• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عصمت فروشی کی ابتدا اور وجوہات اور اس کا حل۔۔۔۔ضیغم اسماعیل خاقان

عصمت فروشی کی ابتدا اور وجوہات اور اس کا حل۔۔۔۔ضیغم اسماعیل خاقان

کہا جاتا ہے کہ عصمت فروشی دنیا کا قدیم ترین پیشہ ہے، لیکن کیا یہ ایسا ہی ہے؟ انسانی تاریخ کا قدیم ترین اندراج کچھ چار ہزار سال قبل مسیح تک ہی ہمیں لے کر جاتا ہے۔ جہاں تک لکھی ہوئی انسانی تاریخ موجود ہے جس میں عصمت فروشی کے شواہد ہر دور کی ہر قوم اور ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔

عصمت فروشی کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ یہ کیسے معرض وجود میں آئی اور اس کی ضرورت کیوں درپیش ہوئی؟ یہ چند بنیادی سوالات ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے۔ دور حاضر میں بھی عصمت فروشی دنیا کے تمام معاشروں میں پائی جاتی ہے حتی کہ کئی ایک ممالک میں اسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہے۔

اگر بغور دیکھا جائے توعصمت فروشی کی جڑیں بھی دیگر مسائل کی طرح ذاتی ملکیت اور طبقاتی سماج میں پیوست نظر آتی ہیں۔ اگر معاشرے پر نظر دوڑائی جائے تو اس پیشے سے وابستہ اکثر عورتیں غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں جو یا تو دیہاتوں سے شہروں میں روزگار کے غرض سے بھیجی جاتی ہیں اور روزگار مہیاء کرنے والے انھیںقحبہ خانوں میں فرخت کر دیتے ہیں یا پھر مرد ان کو محبت کا جھانسہ دے کر گھروں سے بھگا لے جاتے ہیں اور فرخت کر دیتے ہیں اور مجبورا ان کو یہ پیشہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔شہروں میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، غربت اور جنگوں کے چلن نے بھی اس میں اضافہ کیا ہے ۔

آئیے ہم عصمت فروشی کی تاریخ پہ مختصر نظر دوڑاتے ہیں۔ متعدد دانشوروں کے مطابق عصمت فروشی زرعی سماج کی قدیم رسومات ساحری اور مذاہب سے جڑی ہوئی ہے۔اس زمانے میں کھیتی کرنے اور جنسی فعل کو ایک جیسا ہی سمجھا جاتا تھا ۔فصلوں کے زیادہ سے زیادہ حصول کے لیے کھیتوں کھلیانوں میں جنسی عمل کیا جاتا تھا ۔چونکہ سماج کا انحصار زرعی پیداوار پر تھا اس لیے اس دور میں دنیا بھر میں “دھرتی ماتا” کی پوجا رائج تھی ۔ دھرتی ماتا یعنی زمین کی تالیف قلب کے لیے اس کے معابد جنسی عمل کے اولین مراکز بنے جہاں جنسی عمل برسرعام کیا جاتا تھا ۔ کچھ جگہوں پر یہ قاعدہ تھا کہ ہر دوشیزہ کو زندگی میں ایک بار عشتار ، اپالو یا دیگر دیویوں کے معابد میں ایک بار کسی یاتری کے ساتھ جنسی عمل سے گزرنا پڑتا تھا ۔ جبکہ معابد کی داسیوں کا یہ عام معمول تھا ۔انھیں جو رقم اس کے عوض نذرانے کے طور پر یاتریوں سے ملتی تھی وہ مہا پروہتوں اور پجاریوں کے لیے کمائی کا ایک بڑا ذریعہ تھا ۔ اسے بعد ازاں حکمران طبقات نے ایک منظم اور نفع بخش کاروبار میں تبدیل کر دیا ۔تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اہل یونان ہی تھے جنھوں نے ایتھنز میں دنیا کا پہلا سرکاری قحبہ خانہ قائم کیا ۔

بہر کیف بہت سےسوالوں کا جواب اینگلز کی کتاب “خاندان، ذاتی ملکیئت اور ریاست” کے آغاز میں بخوبی ملتا ہے۔ اس سوال کو سمجھنے کے لیئے ہمیں خاندان کی قدیم شکل کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ قدیم خاندان جس کے اثرات ایروکواس لوگوں میں پائے جاتے ہیں، ایک ایسا خاندان ہے جس میں آزاد جنسی تعلقات پائے جاتے تھے۔ اینگلز بتاتا ہے کہ انسانی سماج کے ارتقا کے تین مراحل تھے جو کہ انسانی خاندان کے ارتقا سے منسلک ہے۔

انسانی خاندان کی قدیم ترین شکل یک جدی خاندان ہے۔ یہ ایسا خاندان ہے جہاں گروہ وار شادیاں ہوتی ہیں اور ایک پیڑھی  کے مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے شوہر اور بیویاں ہوتی ہیں۔ اسی طرح ان کی اولادیں آپس میں میاں بیوی ہوا کرتے ہیں۔ یہ خاندان کی ابتدائی شکل ہے جو کے ارتقا کے مراحل سے گزرتے ہوے پونالوان خاندان کی شکل اختیار کرتا ہے جس میں سگے بہن بھائیوں کے درمیان شادی کی ممانعت ہوگئی اور رفتہ رفتہ قریب کے رشتہ داروں کے درمیان رشتوں پر بھی پابندی لگی۔ یہ زمانہ مادری حق کا زمانہ تھا جہاں نسل ماں سے چلا کرتی تھی۔

جوڑا خاندان گروہ وار شادی کے دور ہی سے شروع ہو چکا تھا۔ ایسے خاندان میں مرد اور عورت کم یا زیادہ عرصے کے لئیے جوڑا بنا کر رھنے لگے تھے۔ مرد کی کئی بیویاں ہوتی تھیں جن میں سے ایک خاص اور چہیتی ہوتی تھی اسی طرح عورت کے متعدد شوہر ہوتے تھے جن میں سے ایک خاص ہوتا تھا۔ جیسے جیسے گن کی ترقی ہوئی ویسے ویسے بھائیوں اور بہنوں کے طبقے بڑھتے گئے جن میں شادی نہیں ہو سکتی تھی اور لوگوں کو جوڑوں میں رہنے کی عادت بھی بڑھتی گئی۔ شادی پر پابندیوں کی اس بڑھتی ہوئی پیچیدگی نے گروہ وار شادی کو زیادہ سے زیادہ ناممکن بنا دیا۔ اس کی جگہ جوڑا بنا کر رہنے والا خاندان آیا۔ جوڑا خاندان میں ایک مرد اور ایک عورت ایک ساتھ رہتے تھے اور جب تک یہ دونوں ساتھ رھتے تھے عورت سے پوری وفاداری کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔ اسے زناکاری کی نہایت سخت سزا دی جاتی تھی مگر مرد عورت جب چاہیں باآسانی شادی کے اس رشتے کو توڑ سکتے تھے۔ بچے پہلے کی طرح اب بھی صرف ماں کے ہوتے تھے۔

جوڑا خاندان بنانے کا ایک کفارہ عورت کو دینا پڑ گیا اور وہ یہ تھا کہ جیسے گروہ وار شادی سے چھٹکارہ ملا اس کے پرائسچت کے لئے عورت کو محدود مدت کے لیے غیر مرد کو سپردگی کی صورت میں دینا پڑا۔ اس وقت تک اس کفارے کو مذہبی شکل مل چکی تھی اور بابل میں عورتوں کو سال میں ایک مرتبہ میلتا کے مندر میں اپنے آپ کو دینا پڑتا تھا۔ اسی طرح بحیرہ روم سے لے کر دریائے گنگا تک تقریبا سبھی ایشیائی قوموں میں اس طرح کے ریت رواج پائے جاتے تھے جس پر مذہب کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا نجات کے لیے کفارے کی قربانی ھلکی ہوتی گئی۔ کچھ قوموں میں یہ مذہبی پردہ بھی نہیں تھا۔ دراصل یہ قدیم روایات کی باقیات تھیں جو ابھی تک چلتی آ رہی تھیں اور جس کو مذہب کا سہارامل گیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ماندہ پڑتا چلا گیا۔

یک زوجگی کا خاندان جوڑا خاندان سے ہی نکلا ہے مگر اس میں اور جوڑا خاندان میں فرق ہے۔ یک زوجگی میں شادی کا رشتہ زیادہ مضبوط ہے اور اسے جب چاہے توڑا نہیں جاسکتا بلکہ اب صرف مرد ہی اس رشتے کو توڑ سکتا ہے۔ یہ مادری حق کی شکست اور پدری حق کی جیت کا آغاز تھا، ذاتی ملکیت کا آغاز ہو چکا تھا اور اس ذاتی ملکیت کو تحفظ دینے کے لئے خاندان کا پورا ڈھانچہ ہی تبدیل ہو چکا تھا۔ وراثت کا پرانا قانون ختم ہو چکا تھا جس میں وارث ماں سے ہوتی تھی لیکن اب وارث باپ سے ہونے لگا۔ مردوں کو بیویوں سے بے وفائی کا حق اب بھی حاصل تھا۔ یونان قدیم میں خاندان کی یہ شکل نہایت تراقی یافتہ حالت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ عام طور پر گھریلو عورتیں گھرداری کا کام سیکھتی تھیں۔ پڑھائی لکھائی سے انہیں کوسوں دور رکھا جاتا تھا۔ علم کے حصول کے لیے عورت کو قحبہ خانوں کی زینت بننا پڑتا تھا۔ اس دور میں مرد بھی علم کے حصول کے لیے انہیں قحبہ خانوں کا رخ کیا کرتے تھے۔ یہ وہ دور ہے جب دیوداسیوں کو عزت کی نگاھ سے دیکھا جاتا تھا۔ عیسائیت کے ظہور کے ساتھ ہی پرانے رسم و رواج ختم ہو گیے بلکہ زبردستی ختم کرائے گئے اورقحبہ خانے باقائدہ کاروباری اڈے بن گئے۔ اب دیوداسیاں داشتائں بن گئی جو ادنی سی اجرت کے عوض اپنا جسم فروخت کرنے لگیں۔

ذاتی ملکیت کے وجود میں آتے ہی ہر اک شے جنس میں تبدیل ہو گئی جس کا لین دین کیا جا سکتا ہے۔ پرانے ریت رواج کے خاتمے اور پدری حق کی فتح کے بعد عورت کا وقار گر گیا اور وہ ایک جنس میں تبدیل ہو گئی۔ دلال کا پیشہ وجود میں آیا، اب عورت اپنا جسم بیچتی ہے جس کی اسکو ادنی سی اجرت ملتی ہے اور باقی کی رقم دلال کی جیب میں جاتی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عصمت فروشی نے باقائدہ صنعت کا درجہ حاصل کیا جہاں داشتہ ایک اجرتی مزدور سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہی وجہ عصمت فروشی کو طبقاتی مسئلہ بناتی ہے۔

دور حاضر میں عصمت فروشی ایک باقائدہ صنعت کا درجہ رکھتی ہے اور کچھ ممالک میں اسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہے۔ عورتوں کی جسم فروشی امیر زادوں کی لذت پوری کرنے کے لیے کی جاتی ہے اور اس کی قیمت وصولی جاتی ہے۔ سرمایہ داری نظام عصمت فروشی کوبظاہر حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے لیکن اسے تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف منافع بخش کاروبار ہونا ہی ہے۔ چونکہ سرمایہ داری منافع خوری کا نام ہے چنانچہ ایسا کاروبار جو منافع بخش ہو اسے کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عصمت فروشی کا خاتمہ اور عورت کا وقار صرف اسی صورت میں بحال ہو سکتا ہے جب ذاتی ملکیت کا خاتمہ کر دیا جائے، سرمایہ داری کو شکست دی جائے اور اس کی جگہ اشتراکیت لاگو کی جائے۔ کیونکہ اشتراکیت ہی واحد نظام ہے جو ہر استحصال کو ختم کرتا ہے۔عورت کی نجات بنیادی طور پر محنت کی نجات سے ہی جڑی ہوئی ہے ۔ اشتراکیت ہی عصمت فروشی کو ختم کرے گی اوریہ عورت کا کھویا ہوا مقام اسے واپس کرے گی۔یہ محض دعویِ نہیں ہے بلکہ اس کی سب سے بڑی مثال کامریڈ لینن اور کامریڈ اسٹالین کی قیادت میں روس کے محنت کشوں کا برپا کیا ہوا عظیم اکتوبر انقلاب ہے جس نے قحبگی سمیت عورت کو استحصال اور جبر کی ساری شکلوں سے نجات دلائی ۔ چین ، کوریا ، ویت نام ، کیوبا سے لے کر مشرقی یورپ اور افریقہ تک کے ممالک میں جہاں جہاں سوشلسٹ انقلابات کامیاب ہوئے وہاں عورت کی حقیقی آزادی کا سویرا طلوع ہوا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply