مکافاتِ عمل، سنو جاناں۔۔وجیہہ جاوید

یہ جو تم خواہشات کی چادر اوڑھے ننگے پیر اس کٹھن صحرائی سفر پر نکل چکی ہو جانے سے پہلے اپنے سے متعلقہ چند لوگوں کو اپنے سفر اور منزل کی معلومات دیتی جاؤ۔ اس تھکادینے والے سفر میں بیچ راستے سے مایوسی لے کر پلٹنا کیسا غضب ناک ہے ۔میں تو اس اذیت سے واقف ہوں۔ تنہائیوں سے محبت کرنے والے تو کسی طرح ان سے مرضی مطلب کے لوازمات ڈھونڈ نکالتے ہیں مگر اس کو آسیب سمجھنے والوں کے ساتھ یہ جو برتاؤ کرتی ہے وہ بعد میں کسی کا ہاتھ تھامنے کے ہرگز قابل نہیں رہتے، یہ بات محض میں تمہیں اپنے تجربے سے بتا رہا ہوں، جانتا ہوں تمہارے کانوں پہ جوں تک نہ رینگے گی۔تمہیں تو آگ میں کود کر اس کی حدت کو جانچنے کا ابتدا ہی سے  شوق ہے ۔۔ کل رات میں نے تم کو خواب میں دیکھا خواہشات کا چولا اوڑھے جو تم گھر سے نکلی تھیں ، اس کی جگہ فتح کے مخملی لباس نے لے لی تھی ۔تمہاری گلابی آنکھیں جو ہمیشہ امیدوں کے دیو ں سے جلتی رہتی تھیں۔ ۔۔۔چاہے جانے کے نشے سے مغرور ہو چکی تھیں۔ میں اس نشے کی کیفیت سے واقف ہوں ،یہ ایک بار تو انسان کو غرور کی بلندیوں پر پہنچا کر اس کی سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتوں کو ماؤف کر دیتا ہے۔تمہارے جسم کا انگ انگ خوابوں کی تکمیل کے نشے سے کھل اٹھا تھا ۔افسوس کہ  کسی وقت میں ہر اس خواب کا حصہ میں بھی تھا جو آج تکمیل کی شکل اختیار کیے تمہیں بہکا رہا تھا۔۔۔

تمہارے ہاتھ میں موجود سرخ گلاب وہ اس وقت کہاں سے آیا ؟۔۔میں اب بھی اسی سوچ میں مبتلا ہوں۔۔۔ مگر وہ چنبیلی کا پھول جو میں نے تمہارے جوڑے میں لگایا تھا مجھے اس بھیڑ میں کسی کے پیروں تلے روندا ہوا ملا تھا ،میں اس کی تنہائی، بے بسی اور خاموش گلے شکوے محسوس کر سکتا ہوں مجھے اس پر بے پناہ ترس آیا تھا میں نے اس کی پتیاں سمیٹیں۔

روشنیوں کی اس دنیا میں کامیابیوں کے نئے سفر کا آغاز ہوچکا تھا یقین مانو تم سے زیادہ میں اس بات کی خوشی محسوس کر رہا تھا ۔۔۔۔ نہ جانے پھر کیا ہوا میں شاید خواب کے چند لمحے بھول چکا ہوں شاید تم نے اس گلاب کو اپنے ہونٹوں سے لگایا تھا تمہارا پر سحر حسن، گلابی آنکھیں اور تڑپا دینے والی جوانی اسے چھوتے ہی اپنے جوبن پر آ چکی تھی۔ محض چند لمحوں میں ہی فتح کے یقین سے لبریز آنکھیں اچانک سے پھیکی پڑنے لگ گئیں ۔ ۔ کسی نے تم سے وہ گلاب چھین لیا تھا شاید اس بھیڑ میں موجود وہی ظالم وقت تھا جس کے پاس تم نے میرا دیا ہوا چنبیلی کا پھول حقارت سے پھینکا تھا۔ تم اب کے خالی ہاتھ کھڑی تھیں  اور اس ظالم وقت نے گلاب کی پتیوں کو مسل کر میرے قدموں میں ڈال دیا تھا۔میرے وجود میں کیا قیامت اتری تھی ۔۔۔۔میں تمہارے غرور کے ٹوٹنے کی آواز سن رہا تھا مکافات کا عمل بھی کیسا توڑ دینے والا ہوتا ہے لوگوں کی بھیڑ یک دم سے چھٹ گئی تھی ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تمہارا حسن اور جوانی زنگ آلود ہونا شروع ہوگئے تھے میں اپنے خلوص کی چاشنی تم پر ڈال رہا تھا کہ شاید کسی طرح تمہیں بچایا جا سکے مگر بہت دیر ہو چکی تھی اور تم اس تباہ کن تاریکی میں غرق ہو چکی تھیں۔ اچانک میری آنکھ کھل گئی میری آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں۔ ۔۔ نجانے یہ آنسوتمہیں کھو دینے کے غم کے تھے یا مکافات عمل کی خوشی کے بس اسی سوال کا جواب جاننے کے لیے تمہیں خط لکھا ہے تمہارے جواب کا منتظر ایک مسافر ۔۔!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply