• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ایک فرانسیسی ناول نگار استشراق کے روبرو جیکب سلورمین /ترجمہ: عثمان رمضان

ایک فرانسیسی ناول نگار استشراق کے روبرو جیکب سلورمین /ترجمہ: عثمان رمضان

فرانسیسی ناول نگار میتھیاس انارڈ علاقائیت کا ماہر ہونے کے ساتھ غیر معمولی صلاحیت کے حامل ہیں ۔ ان کی تحقیق کا عظیم موضوع کوئی چھوٹا قصبہ یا پڑوس کا کوئی خطہ نہیں بلکہ بحیرہ روم کاخشکی سے بھرا علاقہ اور اس کے باشندگان ہیں۔ انارڈ فارسی اور عربی بول لیتے ہیں ۔ وہ یورپ سے لے کر مشرق وسطی تک کی متعدد جامعات میں پڑھا چکے ہیں۔ وہ بحیرہ روم کو ایک ممتاز ادبی اور تاریخی شناخت رکھنے والے ایک اہم علاقے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے اسی عنوان (zone):علاقہ پر مشتمل اپنے ایک ناول میں اس کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے” زون” کے حوالے سے ایک نصاب کا نقشہ بلقان میں فرقہ وارانہ تشدد، مراکش میں جہادی سرگرمیوں، روایت اور عالمگیریت کی گوناگوں کش مکش اور ایک بدمعاش کے چوروں ،قاتلوں اور سنکیوں سے پر برآمدے کے متعلق لکھتے ہوئے اپنی نو کتابوں میں پیش کیا ہے ۔جن میں سے تین کتابوں کا انگلش میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ انارڈ کی نثر ،جس کے بلیغ جملے ایک دوسرے پر سبقت کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں(’زون‘ ایک واحد پانچ سو صفحات پر مشتمل ’جملہ‘ ہے) ،حیران کن ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ اس کی تحریرکا ایک بڑا منصوبہ ہے۔

انارڈ نے اپنے ایک  ناول” کمپاس” (قطب نما) میں،جسے 2015 کا پرکس گون کورٹ” (Prix Goncourt) انعام حاصل ہوا، یورپ اور وسط ایشیا کے مابین تعلق کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ اس کا راوی فرانز رٹر (Franz Ritter) ایک درمیانی عمر کا آسٹریاسے تعلق رکھنے والا موسیقی داں ہے جو ویانا میں اپنے فلیٹ میں بے خوابی کی ایک لمبی اور دردناک رات کے دوران اپنی زندگی پر دوبارہ غور کرتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے۔ ہر باب ایک خاص وقتی چھاپ کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور لامتناہی رات کے نصاب سے آگے بڑھ جاتا ہے ۔فرانز موسیقی، ادب اور استشراقی علمیت کی تاریخ کے متعلق مسلسل اور پے در پے فاضلانہ انحراف کے ساتھ اپنے وسط ایشیا کے اسفار کو یاد کرتا ہے۔

استنبول، دمشق اور تہران کے سحر میں مدہوش جہاں وہ رہا اور بڑے پیمانے پر اس نے سفر کیا، فرانز ایک خاص قسم کا مستشرق ہے۔ وہ اپنے پرانے راستے،مابعد استعماری نظریہ کے اخلاقی مسائل، تقدس کی قیمت، تصرف اور سیاسی بھولاپن وغیرہ سے، وسط ایشیائی موسیقی اور فن کے ساتھ گہرے اور خود شعوری تعلق کی وجہ سے لڑتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے پاس ”ایک ایسا انقلابی دعویٰ  ہے جس کی کوئی پروا نہیں کرتا” اس کا کہنا ہے کہ اٹھارویں صدی میں یورپی کلاسیکی موسیقی کی عظیم نشو و نمااورینٹ(ایشیائی ممالک ) کی مرہون منت ہے۔ فرانز اس کا سہرا نپولین کے سر پر باندھتا ہے جسے وہ اشتراکیت کا موجد قرار دیتا ہے کہ یہی وہ شخص ہے جو مصر میں اپنی فوج کے پیچھے سائنس کو کھینچ لایا اور پہلی دفعہ بلقان سے پرے یورپ کو استشراقی دنیا سے متعارف کرایا۔ نپولین کی شکست کے باوجود استعماری غلبے کے جلو میں اس کے بعد استشراقی دنیا سے ادب اور فن کے باب میں استفادے کا نمبر آتا ہے،۔استشراقی دنیا کا اثرورسوخ آنے والے سالوں میں ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے:

لسزٹ، ویگنر، گوئٹے، شلر، فلوبرٹ، رمبورٹ، نیتشے۔ عملی طور پر اس خاص دورانیے کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی ہر ثقافتی شخصیت نے بدیسی کہانیوں، گیتوں شاعرانہ اظہاریوں کو اپنے فن میں شامل کرتے ہوئے وسط ایشیائی اثر کو اپنے اندر جذب کرلیا۔’’ یہ تمام عظیم آدمی جو بھی دوسروں کی طرف سے آتا اسے ذات کی ترمیم کے لیے استعمال کرتے اور اسے(ذات کو) غیر صحیح النسب قرار دیتے کیو ں کہ انتہائی ذہین اور دانشمند شخص اس حرام کاری کو پسند کرتا ہے‘‘۔
فرانز کے جمالیاتی تصور میں یہ حرام کاری خوبصورتی ہے۔ اس تصور کو بڑی حد تک سارہ نے بانٹا ہے جو کہ ساتھی محقق اور اچھی دوست ہے اور فرانز اس کی محبت میں گرفتار ہے۔ اگرچہ وہ (فرانز) اس (سارہ) کو بتانے کے لیے خود کو آمادہ نہ کر سکا۔ سارہ کا کہنا ہے کہ ”سارا یورپ مشرق میں ہے” ،” ہر چیز بدیسی اور ایک دوسرے پر منحصر ہے‘‘۔ انارڈ ایک اچھی اور مضبوط تحقیق اور نکات پر خطوط کھینچتے ہیں اور ہر جگہ دوغلاپن تلاشتے ہوئے مجموعی طور پر مغربی قانون پر مشرقی اثرات کی وضاحت کرتے ہیں۔ ’’ڈون کوئکزوٹ‘‘ پہلا یورپی اور پہلا عربی ناول ہے۔ وہ دلیل دیتا ہے کہ کاروینٹیزنے ماورائے افسانوی زیبائش میں پامیرا کے مسلم شہر کی کہانی کو نیک نامی دی ہے: شامی صحرا کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا خفیہ طور پر لندن پیرس اور ویانا میں زندہ ہے۔

فرانز بذات خود یہاں تک کہ اپنی یادداشتوں میں بھی زیادہ تر ایک انفعالی شخصیت ہے جو انیسویں صدی کے ماہرین آثار قدیمہ اور ”ایک ہزار ایک رات‘‘ کے شیدائی پراؤسٹ(فرانسیسی ناول نگار) کا مرہون منت ہے۔ وہ عمومی طور پر خود پر تنقید سے گریز کرتا ہے۔ اگرچہ وہ نک چڑھا اور مغربی محققین کی پھولی ہوئی انانیت پسندی کے متعلق عاجزی کا رویہ رکھتا ہے۔
اس نے ویانا کے اپنے مقامی باشندے سے یہ کہا: ’’ صرف یہ بات کہ عثمانی ترک تمہارے دروازوں پر دو مرتبہ آئے ۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نہیں ہے کہ تم اب مشرقی ممالک کے لیے گزرگاہ بن گئے ہو‘‘۔جب فرانز کے ساتھی استشراق کے سوال پر بحث کرتے ہیں تواستشراق کی حمایت کرنے والے بعض افراد کی زبان سے چند بنیادی بیانات صادر ہوتے ہیں:” مشرقیت ایک تخیلاتی تعمیر اور کئی نمائندگیوں کا مجموعہ ہے جس سے ہر شخص اپنی پسند کے مطابق، انتخاب کرتا ہے ۔ مندرجہ بالا تمام کا تانا بانا بنتے ہوئے اس پروفیسر کی طرح جو کہ اپنے ایک ذہین شاگرد سے نا امید ہو چکا ہو ، ایڈورڈ سعید ایک فلسطینی امریکی لکھاری کی شکل میں سامنے آتا ہے جس نے مابعد استعماریت مطالعوں کی بنیاد فراہم کرنے میں مدد کی۔ پامیرا کی ایک مخمور رات میں فرانز کو خیال آتا ہے کہ ’’: سارہ نے ایک عظیم نام کا حوالہ دیا تھا کہ یخ بستہ صحرا میں آدھی رات کو ریوڑ کے درمیان ایک بھیڑیا نمودار ہوا اور وہ ایڈورڈ سعید تھا۔ یہ ایسا ہی تھا جیسا کہ کارملائی (Carmelite) خانقاہ میں شیطان کو برانگیختہ کرنا”۔

بلگر (Bilger) نامی ایک خود پرور جرمن فاضل نے ’’ اس تصور سے ہیبت پیدا کی ہے کہ وہ کسی قسم کی بھی استشراکیت سے منسلک ہو سکتا ہے۔ اس نے اچانک ہرچیز کو چھوڑنا اور خود کو تنقید کا نشانہ بناناشروع کردیا۔ ان کی جماعت میں سعید کے بارے میں راے قائم کرنے سے متعلق دوسرے لوگ زیادہ اہل تھے جیسا کہ فرانز اس نے کوئی رائے نہیں دی اگرچہ وہ روکھے پن سے اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ ” ایڈورڈ سعید عمدہ انداز میں پیانو بجا سکتا تھا”۔
زچ  کرنے والے سروں کے روپ میں فرانز کے علاقائی استبدادی حکمرانوں اور استشراقی سیاسیات کے متعلق دقیق و لطیف نکتہ نظر میں روشنی کی جھلک نظرآتی ہے۔ فرانز ایک فکری مبصر ہے لیکن بڑی حد تک مضبوط سیاسی تیقن سے خالی ۔ اپنے ان کچھ دوستوں کے برعکس جنہوں نے خود کو ایرانی انقلابی احتجاجوں کا حصہ بنایا۔ فرانز وسط ایشیائی سفر کے دوران وہاں کی مطلق العنانی کے ماتحت پیدا ہونے والے سیاسی حالات کا تذکرہ بھی کرتا ہے ۔لیکن کتاب کا اکثر حصہ مقامی ہوٹلوں، آنگنوں، جامعات اور ثقافتی آماج گاہوں میں ہی چھپا نظر آتا ہے۔ تشدد، جھگڑا اور جبر ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ یہاں وہاں بحرحال یہ ٹوٹتا ہے فرانز کے افسردہ تخیلاتی تحیر کے ذریعہ:
اس بات کا تصور کرنا کہ ملک شام ہو جائے گا
تباہ و برباد، بدترین تشدد کے ذریعے
(اور اس بات کا تصور کرنا) کہ حلب کے بازار جل جائیں گے
امویوں کی مساجد کے مینار زمیں بوس ہو جائیں گے
بہت سارے دوست مر جائیں گے یا مجبور ہو جائیں گے
جلاوطنی کے لیے، یہاں تک کہ خسارے کی وسعتوں کا اندازہ
اور اس درد کا احاطہ کرنا ویانا کے ایک پرسکون اور آرام دہ فلیٹ سے
ناممکن ہے!

شامی دیہی علاقوں کے سفر کے دوران فرانز سارہ اور بلگر مشق کرتے ہوئے شامی فوجیوں کے ایک عام سے گروہ کی خواہش کرتے ہیں۔ ایک دفعہ پھر تخیل انہیں ہرا دیتا ہے جیسا کہ وہ ٹوٹے ہوئے ٹرک میں بیٹھے ہوئے فوجیوں کا مذاق اڑا رہے ہوتے  ہیں۔ ’’اسد کی فوج اور اس کے ٹینک ہمیں کٹھ پتلیوں اور گتے  کے بنے لڑکوں کی طرح دیکھائی دیے۔ہم نے برے لباس میں ملبوس جیساکہ وہ تھے بھی ،فوجیوں کی ہرجگہ موجودگی کے پیچھے نظر آتا بدترین تشدد اور ممکنہ تخریب، اور اشتہارات کے پیچھے نظر آتی خوف، موت اور ظلم کی حقیقت،اور فوج اور راہنماؤں کی برملا خستہ حالی سے ماوراکچھ بھی نہیں دیکھا۔”

انارڈ کا پبلشر’’کمپاس ‘‘کو ایک ایسے ناول کی حیثیت سے دیکھتا ہے جو یورپ اور اسلامی دنیا کو باہم ملا نے والاہے لیکن انارڈ کی دنیا میں پُر  کرنے کے لیے یہاں کوئی رخنہ یا شگاف نہیں ہے اور اگر ہیں بھی تو وہ نوآبادیاتی سرپرستوں کی طرف سے پیدا کیے گئے ہیں جنہوں نے طے کرلیا تھا کہ یہاں سرحد کھینچی جائے اور وہاں ایک نسلی گروہ کے مفادات کو دوسرے گروہ کے مفادات پر فوقیت دی جائے۔ انارڈ اپنے چھپنے والے بیانات میں سے ایک میں اپنے نوآبادیاتی آباؤ اجداد پر حملہ کرتا ہے۔ ‘‘ ہماری غالب اقوام نے سائنس اور آثاریات پر اپنی اجارہ داری قائم کرتے ہوئے اور نوآبادیاتی آبادی کو ماضی کی لوٹ کھسوٹ کے ذریعہ سے بے دخل کرتے ہوئے عالمگیر صداقتوں کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور نتیجے کے طور پر وہ آسانی سے خود کو اجنبی محسوس کرنے لگے’’ اور یہاں تک کہ اس دردناک تاریخ سے متنوع ثقافتوں پر مشتمل ایک نمایاں اتحاد وجود میں آتا ہے جس سے فرانز استدلال کرتا ہے کہ کوئی چیز بھی اب شاید دیگر یا خارجی نہیں ہے۔ ’’

یہاں ’’کمپاس‘‘ میں ہمیشہ سے ’’دیگر‘‘ہے جو کہ تاریخ اور تہذیب کے ساتھ جزوی طریقہ سے برتاؤ کرتا ہے اثرو رسوخ ہر سمت میں سفر کرتا ہے ‘‘۔ اس کے ایک حصے میں جسے سارہ نے تعلیمی مقالہ کی صورت میں لکھا تھا، فرانز مسلمان مردوں کے تجربات پر مشتمل نقشہ بناتا ہے جن میں سے زیادہ تر افریقہ میں فرانس کی نو آبادیات سے تعلق رکھتے تھے اور جنہیں پہلی جنگ عظیم میں عسکری خدمات کے لیے زبردستی چنا گیا اور پھر بعد میں جرمنی والوں نے انہیں قیدی بنا لیا۔ جرمن محققین نے توقع کے مطابق ان مسلمان جنگی قیدیوں کا نسلی،بے بنیاد سائنسی نظریات کی روشنی میں مطالعہ کیا۔ عین اسی وقت قیصر ولیم کے ایک مشیر نے قیصر کو ایک مہم چھیڑنے پر آمادہ کرلیا جس کا مقصد یہ تھا کہ جرمنی کے دشمنوں کے خلاف مسلمانوں کوجہاد پر آمادہ کیا جائے۔ مسلم جنگی قیدیوں کی ایک مغربی ملک کی طرف سے دوسرے مغربی ملک کے خلاف جہاد لڑنے کی ذہن سازی کی گئی۔ یہی چال ستر سال بعد دہرائی گئی جب امریکہ نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کی آگے بڑھ کرحمایت کی۔

مغرب کے ہاتھ پر وسط ایشیائی (قوم کے) خون کے دھبے ہیں ۔یہ کتاب یہی پیش کرتی دکھائی دیتی ہے ۔اگرچہ انارڈ مکمل اخلاقی تقاضوں کو سر انجام نہیں دیتا۔ ہمیں تسلیم کرنے کی ضرورت ہے ، جیسا کہ سارہ کہتی ہے کہ’’ نہ صرف نوآبادیات کے خوفناک تشدد کو بلکہ ان تمام چیزوں کو بھی جو یورپ نے مشرق سے ادھار لیا ہے یعنی اہل مشرق کو ایک دوسرے سے الگ کرپانا۔ وہ ایک ایسے نئے نقطہ نظر کی تشکیل کے بارے میں سوچتی ہے جس کا مقصد دوسروں کو اپنے اندر شامل کرلینا ہے۔جو کچھ لوگوں کی ( مسلم دنیا پر استعمار کے حوالے سے)احمقانہ پشیمانی یا اس کے برعکس دوسرے لوگوں کی استعمارکی طرف واپسی کی خواہش سے ماورا ہو” یہ انارڈ کے کام کا سنسنی خیز پہلو ہے جسے وہ اپنے ہر ناول میں دوبارہ تلاش کرتا دکھائی دیتا ہے۔

Save

Save

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply