مینگنیاں ڈالنے والے۔۔۔ایم اے صبور ملک

سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف جو کہ عارضہ قلب،شوگر اور گُردوں کے امراض کی وجہ سے شدید علیل ہیں،اور اپنی رہائش گاہ جاتی امراء میں قائم انتہائی نگہداشت کی طبی سہولتوں سے آراستہ ایک کمرے میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں،بقول سروسز ہسپتال لاہوراور شریف میڈیکل سٹی کے ڈاکٹروں کے ، ان کے جسم میں بار بار پلیٹ لیٹس کا کم ہونا انتہائی تشویش ناک صورت اختیار کرچکا ہے،جس کے لئے ضروری ہے کہ مریض کو فوری طور پر بیرون ملک منتقل کیا جائے۔لاہور اور اسلام آباد کی ہائی کورٹس نے اسی لئے میاں صاحب کو طبی بنیادوں پر ریلیف فراہم کیا،ہونا تو یہ چاہے تھا کہ عدلیہ کے واضح احکامات کے بعد میاں صاحب کو بیرون ملک منتقل کردیا جاتا لیکن افسرشاہی کہہ لیں یا ذاتی اَنا اور بُغض،عمرانی حکومت نے ای سی ایل کے نام پر میاں صاحب کو اپنے انتقام کا نشانہ بنا لیا،اور گیند کبھی نیب کی کورٹ میں تو کبھی وزارت داخلہ کی راہداریوں میں گردش کرنے لگی ،وہاں سے نکلی تو کابینہ کے ہاں جا کر اس نے ذیلی کمیٹی کی شکل اختیار کرلی،جہاں میاں صاحب کے بدترین سیاسی دشمن جو کل تک مشرف کی کابینہ بعدازاں پیپلز پارٹی اور اب تحریک انصاف کی حکومت کے حاشیہ برادر بنے ہوئے ہیں،ان لوگوں نے اپنی دشمنی اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کا ثبوت دیتے ہوئے میاں صاحب کا نام ای سی ایل سے نکلوالنے کے معاملے کو ویٹو کردیا،اور ایک ذیلی کمیٹی قائم کردی وہ بھی اس شخص کی سربراہی میں جو کل تک مشرف کا ترجمان تھا اور اُس کو ملک سے بغرض علاج بیرون ملک بھجوانے کا ضامن بنا تھا اور مشرف کے باہر جانے کے حق میں بیان دیا کرتا تھا۔لیکن جب باری آئی نواز شریف کی تو ایک نئی روایت ڈال دی گئی کہ ضمانتی بانڈ بھرے بنا باہر نہیں جاسکتے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس قسم کی مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی،خود حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے  والے اراکین نے اس مضحکہ خیز شر ط کو مسترد کردیا،حتی کہ چوہدری شجاعت کو یہ کہنا پڑا کہ عمران خان ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ نہ لگوائیں،نواز شریف کے باہر جانے کے معاملے پر اُٹھنے والے طوفان کو قابو کرناپڑے گا،عمران خان اچھے فیصلوں میں مینگنیاں ڈالنے والوں کی باتیں نہ سنیں،لیکن مشکل ہے کہ چوہدری صاحب کی بات پر دھیان دیا جائے،حکومت اس معاملے پر اب نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والے حساب میں پھنس چکی ہے،چو ہدری صاحب ایک زیرک اور معاملہ فہم انسان ہیں،جنہوں نے عمران خان کو ایک مفید مشورہ دیا،کیونکہ اگر اللہ نہ کرے اس دروان جبکہ میاں صاحب کی بیرون ملک روانگی سے پہلے ہی کوئی بڑا حادثہ ہوگیا جیسا کہ نواز شریف کی جسمانی حالت سے ظاہر ہے تو تحریک انصاف کا بولو رام ہو جائے گا،اورعمران خان کو نوازشریف کو باہر نہ بھیجنے اور اسکو اپنی اناء کا مسئلہ بنانے والے حکومت اور تحریک انصاف کی نیا ڈوبتے دیکھ کر سب سے پہلے چھلانگ لگا کر کشتی سے باہر ہوں گئے،کیونکہ اگر یہ لوگ مشرف اور زرداری کے ساتھ مخلص نہ ہو سکے اور ان دو ادوار میں کوئی تبدیلی نہ لاسکے تو اب ان سے کسی خیر کی توقع رکھنا عبث ہے،ہمارا دین بھی ہمیں اس کا حکم دیتا ہے کہ قیدی اور بیمار کے ساتھ صلح رحمی کا سلوک کیا جائے،مریم نواز کی یہ بات اپنی جگہ سو فیصد درست ہے کہ ماں کو کھو چکی ہوں اب باپ کو نہیں کھونا چاہتی،سیاست کے لئے ساری زندگی پڑی ہے،ہماری سیاسی تاریخ میں اس سے پہلے بھی ایک آمر جنرل ضیاء نے پنڈی جیل میں سزائے موت کے قیدی بھٹو کو اسکے اہل خانہ کے ساتھ آخری ملاقات میں ایک بیٹی کو اپنے باپ کے ساتھ گلے ملنے سے رو ک دیا تھا،کل مشرف نے میاں محمد شریف کی میت کے ساتھ ان کے صاحبزادوں کو ملک میں آنے سے روک دیا تھا،ہم بار بار ایسی مثالیں کیوں قائم کرتے ہیں کہ کل مورخ ہمیں لعن طعن کرے اور ہمارا نام تاریخ میں سنہری حروف کی بجائے ایک سیاہ باب لکھا جائے،عمران خان کو کم ازکم اس بات کی ہی لاج رکھ لینی چاہیے تھی یہ ضمانتی بانڈ کی لایعنی شرط رکھنے سے پہلے کہ کل جب موصوف 2013کے انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران لفٹر سے گر کے زخمی ہوکر شوکت خانم پہنچ گئے تھے تو یہی مرد آہن نواز شریف ایک دن کے لئے اپنی انتخابی مہم منسوخ کرکے شوکت خانم چل کرگیا اور عمران خان کی عیادت کی،شریف خاندان میں ہزار برائیاں ہوسکتی ہیں،لیکن وضع داری،شرم وحیا،چھوٹے بڑے کا ادب اور وقت پڑنے پراپنے سیاسی مخالفین کی اشک جوئی کرنا میاں نواز شریف کے گھرانے کا ہمیشہ سے طرہ امتیاز رہا ہے،جس کی زندہ جاوید مثال محترمہ بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد فوراًہسپتال پہنچ کر پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی اشک جوئی اور عمران خان کی شوکت خانم جا کرعیادت کرنا ہے،یہ اپنے اپنے ظرف کی بات ہے کہ وہی عمران خان ا بھی تک بیگم کلثوم نواز کی تعزیت کو چل کر نہ جا سکا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

موجودہ حکومت کے دور میں اور کچھ ہو نہ ہو ان کو یہ اعزاز ضرور حاصل ہے کہ انھوں نے اپنے قول وفعل سے کم ظرفی کی اعلی ترین مثالیں قائم کردی ہیں،اب مسلم لیگ(ن) اور شریف فیملی کے لئے میاں محمد نواز شریف کی صحت کے حوالے سے آخری سہار ا اللہ تعالی کی ذات ہی رہ گئی ہے کیونکہ وقت کے فرعون تو اپنی طرف سے میاں صاحب کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے لئے اپنی آخری حد تک چلے گئے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply