ایک تصویر ایک کہانی۔۔۔ شفیق زادہ / دوسری تصویر کہانی

ایئر بس اے 380  ’’گیم چینجر سے  گیم اوور   تک”

یورپی طیارہ سازائیر بس انڈسٹری ( ائیر بس  ایس ای  )  نے بالاخر اس فیصلے کا اعلان کر ہی ڈالا جس کے انتظار نے  پچھلے   کئی ہفتوں سے ہوابازی  کی صنعت کو  سانس روکے رکھنے پر   مجبور کیا ہواتھایعنی کہ دنیا کے سب سے بڑے مسافر بردار طیارے  ایئر بس  اے   380 کی پیداوار پر مکمل روک لگا دی جائے گی۔    کہتے ہیں کہ  کنکورڈ کی طرح ائیر بس اے 380 جسے عرف عام میں سپر جمبو بھی کہا جاتا ہے، یورپی ہوابازی کی صنعت کی شان اور پہچان ہے۔ دنیا  کی مشہور  ائیر لائنز  نے اسے اپنا  فلیگ شپ   طیارہ  گردانا  تھا ۔ ائیر بس کے اعلان کے مطابق سن 2021 کے بعد یہ دیو ہیکل طیارے مزید نہیں بنائیں جائیں گے ۔ اس اعلان نے جہاں یورپین حلقوں میں مایوسی پھیلائی ادھر امریکن طیارہ ساز کمپنی بوئنگ نے اطمینان کا سانس لیا  ۔ بوئنگ اور ائیر بس کے درمیان طیارہ سازی  کے میدان میں   رقابت و مسابقت کوئی ڈھکی چھپی نہیں  ہے اور  پھر بوئنگ  747 کی گرتی ہوئی مانگ کے بعد کم وبیش اسی سائز کے کسی طیارے کی پراڈکشن بوئنگ کے لیے ایک کاروباری سبکی کا سبب بنی ہوئی تھی۔

ائیر بس کے اس فیصلے کے پیچھے بہت مضبوط وجوہات ہیں جس میں بدقسمتی سے  بد قسمتی   سب سے  آگے ہے ۔ جدید  ہوابازی کے میدان میں داخل ہونے والے اس  خوبصورت و جدید ترین طیارے کے بارے میں ماہرین کی رائے رہی ہے کہ یہ مناسب وقت سے دس سال تاخیر سے متعارف ہوا ہے ۔  جدھر بوئنگ کے پاس چھوٹے، درمیانے ، طویل اور طویل ترین سفر کے لیے ہر سائز کے جہاز بیچنے کے لیے موجود تھے ادھر ہی  ائیر بس ایک قوی ہیکل اور عظیم الشان  قوی الجثہ یعنی  وائیڈ باڈی ائیر کرافٹ سے محروم رہا جو اس کی فیملی کو ویسے ہی مکمل کر ے جس طرح کہ  بوئنگ 747 المعروف جمبو جیٹ نے  بوئنگ کمرشل ایرلائنر کی سیریز کو  نہ صرف مکمل کیا  بلکہ  ایک کماؤ پوت کے طور پر سامنے آیا۔  25 بلین ڈالر کے خطیر سرمائے کے  ریسرچ و پروڈکشن  کے بجٹ کے بعد ائیربس کو امید تھی کہ   وہ  1200 کی تعداد میں یہ جہاز بیچنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ مگر سخت عالمی معاشی کساد بازاری اور کاروباری مسابقت کی وجہ یہ ممکن نہ ہوسکا تو  ا ئیر بس نے  اپنی توقع  750 یونٹ کی فروختگی تک گرا دی، مگر بسا آرزو کہ خاک شدہ ، بات نہ بنی ۔ اور ائیر بس کا یہ ارمان ایک بھیانک خواب بن گیا ، اور ان طیاروں کی فروخت بہ مشکل تقریباً  250 تک ہی  پہنچ سکی ۔ ابتدائی طور پر یہ اندازہ لگایا گیا تھا 106 طیاروں کی فروخت کے ساتھ اس کی پیداواری قیمت وصول  ہو جائے گی  اور صرف ایمریٹس  ائیرلائنز کے آرڈر سے ہی ایسا ممکن ہو بھی گیا  تھا ، مگر پھر بھی یہ طیارہ کثرت ِ فروخت    کے توقعات پورے نہ کرسکا۔  مینیجمنٹ کا اصول ہے  کہ دنیا میں سب  سےمستقل چیز  ’ تبدیلی ‘ ہے، جواسے آتے نہ دیکھ سکے اور اگر دیکھ  سکے پر اپنا نہ سکے وہ   نوکیا  اور بلیک بیری کی طرح  تاریخ میں دفن ہو جاتا ہے۔

اے 380 کی پیداواری بندش کی بنیادی وجہ ؟

اے 380 پروگرام  اپنے ابتدا سے ہی مشکلات کا شکار رہا۔  ٹیکنالوجی ، میٹیریل  اور آٹو میشن  کے اس شاہکار کو قدم قدم پر رکاوٹوں ، مسائل اور ان کے  دلچسپ  حل  کا سامنا  کرنا پڑا۔ مثال کے طور پر اس کے دیوہیکل  اجسام کو اسمبلی  لائن تک پہنچانے کے لیے ائیر بس کو بیلوگا  وہیل سے مماثل خصوصی جہاز تیار کرنا پڑا۔ ان  بڑے بڑے  جنّاتی حصوں  کو شہروں سے گزار کر  اسمبلی پلانٹ تک لے جانے  کے لیے لاجسٹک اینڈ ٹرانسپورٹیشن  کی نئی ڈاکٹرائن  تخلیق  کرنے پڑی تاک کہ تنگ  سڑکوں سے گزار کر اسے فرانس  کے شہر  طولوز کے نواح  میں  اس قصبے تک پہنچا یا   جائے جہاں اس کی فائنل اسمبلی ہو سکے ۔  ابتداء  میں  فرانس اور جرمنی کی آپسی چپقلش اور  کنسورشیم  کی ساجھے کی ہنڈیا  کی یورپین  یونین  کے چوراہے پر  دھماچوکڑی ،  پھر الیکٹریکل سسٹم  کے ڈیزائن  کے مسائل جس  کی وجہ سے دو سال کی تاخیر  ہوئی نتیجتاً   ائیر بس کو  تقریباً 10 بلین  ڈالر کی اضافی لاگت کا  سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد بڑی بڑی ائیر لائنوں کی جانب سے سردمہری پر  مبنی رویہ اور خریدنے میں عدم دلچسپی  کی وجہ سے بھی ائیر بس انڈسڑی کو کافی دھچکہ لگا۔  دلچسپ   امر یہ کہ امریکہ کی کسی بھی ائیر لائن   نے اے 380 کا آرڈر نہیں دیا۔  ایسے میں جب ائیر بس  شدید مشکلات کا شکار تھی تو ایمیریٹس ائرلائن نے 100 سے زائد  اے 380 جہازوں کا آرڈر دیا  اور مسلسل ائیربس اے 380 پروگرام کو آکسیجن ماسک لگائے رکھا۔ اس سپورٹ نے جدھر  اے 380 پروگرام کو زندہ رکھا اور  یورپ  میں  ہزاروں لوگوں  کوروزگار ملا۔وہیں  ایمریٹس نے اپنی مضبوط کسمٹر اورینڈیڈ اور کسٹمر فوکسڈ مضبوط مارکٹنگ  اسٹراٹجی سے دنیا کو ہوائی  سفر کی ایک نئی جہت سے متعارف کروایا اور یہ طیارہ ایمریٹس کی وجہ سے  مسافروں کے لیے طویل سفر کے لیے اولین انتخاب ٹھہرا۔  سب سے سے پہلے  اے 380 اڑانے والے  سنگاپور ائیر لائن کے ساتھ ملیشیا، قطر، کوانٹاس، لفتھنسا، ائیر نپون، ایشیانا، ائیر فرانس،  برٹش  ایرویز سمیت 13 ائیر لائنز نے اسے  اپنے فلیٹ میں شامل کیا مگر جس طرح  ایمریٹس  نے ان جہازوں سے مسافروں کا دل جیتا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

446 ملین ڈالر قیمت کے اس جہاز کو  ہوابازی  کی دنیا سے وہ قدر وقیمت نہ مل سکی جس ­ کا یہ حقدار تھا۔ مگر اس میں بھی دنیا کی بے اعتنائی سے زیادہ ائیر بس کے   مستقبل  اور اس میں آنے والی تبدیلیوں کو پہلے سے دیکھنے اور پھر اپنی حکمت عملی کو طے  اور تبدیل کرنے میں ناکامی ہے۔

بیچنے والی ہر شے  ڈیمانڈ کے مطابق بنائی اور سپلائی کی جاتی ہے ۔ کل کا کامیاب ترین فون نوکیا 3310 اگر آج سونے کا ملمع  چڑھا کر بھی بیچا جائے تو کوئی مفت  بھی نہ لے گا ۔

ائیر بس نے اس جہاز کو جب بنانے کا فیصلہ کیا تھا تو ائیر لائن ’ ہب  اینڈ اسپوک ‘ کے ماڈل کو فالو کر رہی تھیں ۔ جس میں   بڑے بڑے شہروں سے مسافر وں کو بڑے بڑے  جہازوں میں بھر کر لایا جائے اور پھر اپنے ہب یعنی مرکز سے دوسروں شہروں تک چھوٹے چھوٹے جہازوں میں بھیجا جائے ۔  آج سے بیس سال پہلے ائیر لائن آپریشن میں یہ بہت کامیاب  ماڈل  تھا  ۔   جیسے  پی آئی  آے دنیا بھر  سے اپنے مسافر  کراچی لاتی  اور پھر  انہیں ملک کے دوسرے  شہروں میں  چھوٹے جہازوں سے بھیجا کرتی تھی ۔  توکراچی  اس کا ہب  اور باقی  اسپوک ، جیسے  سائیکل  کے پہیے  کا مرکز  اور اس سے جڑی تاریں ۔ جیسے جیسےاے 380 پروگرام آگے بڑھتا گیا  ، ائیر لائنز  نے  ’ ہب اینڈ اسپوک‘ کےطریقہ  سے چھٹکارا پانا شروع کردیا۔  بدلتے حالات اور مائل  بہ  گردنی زنی جیسے  کمپی ٹیشن  میں  ان کے لیے اب بڑے بڑے جہازوں کو بھرنا مشکل سے مشکل  ترہوتا جارہا تھا اور پھر چار انجنوں کی  فیول اور مینٹنینس کا خرچہ غریبی  میں  آٹا گیلا   جیسے  حالات کی وجہ  سے بہت بھاری پڑ رہے تھے ، لہٰذہ    جمبو جیٹ، اے تھری فورٹی، ڈی سی 10، ایم ڈی 11 جیسے تین اور چار انجن والے جہاز تیزی سے غائب ہونا شروع ہوئے۔ بوئنگ کا اپنا 747 کا جدید ماڈل مارکیٹ میں وہ  جگہ نہ بناسکا جو کہ اسی جہاز کے پرانے ماڈلز نے بنائی تھی۔  ایسے میں ائیر لائنز نے ہب  اینڈ اسپوک کو چھوڑ کر ’ پوائنٹ ٹو پوائنٹ‘ اسٹریٹجی پر فوکس کر نا شروع کر دیا  یعنی بجائے  بڑے جہازوں  میں مسافر بھر کر  انہیں ایک جگہ جمع کر کے آگے بھیجا جائے، کیوں نہ مسافر وں کو ان کے سفر کے مقام سے ہی براہ راست ان کی منزل تک پہنچا دیا جائے  اور وقت اور آپریشنل لاگت کی بچت کے ساتھ مسافروں کو سہولت بھی زیادہ فراہم ہوگی ۔  اس حکمت عملی میں اے 380 اور جمبو جیٹ جیسے  طیارے کار آمد  ثابت  نہیں ہوتے بلکہ  اے 330، اے 320 اور بوئنگ 737 ، 787 جیسے درمیانے سائز کے جہاز درکار ہوتے ہیں ۔  بس پھر کیا تھا ، جیسے  یہ  حکمت عملی  کامیاب ہوتی گئی ، ویسے ویسے  اے 380  کی ضرورت  کم ہوتے  ہوتے  صفر ہو گئی ۔ 2014 اور 2015 میں اے 380 کا ایک بھی آرڈر نہ ملا. ایسے  میں جہاں ائیربس انڈسٹڑی کو  اے 380 کی سست فروخت کا سامنا تھا وہیں  اس کے  اپنے چھوٹے اور درمیانے سائز  کے جہازوں کی تیزی سے بڑھتی طلب  کا اطمینان بھی ہے ۔ اے 380  پروگرام خود ائیر بس کو بوجھ محسوس ہونے لگا تھا، اردو سال پہلے سے  اس نے آہستہ آہستہ اس سے جان چھرانے کی خبریں  لیک  کرنا شروع   کر دیں۔

اے 380 کی پیداواری بندش کے اونٹ  پر آخری تنکا  خلیجی ائیرلائن کی جانب سے  آرڈر  کی منسوخی تھی ، جس کے اگلے روز ہی ائیر بس انڈسٹری نے  اے 380 کی مزید تیاری کی بندش کا اعلان کردیا۔  یوں2021 میں آخری طیارے کی ڈیلوری کے بعد   یہ پروگرام ختم ہو جائے گا مگر   پکچر ابھی باقی ہے یارو کے مصداق ، ہوائی مسافر   مزید  دس سال  تک  ان طیاروں میں  سفر کا لطف  لے سکیں گے ، لہٰذہ دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں ۔

ائیر  بس انڈسٹری کا کیا نقصان کیا فائدہ ؟

تکنیکی طور سے ائیر بس کو اس جہاز کی  پیداواری بندش سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا بلکہ فائدہ ہی ہوگا ۔ جن ائیرلائنز نے اپنے آرڈر منسوخ کیے ہیں ، انہوں نے بدلے میں درمیانے اور چھوٹے سائز کے جہازوں کے آرڈر دیے ہیں۔   تقریبا سبھی کسٹمرز نے   ادلہ بدلہ اور وٹہ سٹہ کر لیا ہے ۔اس کے علاوہ یورپین یونین بھی ائیر بس کو کچھ مالی معنفعت پہنچائے گا۔ سو اس طرح ائیر بس کو نہ صرف بھاگتے چور کی لنگوٹ بلکہ  سب کی بھابھی یعنی یورپی یونین سے بھی  جھپی پپی ملے گی ، اس طرح سے اس کے لیے یہ  وِن وِن سچویشن  ہے ۔

موجودہ  اے 380 آپریٹرز کے مسائل؟

اس وقت  جو ائیرلائنز اس جہاز کو آئندہ چند سال تک اُڑانے کا ارادہ رکھتی ہیں ، وہ ائیر بس سے  ان جہازوں کے پرزہ جات کی مسلسل فراہمی کی ضمانت کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہیں ۔ اس کے علاہ  جب یہ جہاز اپنی ڈیزائین  لائف پوری کر  لیں گے  تو ان کا کیا کیا جائے گا ؟  ہو سکتا ہے کہ  بڑے بڑے شہروں میں  آپ ان جہازوں  کے فیوزیلاج  ( مرکزی باڈی  ) میں  ڈھابے، کیفے  اور ٹھیے  کھلے دیکھیں۔    اور باقی رہے وہ ائیرپورٹس جنہوں نے کثیر سرمائے سے خود کو  اس جن کے بچّے کے لیے اپ گریڈ کیا تھا کہ  بہو کے پاؤں پڑیں گے تو سارے دلدّر دور ہوں جائیں گے ،  اب پریشان ہیں  دل کو روئیں یا پیٹیں  جگر کو۔

ہُما  شُما  کو سیکھنے  کو  کیاسبق ملا؟

اے 380 کی تیاری اور بندش میں جو سب سے اہم سبق  ہے وہ یہ کہ  کبھی بھی اپنی ساری امیدیں کسی ایک گاہک پر مرکوز نہ کی جائیں ( مائکل پورٹر  6 فورسز تھیوری) ۔ اس کے علاوہ  یہ کہ کوئی کاروبار تبھی کامیاب ہوتا ہے جب گاہک کو اس کی مانگ کے مطابق مال دیا جائے نہ کہ اسے وہ لینے پر مجبور کیا جائے جسے آپ اچھا سمجھتے ہیں یا  آپ کو اچھا بنانا آتا ہے ( ایڈورڈ ڈیمنگ  کوالٹی مینجمنٹ پرنسپل ) ۔ سوم یہ کہ  دنیا بہت تیزی سے  بدل رہی ہے ، اب  حکمت عملی پنج سالہ دس سالہ نہیں بلکہ پچیس ، پچاس اور سو سال آگے کی دینا نظر میں رکھ  کر بنائی جاتی ہے  ( پیٹر سینگے کی  لرننگ آرگنائزیشن )  ۔ اور سب سے اہم  اور بے وقوفی کی بات یہ کہ  دنیا   تیزی سے الیکٹرک آٹو وہیکلزکی جانب جار ہی ہے ، جو ممالک  معصومیت میں  اربوں ڈالر  تیل اور اس سے وابستہ صنعتوں میں سرمایہ لگوا رہے ہیں، وہ سر پر پاؤں رکھ کر روئیں گے  کیوں کہ ’ نو من تیل تو ہوگا پر رادھا بیٹری  سے ناچے گی ‘ ۔

ہمارے  اور آپ کے اپنے پیارے میاں نے ابھی  بھی واٹسپ میسج میں کہا ہے کہ  ’ آنے والے دنوں میں  ائیر بس اے  380 پروگرام  مینیجمنٹ  اسٹڈیز  میں مستقبل بینی  سے محروم   عظیم الشان  پروجیکٹ  کی کلاسک کیس اسٹڈی کے طور پر پڑھائی جائے گی  ۔

تھوڑے کو بہت سمجھیں ، سلامت رہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

باقی سب خیر ہے۔  

Facebook Comments

ShafiqZada
شفیق زاد ہ ایس احمد پیشے کے لحاظ سےکوالٹی پروفیشنل ہیں ۔ لڑکپن ہی سے ایوَی ایشن سے وابستہ ہیں لہٰذہ ہوابازی کی طرف ان کا میلان اچھنبے کی بات نہیں. . درس و تدریس سے بھی وابستگی ہے، جن سے سیکھتے ہیں انہیں سکھاتے بھی ہیں ۔ کوانٹیٹی سے زیادہ کوالٹی پر یقین رکھتے ہیں سوائے ڈالر کے معاملے میں، جس کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ ڈالر کی طمع صرف ایک ہی چیز ختم کر سکتی ہے ، اور وہ ہے " مزید ڈالر"۔جناب کو کتب بینی کا شوق ہے اور چیک بک کے ہر صفحے پر اپنا نام سب سے اوپر دیکھنے کے متمنّی رہتے ہیں. عرب امارات میں مقیم شفیق زادہ اپنی تحاریر سے بوجھل لمحوں کو لطیف کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ " ہم تماشا" ان کی پہلوٹھی کی کتاب ہے جس کے بارے میں یہ کہتے ہیں جس نے ہم تماشا نہیں پڑھی اسے مسکرانے کی خواہش نہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply