سوہن حلوہ۔۔۔ سلیم مرزا

ان دنوں سیاست زوال پہ اور ریاست عروج پہ تھی جب سوہن حلوے کا  ڈبہ ملا۔ نواز شریف راولپنڈی ائیر پورٹ پہ جدہ سے لینڈ کر رہا تھا۔مشرف ن لیگ کو پوری طاقت سے پنڈی پہنچنے سے روک رہا تھا، لوگ خوار ہو رہے تھے ، مسافر رل رہے تھے ۔بلکہ سڑکوں پہ پیدل گھل مل رہے تھے، معراج کی بیوی آہستگی کی وجہ سے ریاض کے ساتھ، اور ریاض کی اپنی تیز رفتاری کے بھروسے معراج کے ہمقدم تھی، ان دنوں “وٹز” کوئی نہیں خریدتا  تھا، پیچھے سے پشتو ہیرؤین جیسی لگتی تھی، ہیرؤین سے شاعر کی مراد  فلمی ہیروئن ہے ۔

میں نکلا گڈی لے کے، لاہور سے اور فیروز والہ پھاٹک پہ بندش کی وجہ سے رک گیا ،کھڑکی کے شیشے کو ایک نورانی شکل کے بزرگ نے بجایا۔ میں نے شیشہ نیچے کیا، “کیا آپ گو جرانوالہ جا رہے ہو،؟ “نہیں، کامونکی تک، کیوں ؟

” بزرگ نے ایک لمحہ سوچا، پھر بولے “جانا تو  ہمیں گوجرانوالہ ہے ، کیا  ہمیں کامونکی تک لفٹ دے سکتے ہیں؟ آگے اللہ مالک ہے “

ہمیں کہتے ہوئے انہوں نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو میری نگاہ تین برقعہ پوش  خواتین پر پڑی، نجانے کون سی منزل پہ جا کے رک جائیں نظر کے قافلے دیوارودر سے گذرے ہیں میرے حساب سے ۔۔

تینوں نوجوان خواتین تھیں۔ مجھےبزرگی سے زیادہ رات آٹھ بجے ان کی جوانی پہ ترس  آگیا۔ “بیٹھ جائیں “

جتنی دیر میں ٹرین نے میرا  راستہ کاٹا اتنی دیر میں وہ گاڑی میں بمعہ بیگ بیٹھ گئے، کامونکی کی علاقائی روایات اور گوجرانوالہ کی شرم وحیا  کی وجہ سے میں نے ان کو سوار   ہوتے دیکھنا  مناسب نہیں سمجھا۔ منہ دوسری طرف کیے رکھا، پھاٹک کھل گیا، میں چل پڑا، تو  چونک  گیا ،نورانی بزرگ ان کے ساتھ نہیں تھے، میرے پہلو میں برقعے میں سے چاندنی چٹخ  رہی تھی ۔

تہاڈا، بھلا ہو جائے!۔۔۔ رات  آٹھ بجے پیچھے جنہیں میں دوسری گاڑی کی ہیڈ لائٹ  سمجھ رہا تھا۔وہاں بھی نقاب الٹے جاچکے تھے ۔دس کلو میٹر تک مترنم دھیمے لہجے ایک دوسرے سے مخاطب رہے ۔ اورگاڑی نہ انجن کی خوبی، نہ کمال ڈرائیور، چلی جارہی تھی، خدا کے سہارے،

“آپ شادی شدہ ہو؟ ” ایک نے مترنم آواز میں دوسری سے پوچھا، مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا،

“آپ شادی شدہ ہو؟ “۔۔۔۔ اب آگے والی چاندنی نے بھی پو چھا تو ڈرائیور کو  احساس ہوا کہ اس سے پوچھا جارہا  ہے ۔

“جی جی، تین بچے ہیں جی میرے ،بڑی بیٹی اور بیٹا  آٹھویں میں، چھوٹا  بیٹا  تیسری میں اور بیگم ایک ادارے کی ہیڈ  ہیں”

میں نے جلدی جلدی سارا بتا دیا۔۔

“اور آپ کیا کام کرتے ہیں ؟”

اب میرے بالکل پیچھے والی ہیڈ لائٹ  نے پوچھا

“جی میں بیگم کے ادارے میں شوھر لگا ہوا ہوں”۔۔۔ تینوں کھلکھلا کے ہنس دیں “

آپ لوگ کہاں سے آرہی ہیں ، بزرگوں کو  پتہ نہیں تھا کہ نواز  شریف کی وجہ سے بسوں کی پکڑ  دھکڑ  چل رہی ہے؟

“پتہ تو تھا۔۔ ملتان سے آئی ہیں ،لاہور میں فنکشن تھا۔” چاندنی نے جواب دیا

“کسی عزیز  کی شادی تھی “؟۔۔ میرے سوال پہ تینوں کھکھلا کے ہنس  دیں۔۔ میں نے ہونقوں کی طرح چاند  چہرہ دیکھا میرا  خیال ہے گاڑی تھوڑا سا لہرائی ضرور  تھی جب پیچھے سے ایک لائٹ  بولی کہ “ہم ڈانس  کرنے آئی تھیں  ملتان سے”.

میں کچھ دیر الفاظ ہی ڈھونڈتا رہا “گوجرانوالہ میں بھی کوئی فنکشن ہے؟  “

نہیں۔۔چاندنی نے جواب دیا۔۔۔میرا گھر ملتان ہے، یہ ہمارے ساتھ کام کرتی ہیں، یہ گوجرانوالہ کی ہے، اور یہ سیالکوٹ کی ۔مجاہد نے مڑ کر نہیں دیکھا لہذا پتہ نہ چل سکا کہ کون سی روشنی گوجرانوالے کی ہے اور کون سی کرن سیالکوٹ کی “

انہوں نے پروگرام بنایا کہ گھر کے پاس آئے ہیں تو گھر سے ہوتے جائیں” چاندنی نے تفصیلات جاری رکھیں”

ملتان میں اصلی سوہن حلوہ کہاں سے ملتا ہے؟ “

ان کی اصلیت میری حیثیت سے بہت اونچی تھی لہذا ایک عمومی بات کی۔ “ہم تو کبیروالا سے منگواتے ہیں  ” چاندنی نے جواب دیا “کہاں جا پاؤں گا میں کبیروالہ “۔۔ آندھی فلم  کے گانے” تیرے بنا زندگی سے شکوہ ” کی ہیرؤین جیسی آہ نکلی میرے منہ سے۔ “یہ لیجئیے ” پچھلی سیٹ  سے ایک ٹین کا  ڈبہ آگے آیا، جسے میں نے پکڑ کر ڈیش بورڈ  پہ اٹکا  لیا۔ “اب میں آپ کو گوجرانوالہ تک چھوڑ  کر  آؤں گا” میرے اندرکا  حاتم طائی صرف اس  خیال سے جاگ اٹھا کہ ان کی قربت زیادہ دیر تک رہے چاندنی مسکرادی ۔

یقیناً پیچھے بھی ہیڈ لائٹس  جلی بجھی ہوں گی۔ “آپ کو ایویں ای تکلیف ہو گی ” جلتی بجھتی لائٹوں میں سے کسی ایک نے کہا مگر میں گوجرانوالہ تک جاہی پہنچا، ان کو اتار کے گھر واپس  آیا تو بیگم کا غصہ وہاں تھا جہاں جون میں سبی کا درجہ حرارت۔ کھانے کے دوران، چٹخارے لے لے کر بیگم کو بتایا کہ ہوا کیا تھا، اب تو وہ سنبھالی نہ گئی، ٹینڈے آلو کی مکس ویجیٹیبل میرے آگے سے اٹھا لی ۔ غصے میں کچن سے چھری اٹھائی اور میرے سامنے آکر کھڑی ہو گئیں، میں ڈر گیا، میری ٹانگوں میں جیسے جان ہی نہ ہو،

“سوہن حلوہ کہاں ہے “؟

“گاڑی میں رہ گیا ہے “۔۔۔ مجھ سے بولا نہیں جارہا تھا “

جاؤ لے کے آؤ۔۔ پھر کھانا ملے گا!

Advertisements
julia rana solicitors

میں سر پٹ بھاگ رہا تھا، سوہن حلوہ لینے اور ساتھ میں سوچ رہا تھا کہ گوجرانوالہ کی بیویاں کتنی جیلس اور شکی ہوتی ہیں!!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply