کرد فلم “کوبانی” Kobane/منصور ندیم

یہ فلم انسانی و ماحولیاتی، خواتین کی آزادی، مذہب کے نام پر خون بہانے، تسلط قائم کرنے، اچھائی اور برائی کے درمیان کشمکش کی مہاکاوی کہانی ہے، جو زندگی و موت کے بیچ سفر کرتی ہے، انسانیت اور حیوانیت کی کہانی، ایمان اور خوف، دوستی اور خیانت دکھاتی یہ فلم انسانی احساسات و جذبات کا ایک نہ ختم ہونے والا تاثر دکھاتی ہے، جس میں بقا کی جنگ، قوم، ملک، سرحد، فخر، محبت اور امید کے لئے لڑائی کا جذبہ نظر آتا ہے، جو لوگ جنگوں کی فلمیں پسند کرتے ہیں انہیں یہ فلم بہت پسند آئے گی، مذہب کے نام پر جنم لینے والے ایک سیاہ طوفانی گروہ (آئی ایس آئی ایس) جس نے بلاد الشام و عراق تک ایسا مکروہ و گھناونا کام کیا کہ اس صدی کا سب سے بڑا مقتل سجایا۔ یہ فلم کوبانی اسی گروہ کے مقابل ایک مزاحمت کا نام ہے، جس میں آپ کو عراقی و شامی سر زمین کے صحراؤں میں ہر طرف پھیلا خون نظر آئے گا، یہ شمالی شامی ضلع عین العرب کے شہر کوبانی میں YPG کے جنگجوؤں کی مزاحمت کی ایک حقیقی کہانی ہے، جو شامی ترکی کی سرحد پر واقع ایک سرحدی شہر ہے۔ یہ کرد اکثریتی قصبہ ہے اور وہ د-اعش کے جنگجوؤں سے لڑ رہے تھے جو شہر پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔

یہ شاندار شامی جنگی فلم “کوبانی” جو سنہء 2022 جو ریلیز ہوئی، جس کی ہدایت کاری اوزلم یاسر نے کی ہے اور اس میں دجل آرین، آور ایلی، ریگر آزاد، نجبیر ژانیم، ہیکران سیک سمیت دیگر اداکار ہیں۔ اس فلم میں کرد زبان اور عربی اور کچھ ترکی زبان دکھائی گئی ہے، فلم “کوبانی” کی کاسٹ بنیادی طور پر YPG اور YPJ جنگجوؤں (اس خطے کی مقامی تنظیمیں) پر مشتمل ہے جنہوں نے شہر کی آزادی میں حصہ لیا۔ مثال کے طور پر، عوار علی، ایک اہم اداکاروں میں سے ایک جو لڑاکا گیلات کا کردار ادا کرتے ہیں، اور ساتھ ہی ابو لیلیٰ کی شمس الشمال بریگیڈ کے کچھ ارکان ہیں۔ ثانوی کرداروں میں کھانا پکانے والی مائیں، ملٹری ایمرجنسی میڈیسن کی ٹیمیں ہیں۔ فلم میں دیکھایا گیا ہے کہ آئی ایس آئی ایس کے پاس ٹینکوں اور میزائلوں کے ساتھ اعلیٰ افرادی قوت اور ہتھیار تھے اور کردوں کو ان کے ساتھ محل وقوع کا فائدہ تھا۔ کردوں کے لئے دفاع کرتے کرتے ان کے جنگجوؤں کے حوصلے پست کر رہا تھا، اس لیے گیلات نے بھاگنے کا سوچا اور آئی ایس آئی ایس کے مقامی ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا اور ساتھ ہی ایک ٹیم پیچھے سے داعش پر حملہ کرنے کے لیے پہاڑیوں پر گئی اور اس کے ساتھ ایک اور ٹیم ترکوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے لیے گئی تھی۔ جو ان کو بنیادی طور پر ڈبل کراس کرنے اور ان سے گولہ بارود حاصل کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔

اصلا یہ فلم 32 سالہ جنگجو زہرہ کی زندگی پر مبنی ہے۔ جب اس کی یونٹ کا کمانڈر (گیلات) بھاگتا ہے, تو وہ قیادت سنبھال لیتی ہے، بڑی کوششوں کے ساتھ، کرد دفاعی یونٹ YPJ/YPG د-اعش کی فوجی برتری کے خلاف کوبانی کے محاصرے کو توڑنے اور شہر کو آزاد کرانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ کوبانی دنیا بھر میں امید کی علامت بن گیا ہے۔ 135 دنوں تک عوام اور خواتین دفاعی یونٹس نے شہر کو آزاد کرانے کے لیے گلی گلی اور گھر گھر جدوجہد کی، 26 جنوری سنہء 2015 کو شہر کی آزادی کا اعلان کیا گیا تھا۔ اسے میری چند ایک پسندیدہ فلموں میں سے اسے گنا جاسکتا ہے، کیونکہ یہ حقیقت کے ساتھ ایک بہترین تاثرانی فلم ہے، اور یہ بلاشبہ بہترین جنگی فلم ہے جو میں نے کبھی دیکھی ہو، ہر ایک فریم کو دلکش انداز میں شوٹ کیا گیا ہے، ایسا لگتا تھا کہ ایک حقیقی شہری جنگ جاری ہے، جنگجوؤں کی شدت و جنوں کے طور پر اداکاروں نے اپنے کرداروں کے ساتھ مکمل انصاف کیا ہے۔ کیمرہ ورک اور سنیماٹوگرافی شاندار ہے، اس فلم کی ڈائریکٹر خاتون نے اس فلم کے ڈائریکٹر کے طور پر ایک شاندار کام کیا ہے۔ اس کی کاسٹ میں سے ہر ایک نے شاندار کردار ادا کیا ہے، اس کا ایک بڑا کریڈٹ ہدایت کار اوزلم یاسر اور اسکرین رائٹر میڈیا دوز کے لئے ہے کہ جنہوں نے فلم کی تیاری کے لیے سینکڑوں جنگ کے اصل مقامی لوگوں اور جنگجوؤں سے ملاقات کی، اسے شمالی شام کے شہروں کوبانی اور تبقا میں شوٹ کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد بھی شمالی اور مشرقی شام کے خود مختار علاقوں پر ترکی کے حملوں کی وجہ سے فلم بندی میں تاخیر ہوئی۔ اس لئے یہ جنگ کے سات برس بعد مکمل ہوکر سامنے آسکی۔ حقیقتا اس جنگ میں مرد جنگجوؤں نے بھی خوب مقابلہ کیا ہے اور بہت سے اپنی جانیں دے چکے ہیں۔ مگر بنیادی طور پر اور خصوصا یہ فلم خواتین کی مزاحمت سے متعلق ہے۔

نوٹ:
1- سنہء 2014 و سنہء 2015 دا-عش نامی تنظیم نے قریب قریب اس شہر کے گرد و نواح کا کنٹرول حاصل کرلیا تھا، داع-عش نے یہاں لاکھوں لوگوں کو ہجرت پر مجبور کردیا تھا، ہزاروں عورتوں اور بچوں کو قتل کیا خواتین کی عصمت دری کی، مزید ظلم یہ کہ ترکوں نے بھی حقیقتا کردوں کے ساتھ کوئی حقیقی تعاون نہیں کیا تھا بلکہ سرحدیں بھی جان بچا کر آنے والوں کے لیے نہیں کھولیں تھیں، بعد میں امریکہ کے دباؤ پر اور خود ترکوں کو جب دا-عش سے خطرہ محسوس ہوا تب انہوں نے اس جنگ میں ان کا ساتھ دیا تھا۔

2- یاد ہوگا 2 ستمبر سنہء 2015 میں پوری دنیا میں سوشل ٹرینڈ بننے والے ایک دو سالہ بچہ ایلن کردی، جو یورپ کی طرف سمندر میں ہجرت کرتے وقت بحیرہ روم میں ڈوبنے کے بعد عالمی سرخیایوں میں آیا تھا۔ وہ اسی علاقے سے تعلق رکھتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

3- اب جو لوگ پوچھیں گے کہ یہ فلم کیسے دیکھی جاسکتی ہے، یہ تو آپ کی مرضی ہے کہ صوفے پر بیٹھ کر دیکھیں یا کارپٹ پر لیٹ کر دیکھیں، ویسے یہ یو ٹیوب پر انگریزی سب ٹائٹل کے ساتھ بآسانی مل جائے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply