پچھلے ایک ہفتے میں دو واقعات ایسے گزرے ہیں جن کے بارے میں ہر آدمی کی کوئی نہ کوئی حتمی رائے موجود تھی اور سب ہی اپنی رائے کو حرف آخر سمجھتے ہیں ۔ ایک واقعہ “عاصمہ جہانگیر’ کی وفات اور دوسرا “ویلنٹائِن ڈے” ۔ دیکھا جائے تو دونوں ہی واقعات میں لوگوں کا رجحان شدت پسند تھا۔ زندگی کے کسی بھی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اگر آپ اپنی سوچ اور وقت کو شدت پسندی سے مثبت جانب مبذول کریں تو وہ کامیابی آپ کی تقدیر بن جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : قانون اور اشرافیہ
لیکن عام پاکستانی معاشرے میں ہم لوگ شدت پسند تو ہیں لیکن یہ شدت دوسروں پر تنقید اور نصیحت کے لئے ہی ہوتی ہے اور کبھی کبھی تو یہ شدت تشدد میں بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں معیشت مسلسل تنزلی کی جانب جارہی ہو اور عوام اپنے مسائل کے مناسب حل نہ ہونے کے باعث پریشانی کا شکار ہوں وہاں تشدد کا ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ۔
لیکن ان تمام معاملات کے باوجود چند چیزیں ایسی ہیں جنہیں بغیر کسی حکومتی مدد کے عوام آپس میں حل کر سکتے ہیں ۔ ٹریفک ایک ایسا معاملہ ہے جس سے ہر انسان کا اپنی روزمرہ کی زندگی میں لازمی پالا پڑتا ہے۔ جیسے جیسے سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے حادثات بھی بڑھتے جا رہے ہیں ۔ عمومی حالات میں ہم ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور اس کو فخر سمجھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : قانون سب کے لیے
اگر کوئی انسان سرخ سگنل پر اکیلا کھڑا ہے تو پیچھے سے آنے والی گاڑی اسے ہارن دے کر گز جائے گی اور یہ ایک فخریہ حرکت تصور کی جائے گی۔ ایسے ہی اور بہت سے واقعات روزانہ ر و نما ہوتے ہیں جن میں دوسروں کی جان اور مال دونوں کا ضیاع ہوتا ہے اور یہ دونوں ہی ناقابل تلافی نقصان ہیں۔ یہ ایک ایسا معاشرتی رویہ ہے جو دن بہ دن زور پکڑ رہا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ یہ غلط ہے لیکن کوئی بھی اس کی درستگی کے لئے شدت کا رویہ نہیں اپناتا۔
آئیے کیوں نہ آنے والا ہفتہ ہم ٹریفک کے قوانین پر شدت سے عمل کر کے لوگوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کریں اور ایک دوسرے کی جان اور مال کو احترام اور عزت دیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں