعدے پورے کرنے کی کوشش بھی کی لیکن نتیجہ سخت اور الٹا ہی موصول ہوا۔کم جون انگ کو دھمکی دی تو اس نے بین البراعظمی اور ہائڈروجن بم کے کامیاب تجربے کرکے پختہ اور سخت جواب دیا  اور دھمکیاں دینے والوں کی زباں بندی کا مناسب   انتظام کیا۔ افغان پالیسی دراصل طالبان اور پاکستان مخالفت کا اعلان کیا تو افغانستان پچھلے امریکی صدور کی نسبت ٹرمپ کے دور میں زیادہ خطرناک ثابت ہوا اور ٹرمپ کو لینے کے دینے پڑ گئے۔

پاکستان کے خلاف بیان بازی سٹارٹ کی تو پاکستان کا سخت ترین موقف سننے کو ملا بلکہ یو این او میں  پاکستان کی بدولت بری طرح ہزیمت کا سامنا بھی کرنا پڑا کہ یروشلم میں امریکہ کا اسرائیلی سفارت خانہ ٹرانسفر کرنے پر پیش کی گئی یمن ترکی اور پاکستان کی قرارداد کے حق میں واضح اکثریت اور امریکہ کو صرف نو ووٹ ملنا اور ڈو مور کے جواب میں نومور کا ٹکا جواب امریکہ کی اوقات بتاگیا۔اور اب مسلمانوں کا پتہ ہاتھ سے نہ جائے تو ٹرمپ انتظامیہ کی لچک ٹرمپ کی بے بسی اور مجبوری کی عکاسی کرتی ہے۔

تو اسی طرح کے ناکام تجربوں اور بڑی بڑی باتوں کے جواب میں کھلی ڈلی بے عزتی نے ٹرمپ کا سارا منصوبہ تہس نہس کردیا ہے ، اس لیئے “کھیر ڈاکٹرائن” پر عمل پیرا ہونے پر رضامندی ظاہر کی گئی اور اب مورخ صرف اچھا ہی اچھا ہی لکھنے میں مصروف ہے۔ٹرمپ مزاجاً پیسے سے زیادہ شہرت کا بھوکا ہے, اس کو اس سے قطعی فرق نہیں پڑتا کہ شہرت اچھی ہو یا بری لیکن بری شہرت سے اس کو جو اذیت پہنچی ہے وہ اس کو مجبور کررہی ہے کہ اچھی شہرت کا حصول ممکن بنائے باقی منصوبوں پر عملدآمد کو پوری ٹرم اور زندگی پڑی ہے, لہذا پھر کشمیر کا ظلم بھی نظر آگیا,بھارت کی دہشت گردی اور زیادتی بھی نظر آگئی,جماعت الدعوہ, لشکر طیبہ اور حرکت المجاہدین کی حقیقت اور سچائی پر بھی یقین آگیا,طالبان سے صلح کا خیال بھی آگیا,ملا فضل اللہ کی سفاکیت اور دہشت گردی سے بھی واقفیت ہوگئی اور کم جون انگ کا ایٹم بم اورہائیڈروجن بم بھی پر امن ہیں کا یقین آگیا,اور آئندہ چند دنوں تک پاکستان کی 33 ارب ڈالر اور بقایا جات والی رقم کے کولیٹرل ڈیمج انسینٹو ہونے کا یقین بھی آجائے گا۔

اور اسی طرح ایک محدود مدت تک مورخ حق قلم ادا کرتا رہے گا اور امریکہ و ٹرمپ اور یو این کو فرشہ صفت یا صبح کا بھولا شام کو لوٹا تسلیم کرکے سب اچھا اچھالکھتا رہے گا۔یہ ہے دراصل “کھیر ڈاکٹرائن” کہ جب دشمن میٹھے سے مر سکتا ہو تو اسے زہر دے کر مارنے کی بھلا کیا ضرورت؟

پاکستان, طالبان اور کشمیر و کشمیر کاز سے منسلک مذہبی و کالعدم جماعتوں کو ایسے اقدامات کا  بظاہر خیر مقدم کرنا چاہیئے لیکن درپردہ صہیونی, ہندو اور نصاری سازشوں سے نبردآزما ہونے کو تیار رہنا چاہیئے۔یہود, ہنود اور نصاری ہمارے کسی طرح سگے نہیں لہذا ان کی چلتر چالاکیوں کو محبت, امن, بھائی چارہ اور صبح کا بھولا شام کو لوٹا سمجھ کر آخری قدم مت سمجھ لینا۔یہ جو اچھی اچھی خبریں اور فیصلے و اقدامات پڑھنے سننے کو مل رہے ہیں یہ سب “کھیر ڈاکٹرائن” کے ثبوت ہیں جو ہمیں زہر کے بجائے میٹھے سے مارنے کی سعی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ابھی میرے بہت سارے احباب اس بات کو ویسے سمجھ نہ پائیں جیسے مجھے دو تین دن کی تحقیق سے سمجھ آئی ہے، بہرحال مسلمان اس دھوکے کا شکار ننہ ہوں باالخصوص پاکستانی کشمیری اور طالبان مسلمان کہ امریکہ اور اقوام متحدہ ہمارے حق میں ہیں۔میری بات میں کتنی حقیقت ہے اس کا ثبوت پاکستانی عام انتخابات کے بعد ملنا شروع ہوگا کہ یہ سب “کھیر ڈاکٹرائن” کے تحت فیصلے اور اقدامات تھے۔لہذا ” دیکھو اور انتظار کرو ” کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے   آپ اور میں   سچائی کے ظہور پذیر ہونے کا  انتظار کرتے ہیں۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply