پردیسی زیرِ عتاب کیوں ؟ ۔۔۔ولائیت حسین اعوان

وزیراعظم صاحب نے آج ایک بار پھر بیرون ملک پاکستانیوں کے کاندھوں پر بندوقیں رکھ کر چلانے کے لیے ارشاد فرمایا کہ سٹیٹ بینک میں جلد ایک اکاونٹ اوپن کروایا جائے گا جس میں بیرون ملک پاکستانی کرونا متاثرین کے لیے فنڈ دیں گے۔

بس کر دیں جناب۔۔۔
کیوں مزید بیوقوف بنائے جا رہے ہیں پردیسیوں کو۔
اپنے ملک میں آپ نے ایک ہفتہ سے پروازیں بند کر دیں۔سپین کے شہر بارسلونا اور اٹلی کے شہر روم جہاں اس قدر حالات خراب ہیں وہاں پروازیں ابھی تک چل رہی ہیں۔
آپ نے اپنی کوتاہی چھپانے اور اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ڈائریکٹ ہی پردیسیوں کے داخلے پر اپنے ہی گھر پابندی لگا دی۔

بجائے اس کے کہ آپ وہاں ائیرپورٹس پر مسافروں کو چیک کرنے کے لیے بہتر انتظامات کرتے اور جس پر شک ہوتا اسے قرنطینہ میں بھیج دیتے۔لیکن آپ کے نااہل مشیروں نے آپکو معلوم نہیں کون سا پلان بنا کے دیا کہ  آپ نےان لوگوں کو خوار کر دیا جو آپکا ہراوّل دستہ تھے۔جو آپ کو ووٹ دینے کے لیے اپنے ذاتی ٹکٹ پر پاکستان آتے تھے۔جن سے  آپ نے شوکت خانم ہسپتال کے لیے اربوں کھربوں ڈالر اکٹھے کیے۔

اس وقت بے شمار لوگ اپنے وطن میں پھنس چکے ہیں جو چند دنوں کے لیے پاکستان کسی مجبوری کی وجہ سے گئے تھے۔جب کہ ان کی فیملی یہاں بیرون ملک ہے۔
بے شمار لوگوں کی فیملی پاکستان ہے جن کی واپسی اسی مارچ کے مہینے میں تھی اور وہ یہاں اکیلے ان کے لیے پریشان ہیں۔کچھ کے بچوں کے پیپر ختم ہونے میں چند دن باقی ہیں۔

کئی ایسے پاکستان میں پھنس چکے ہیں جن کے یہاں کاروبار ہیں مثلاً جنرل سٹورز جو اس ایمرجنسی میں اوپن ہیں،اور ان کا بیرون ملک کاروبار متاثرہو رہا ہے اسی طرع کئی لوگوں کے پیپرز اقامہ ختم ہو رہے ہیں، اور وہ پاکستان میں پابند ہو کر بیٹھے ہیں۔

کچھ ایسے ہیں جن کے پاکستان میں والدین یا بیوی بچوں میں سے کوئی سخت بیمار ہے۔انہیں اپنے عزیز کی ضرورت ہے لیکن وہ یہاں بے چین ہے یا کسی کے ماں باپ بچوں میں سے کوئی ان دنوں وفات پا جاتا ہے تو وہ اپنے وطن نہ جانے کی بے بسی پر فقط آپ کو بددعائیں ہی دے گا۔
کچھ لوگوں کی ایک ڈیڑھ ماہ کی چھٹیاں ہیں جو کہ  سال بعد ملنی ہیں  اور وہ یہاں شروع ہو چکی ہیں اور انہیں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ یہ چھٹیاں ان کی پردیس میں ہی ضائع ہو جائیں گی اور اگلے سال تک وہ اپنے خاندان کے پاس نہیں جا سکیں گے۔
پردیسیوں کو تو اپ ایک موبائل تک فری نہیں لانے دیتے اور خواری ائیرپورٹس پر ان کو الگ برداشت کرنی پڑتی ہے۔بلکہ ملک کے ہر دفتر میں انہیں پریشان کیا جاتا ہے۔

ان تمام حالات کے باوجود آپ یہ گمان کریں کہ اپ کی اپیل پر آپ کے بیگ اور اکاؤنٹ پردیسی یورو ڈالر پونڈ ریال سے بھر دیں گے تو سر یہ آپ کی فقط خوش گمانی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خدا کے لیے ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک میں فرق سمجھ کر اپنے ملک میں ہر قدم اٹھائیں اور لوگوں کو امریکہ یورپ کی مثالیں نہ دیں۔
آپ وہاں ضرور رہے ہیں ۔۔ 22 کروڑ عوام امریکہ یورپ میں نہیں  رہے ہیں نہ انھوں نے رہنا ہے۔
ہر وقت پردیسیوں سے وصولی کے بجائے انہیں کچھ ادائیگی کا بھی سوچیں جناب۔

Facebook Comments

ولائیت حسین اعوان
ہر دم علم کی جستجو رکھنے والا ایک انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply