محبت کیسی ہو؟۔۔خطیب احمد

 محبت کیسی ہونی چاہے؟ عوامی راۓ  کے مطابق  اسے  مضبوط اور گہرا ہونا چاہیے۔ دھاگے کی طرح نازک بھی نہ ہوکہ ذرا سا کھنچاؤ  بھی برداشت نہ کر پاۓ اور ٹوٹ جاۓ۔محبت تو پانی کی طرح ہونی چاہے  جو اپنا راستہ   خود بناۓ۔پانی،جو بوند بوند   ٹپکتا  ہے تو   زمین میں سراخ کر دیتا ہے۔جیسے پہاڑوں کا سینہ چاک کر کے  آگے بڑھتا چلا جاتا ہے،جو اپنا سفر جاری رکھتا ہے ،راستے میں آنے والے ہر شخص کو سیراب کرتا ہے،۔۔

مگر آج کل کی محبت تو کافی مہنگی اور نازک ہے۔ کیونکہ  ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شرح اور ہر سال بجٹ میں کاسمیٹکس پر قیمت دوگنی کر دی جاتی ہیں  جس کو مد نظر رکھتے ہوۓ محبوبہ کی فرمائش میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔  صبح سویرے  ٹیلی وژن پر روح افزاء ، جام شیریں جیسی لڑکیاں نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں تو بندہ سارا دن لوکل پنساری کا سیل بند شربت فولاد بنا پھرتا ہے۔ اگر ‏ان نازک و حساس دوشیزاؤں  سے دو منٹ بات کر لیں تو پاجامہ فائنل کرنے لگ جائیں۔   خدا گواہ ہے جب بھی سچے پیار والی کمینگی نازل ہوئی ہے تو پیٹ اور جیب دونوں بھرے ہوۓ تھے۔‏ عمومی مشاہدہ ہے کہ محبوبہ کو دہی بڑوں کی اسپیشل پلیٹ کھلانے کی بھی اوقات نہ رکھنے والے کنگلوں کے پیٹ میں ہی محبت کے زیادہ مروڑ اٹھتے ہیں۔کچھ ایسے افراد بھی ہیں جن کی جیب میں محبوبہ کو انڈے والا برگر ، پیپسی اور گول گپے کھلانے کے پیسے بھی نہیں ہوتے۔

ویسے تو پیار محبت میں پڑنا ہی ایک عظیم پاگل پن  ہے۔ لیکن پیار میں اندھا  ہونے سے اچھا  ہے بندہ محبت میں ”کانا“ ہو جائے۔ ‏اگر آپ کو محبت کا کیڑا ضرورت سے زیادہ تنگ کر رہا ہے، تو بھی اس بات کا خیال ضرور رکھیں کہ یہ یکطرفہ ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ لوگوں کو پتہ نہیں کیسےسچی محبت مل جاتی ہے۔ مجھ سے تو دہی لانے کے بعد باقی پیسے تک واپس  لے لئے جاتے ہیں۔ ‏کہتے ہیں کہ  عشق کا پتا ہی تب چلتا ہے ،جب محبوبہ سے شادی نہ ہو۔ عشق اور پولیو، ہوتے  تو صرف ایک بار ہیں، لیکن ِان کا اثر تمام عمر نہیں جاتا۔ 

Advertisements
julia rana solicitors london

گزشتہ سال میں نے اپنی ایک تحریر میں مردوں کے ٹھر کی پن کے حوالے سے چند اہم باتیں لکھی تھیں ،جس میں اپنے مشاہدے کے ذریعے مردوں کی مختلف قسم کی ٹھرک کو واضح کیا گیا تھا۔کیونکہ مردوں کی ہر قسم عورت کے بارے میں ایک ہی انداز سے سوچتی ہے۔اس تحریر میں مردوں کا  عورت کی طرف فطری جھکاؤ اور جنسِ مخالف کی طرف فطری کشش کو ٹھرک سے تعبیر کیا گیا تھا۔ محبت تو دو ارواح کے ملاپ کا نام ہے۔ محبت کبھی بھی ختم نہیں ہوتی  بس خاموش ہو جاتی ہے۔اور  جتنی خاموش  ہوتی  ہے اتنی ہی زور آور ہوتی  جاتی  ہے۔ اندر ہی اندر  شد و مد سے بولتی ہے۔ بس میں اتنا کہوں گا  کہ آج کل کی محبت اپنی شہوانی سوچ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا ذریعہ بن چکی ہے۔ لہذا محبت جیسے مقدس رشتے کو پامال نہ کریں  اور اس کے تقدس کو قائم رکھیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply