ناول “اللہ میاں کا کارخانہ” :ایک ردتشکیلی قرات/جاوید رسول

ہمارے عہد کی ادبی تنقید کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس پر جدیدیت کے سائے ابھی تک منڈلا رہے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ ہم کہیں نہ کہیں اس حقیقت کا شعور پیدا کرنے سے قاصر ہیں کہ ہر زمانہ نئی  حسیت،نئے اسلوب اور نئی  زبان کے ساتھ ظہور پذیر ہوتا ہے۔یہ فعل کتنا احمقانہ ہوگا کہ ہم آج کے شاعر سے صرف اس لیے بیزار ہوں کہ یہ شعر مبہم نہیں کہتا یا محسن خان کے ناول کو محض اس لیےسپاٹ، سطحی اور بازاری کہیں کیونکہ اس میں علامتی اسلوب کا استعمال نہیں ملتا۔جبکہ ہم نے کبھی اس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ کوئی متن مبہم بنتا کیسے ہے؟ کیا کسی بھی متن میں ابہام پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ علامتوں کا انبار لگا دیا جائے، یا یہ کہ محض پیچیدہ اور کھردری زبان کا استعمال کیا جائے؟ ظاہر ہے نہیں! کیونکہ اگر ابہام کا مقصد معنی کو پوشیدہ رکھنے کا کوئی  Paradoxical عمل ہے تو اس میں شک نہیں کہ ہر ادبی متن معنی کی کوئی  نہ کوئی  متضاد صورت پوشیدہ رکھتا ہے۔مثلاً “اللہ میاں کا کارخانہ” اپنی ظاہری ساخت میں عام قاری کے لیے محض ناسٹلجیا ہوسکتا ہے جس میں موجود احساسات عموماً مسرت بخش ہوتےہیں۔لیکن ایک سنجیدہ قاری کی قرات بالکل متضاد ہوگی وہ ناول میں پیش کیے گئے ماضی کو حال کے مقابلے میں جبریت سے تعبیر کرے گا، وہ بچوں کو دینی معلومات تک محدود رکھنا ان کی ذہنی اور نفسیاتی آزادی کے منافی سمجھے گا۔

ممکن ہے یہ مثال آپ کو بوجھل معلوم ہوئی  ہو، لہذا کسی آسان جملے کے ذریعے اسے دوبارہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں؛

آپ کو یاد ہوگا کہ ناول کا ہیرو جب ایک دکان پر پتنگ خریدنے جاتا ہے تو اپنی من پسند پتنگ مانگنے پر کلّو دکان دار اسے کہتا ہے ” اگر تم چاہو کہ تمہاری مرضی کی پتنگ مل جائے تو وہ اللہ میاں بھی بنا کر نہیں بھیجیں گے”۔عام قاری کے لیے یہ کوئی  معمولی سا جملہ ہوسکتا ہے جس میں ذرا سی شوخی کا احساس ممکن ہے اسے ہنسنے پر مجبور بھی کرے۔لیکن ایک سنجیدہ قاری اس جملے کو سرسری نظر سے ہرگز نہیں دیکھے گا بلکہ وہ رک کر اس میں پوشیدہ “بچے کی ذہنیت اور تربیت پر” کیے گئے اس طنز کو محسوس کرے گا جو بحیثیت کردار اس کی irony کو ظاہر کرتا ہے۔یہ دراصل قرات کا مسئلہ ہے اور ٹیری اگلٹن کے مطابق ” قرات،دیکھنے اور سننے کے عمل میں مسلسل فوکس کی تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔بعض اوقات ہم کسی جز پر توجہ کرتے ہیں اور پھر کُل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں” (1)۔گویا معلوم یہ ہوا کہ ابہام کے لیےزبان کا کھردرا ہونا کوئی  ضروری نہیں بلکہ ہر متن کے اندر کئی  متضاد متن پوشیدہ ہوتے ہیں جو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر مصنف کی منشائیت کی وجہ سے چھپ جاتے ہیں۔

اب ناول کی طرف آئیے؛

یہ اپنی متضاد صورت معنی میں اندھی تقلید یعنی Blind Faith اور رجعت پسندی کا رد بیانیہ Counternarrative ہےجو ناول کی ظاہری ساخت میں نظر آنے والے معنی کے مقابل میں بالکل متضاد ہے۔یہاں اس امر کے علمیاتی دلائل کے طور پر سب سے پہلے اسلامی لٹریچر میں جہاد سے متعلق آیات اور احادیث کی تاویلات پر غور کیجیے؛ مثلاً ایک جگہ انس بن مالک روایت کرتے ہیں محمد بن عبداللہ نے کہا ہے”عن أنس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «غَدْوَةٌ فِي سَبِيلِ الله، أَوْ رَوْحَةٌ: خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا»
اللہ کے راستے میں گزرنے والی ایک صبح یا ایک شام دنیا سے اور جو کچھ دنیا میں ہے سب سے بہتر ہے۔“
(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2792)
اب اس حدیث کی جو شرح بیان کی گئی  ہے اسے غور سے پڑھیے؛
“اس حدیث میں جہاد فی سبیل اللہ کی فضلیت کا بیان ہے؛ اگرچہ اس کی مدت بہت کم، یعنی ایک صبح یا ایک شام کے لیے ہی ہے۔ پھر اندازہ کیجیے کہ لمبا جہاد، جس میں دشمنوں کے سامنے ثابت قدم رہنا پڑتا ہے اور ان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے، اس کی کیا فضیلت ہو گی؟ ”سبیل اللہ“ سے در اصل کفار سے ہاتھ کے ذریعہ جہاد ہی مراد ہے۔ یہاں یہ جان لینا چاہیے کہ شرعی علم کا حصول جہاد فی سبیل اللہ کی ایک بہت بڑی قسم ہے۔ حق کو غالب کرنا اور زندیق و ملحد لوگوں اور مغربی عیسائی مبلغین کے دلائل کا رد کرنا، جو اسلام کے خلاف برسرپیکار رہتے ہیں اور اسے مٹانے کی ناپاک کوششیں کرتے ہیں” (Hadeeth Enc com)

غور کیجیے کہ “سبیل اللہ” سے حتمی طور پر ہاتھ کے ذریعہ جہاد مراد لیا گیا ہے جبکہ شرعی علم کے حصول کو اسی جہاد کی سب سے بڑی قسم گردانا گیا ہے۔یہاں یہ مثال پیش کرنے کی ضرورت اس لیے پڑی کہ ہم مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ ہم نے بعض آیات و احادیث کی غلط تاویلات نکال کر منافرت انگیز اور شدت پسندانہ ذہنیت کو جنم دیا ہے جسے آج کا عہد Blind Faith کہہ کے نکارتا ہے۔مثلاً؛ ناول میں جب میاں بیوی بچوں کی مروجہ تعلیم کو لے کر بحث کرتے ہیں تو ولید کی بیوی جس کا زور دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم کی ضرورت پر بھی ہوتا ہے اپنی بات منوانے کے لیے جب اس حدیث کا حوالہ دیتی ہے کہ”حضرت محمد نے فرمایا ہے کہ علم حاصل کرنے کے لیے چین بھی جانا پڑے تو چلے جاؤ”۔ تو اس پر ولید کا ردعمل دیکھیے کس قدر منفی اور غلط تاویلات کو ظاہر کرتا ہے، وہ کہتا ہے”حضرت محمد نے یہ تو نہیں فرمایا کہ ہندی اور انگریزی پڑھنے کے لیے چین چلے جاو، انہوں نے علم دین کی بات کی ہے”

گو کہ محدثین نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن یہاں اسے نقل کرنے سے مقصود غلط تاویلات اور ان کے نتائج کو واضح کرنا تھا۔ناول میں ہم دیکھتے ہیں کہ ولید کا تصور حیات قدیم روایات اور غلط تشریحات پر منحصر ہوتا ہے، وہ اسلام میں تشکیل نو کی صورتوں کی بغیر سوچے سمجھے تردید کرتا ہے، اس وجہ سے وہ پورا کنبہ ایک Orthodox Family میں ڈھل جاتا ہے۔ولید جس دن تبلیغ کے لیے گھر سے نکلتا ہے اس کی بیوی بیمار ہوتی ہے، اس کے جانے کے بعد اہل خانہ پر کیا گزرے گی اسے اس بات کی بھی کوئی  پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ وہ اس یقین پر جی رہا ہوتا ہے کہ اللہ خود اس کی ساری ضرورتیں پوری کرے گا۔لیکن حقیقت بالکل برعکس ہوتی ہے اور نتیجے کے طور پر ولید کا گھر سے نکلنا ناول کا climax ثابت ہوتا ہے۔یہیں سے ناول کے اندر ایک نئی  صورت حال جنم لیتی ہے جو ناول کے مرکزی کرداروں سے متصادم ہو کر ان کی حقیقی نفسیات کو سامنے لاتی ہے۔مثلاً برقعے سے متعلق ولید کی بیوی کا یہ جملہ کہ” شادی کے بعد یہ کمبخت بھی میرے لیے عذاب بن گیا” اپنے آپ میں ایک ہنگامہ خیز جملہ ہے جو اس عورت میں شادی کے بعد پیدا ہونے والے نفسیاتی کرب کو ظاہر کرتا ہے۔جملے میں شامل لفظ “بھی” قاری کو سوچنے اور شک کرنے پر مجبور کرتا ہے۔دنیا کی معروضی حقیوتوں سے ناآشنائی  کو فلاح اور کامیابی سمجھنے والے ولید کے بیوی بچوں کو جب پہلی مرتبہ باپ کی غیر موجودگی میں خارجی عوامل سے سابقہ پڑتا ہے تو ان کے زندہ رہنے یعنی Survival کے امکانات ختم ہونے کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔لیکن یہاں بنیادی سوال ولید کی رجعت پسند ذہنیت پر اٹھتا ہے جس نے اس کے بیوی بچوں کی سائیکی پر ایسے منفی اثرات مرتب کیے ہوتے ہیں کہ اس کے جانے کے بعد وہ خارجی دنیا میں بالکل غیر (The Other) نظر آتے ہیں۔گوکہ جبران میں بغاوت کی چنگاری ضرور ہوتی ہے جو کہیں نہ کہیں قاری کو اس میں کسی نئی  پیش رفت کا یقین  بھی دلاتی ہے، لیکن وہ محض جزوقتی تکلفات کا زائیدہ ثابت ہوتی ہے جو کوئی  پتنگ کے ہاتھ آجانے سے بجھ جاتی ہے۔ورنہ اپنی ماں کے جنازے کو دیکھ کر وہ اپنے باپ کو تو ضرور کوستا، جیسے اس کی ماں کوستی تھی۔لیکن اس کے بجائے وہ ایک پتنگ میں کھو جاتا ہے۔یہ irony ہے۔

بہرکیف! یہ مذکورہ ناول کے بیانیہ کی علمیات سے متعلق چند بنیادی معروضات تھے۔اب رخ ناول کے فن کی جانب کرتے ہیں۔

ناول کے پلاٹ میں Flash Back تکنیک اور کہیں کہیں پر Stream Of Conciousness کا بھی استعمال ہوا ہے۔لیکن بیانیہ چونکہ سادہ اسلوب میں لکھا گیا ہے اس لیے ہمارے ان ہم عصروں کو جو جادوئی  حقیقت نگاری یا علامتی اسلوب کے دلدادہ ہیں، یہ ناول ناپسند ہے۔ وہ اسے پریم چندی اسلوب کہہ کر ٹھٹھے بازی کرتے ہیں۔لیکن میں ان حضرات سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ان ہی دو صورتوں میں ہمارے عہد کے ناول کی قدر کا تعین ہوگا؟ کیا علامتیت آج بھی ہمارے ناول کے لیے معیار محض کی حیثیت رکھتی ہے؟ ہاں یہ سچ ہے کہ “سارے عظیم آرٹ کا راز اس کی سادگی نہیں” (2) لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہر بیانیہ پیچیدہ اسلوب کا ہی متقاضی ہو۔”اللہ میاں کا کارخانہ” عنوان کے لحاظ سے کہانی کے دوسرے رخ کو پیش کرنے میں کہاں کسی پیچیدہ اسلوب یا زبان کا متقاضی معلوم ہوتا ہے؟ کہاں اس بیانیہ کا سادہ اسلوب معنیاتی تشکیل یا ڈسکورس پیدا کرنے میں ماند پڑجاتا ہے؟

دراصل پریم چندی اسلوب پر تنقید کرنے والوں کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہمارے عہد کے تنقیدی ماڈل کو اردو ہیت پسندوں کی طرح متن میں موجود مواد Content سے بیر نہیں۔بلکہ اسلوب چاہے علامتی ہو یا غیرعلامتی، اس کا سروکار سامنے کے ہر معنی کو شک کی نگاہ سے دیکھ کر متضاد معانی تلاش کرنے سے ہے۔مابعد جدید تھیوری کی اہمیت جاننے کے لیے اتنا تو کافی ہے کہ یہ قدامت پسند کلچر کے متعصبانہ، شدت پسندانہ اور منفی رویوں کا انکشاف کرتی ہے۔اب ناول اللہ میاں کا کارخانہ دیکھیے، یہ تشریحات قرآن و احادیث میں صدیوں سے چلے آرہے شارحین کے اس غیر منطقی ایپروچ کو چیلنج کرتا ہے جو آج بھی ولید جیسے لوگوں کے لیے Blind Faith کا باعث بنتا ہے۔ایسی صورت میں یہ ناول مسلمانوں کے God Archtype یعنی تصور خدا پر بھی طنز کرتا ہے اس لیے کہ ہم میں سے بیشتر کا اجتماعی عقیدہ آج بھی جبران اور نصرت کے جیسا ہے کہ اللہ میاں ہی ہے جو کسی کو امیر اور کسی کو غریب بنادیتا ہے اور وہی پتنگ بنانے والا بھی ہے۔مذکورہ ناول میں اس عقیدے کو کاؤنٹر کرنے کی ایک فنی کوشش کی گئی  ہے جس میں مصنف کافی حد تک کامیاب بھی ہوا ہے۔ظاہر ہے اس متضاد صورت معنی میں ناول کا بیانیہ انسانی وجود کے تقدم پر زور دیتا ہے یعنی خدا پر ایمان لانے کے بعد انسان ارادہ اور عمل سے مستثنی نہیں ہوجاتا اور نہ خدا سے رشتہ قائم کرنے کے بعد وہ دوسروں کے تئیں سماجی ذمہ داریوں سے مبرا ہوجاتا ہے۔ولید اپنی کند ذہنیت، شدت پسندی اور اندھی تقلید کی وجہ سے خود کے علاوہ دوسروں کے لیے بھی ضرر رساں ثابت ہوتا ہے۔

گوکہ اس لحاظ سے ناول کا بیانیہ نئے کلامیے New Discources کو جنم دیتا ہے جن پر الگ سے ایک علمی مذاکرہ کی ضرورت ہے لیکن جہاں تک تعلق ناول کے فن کا ہے تو اس ضمن میں قاری کے لیے کئ ایک متضاد Paradoxical صورتیں بھی پیدا ہوئی  ہیں، جو اگرچہ ناول کے بیانیے پر اثرانداز تو نہیں ہوتیں تاہم قاری کا ذہن کہیں کہیں پر ٹھوکریں ضرور کھاتا ہے۔جیسے ناول کے مرکزی کردار جبران میں وقت کے ساتھ کوئ خاطر خواہ پیش رفت دیکھنے کو نہیں ملتی۔گوکہ اس کی نفسیات سے جزوقتی بغاوت کے عناصر ہمیشہ ظاہر ہوتے رہتے ہیں لیکن وہ صورت حال سے نمٹنے میں اور زندگی کو کوئی  مثبت سمت دینے میں اس کی کوئی  راہنمائی  نہیں کرپاتے۔ورنہ چاچی کے گھر سے نکالے جانے کے بعد قاری جبران سے محنت نہیں تو کم از کم ایک نئی  سوچ کی امید تو ضرور وابستہ کرتا ہے۔ کیونکہ یہاں پر اسے انتخاب عمل کی آزادی مل جاتی ہے۔ وہ پہلی مرتبہ ان تمام جکڑ بندیوں سے آزاد ہوجاتا ہے جو اسے اپنی مرضی کے مطابق کچھ کرگزرنے میں رکاوٹیں بنتی تھیں۔لیکن یہ ناول کا نہیں اور نہ ہی ناول نگار کے کردار کا مسئلہ ہے بلکہ یہ قاری کا مسئلہ ہے کہ وہ کردار کی سائیکی کا کس حد تک اور کیسے تجزیہ کرتا ہے۔کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ اصل میں اپنے آپ سے بےخبر رہا ہو اس لیے اپنے اندر شناخت قائم کرنے کا شعور کبھی پیدا ہی نہ کرسکا، یا یہ کہ ناول نگار نے اختصار کے پیش نظر اسی موقع پر اس کی موت کا تعین کرلیا ہو کیونکہ اس واقعہ کے فوراً بعد ہی ناول میں المیہ کے لیے ماحول سازی کی جبری کوشش کا آغاز ہوتا ہے۔واضح رہے یہ ایک ایسی Paradoxical Situation ہے جس پر سوچنے کا حق صرف قاری کو ہے۔

ناول کے امتیازات کی بات کریں تو اس کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس کا اسلوب ہمارے عہد کے ادبی تقاضوں کو ظاہر کرتا ہے۔اس ناول کی مقبولیت سے ہمیں اس بات کا تو اندازہ ہوا ہی ہوگا کہ اب اردو کے قاری کو چیستان گوئی  میں اتنی دلچسپی نہیں رہی،بلکہ فی الحال اسے ناول میں کہانی چاہیے،لیکن وہی کہانی جو پہلے سے موجود کسی کہانی کا دوسرا رخ ہو۔اس ناول کی یہی سب سے بنیادی خوبی ہے کہ اس کا بیانیہ کہانی کا دوسرا رخ سامنے لاتا ہے۔کنڈیرا کے چاہنے والوں نے صرف وجودی بحران کو ہی ناول کا خاصا سمجھ رکھا ہے بلکہ اس کی تقلید میں وہ فکشن لکھ بھی رہے ہیں۔میں اس تقلیدی عمل کے خلاف نہیں، لیکن ہاں جس طرح اسے فیشن بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں میں اس کے خلاف ہوں۔حالانکہ خود کنڈیرا کا کہنا ہے کہ ” ہر ناول نگار کی تحریروں میں ناول کی تاریخ کا ایک واضح تصور موجود ہوتا ہے”(3)۔ اس کا یہ کہنا ہمارے عہد کے نام نہاد فکشن نقادوں کی طرح محض کوئ سٹیٹمنٹ نہیں ہے بلکہ وہ مثال دے کر اپنے نکتے کی وضاحت بھی کرتا ہے۔جیسے وہ کہتا ہے کہ؛
” بالزاک کا ناول انسان کے تاریخ سے جڑے ہونے کے عمل کو سامنے لاتا ہے، فلابیئر کا ناول اس دنیا کو کھنگالتا ہے جو روز مرہ کی زندگی میں مستور رہتی تھی، ٹالسٹائ کا ناول اپنی توجہ اس مظہر پر مرکوز کرتا ہے جو انسانی رویوں اور فیصلوں میں غیر منطقی مداخلت کے عمل پر مشتمل ہے۔ناول وقت کا تجزیہ کرتا ہے جیسے پروست نے ناقابل گرفت ماضی اور جوائس نے گریز کرتے ہوئے حال کو بیان کیا تھا۔تھامس مان کے ساتھ ناول ان اساطیر کا تجزیہ کرتا ہے جو حال کے افعال کو اپنی گرفت میں رکھتی ہیں” (4).

Advertisements
julia rana solicitors

اب اس مقدمے میں بتائیے کہ کہاں کنڈیرا نے فقط وجودی فلسفے کو ہی ناول کی علمیات یا بیانیے کے لیے لازمی ٹھہرایا ہے۔بلکہ اس کے مطابق تو ہر ناول بہر حال انسانی وجود یا سائیکی کے ہی کسی نہ کسی پہلو کو سامنے لاتا ہے۔یعنی ہر ناول از خود انسانی وجود کو ظاہر کرتا ہے جس کے لیے کوئی  ضروری نہیں کہ ناول میں وجودی فلسفہ یا اصطلاحات کو شعوری طور پر ٹھونسا جائے۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہائڈیگر نے وجود برائے دنیا (Being-In-The World) کا جو فسلفہ پیش کیا ہے وہ دنیا کے ساتھ انسان کے جس رشتے کو تسلیم کرتا ہے، ہر ناول دراصل اسی تاریخی رشتے کو ظاہر کرتا ہے۔پھر یہ ناول نگار کی اپنی سمجھ اور تخلیقیت پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس رشتے میں انسانی وجود کے کون سے پہلو کو کس طرح سامنے لاتا ہے۔اب ذرا سوچیے کہ کنڈیرا نے وجود کے مختلف پہلوؤں کو سامنے لانے والے مختلف ناول نگاروں کا جو اختصاص بیان کیا ہے، کیا محسن خان اس اختصاصی عمل سے مبرا ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ محسن خان کا ناول قدامت پسند کلچر کی جس حقیقت کا انکشاف کرتا ہے وہ انسانی وجود کے ہی ایک اہم پہلو کا انکشاف یا اظہار ہے؟کیا کامیو کے نقطہء نظر سے ولید کی قدامت پسندی “فلسفیانہ خودکشی” (Philosophical Suicide )نہیں ہے؟ یا ہائڈیگر اور سارترے کے نزدیک یہ غیر معتبر وجود In Authentic Being ہونے کی دلیل نہیں ہے؟ پھر علمیات کو چھوڑیے ناول کے فن سے متعلق سوچیے، کیا فن اور پلاٹ کی مناسبت سے یہ اس ناول کا خاصہ نہیں کہ اس میں آسان اور مقامی محاورے کا استعمال کرداروں کی سائیکی کو قریب سے جاننے میں معاون ہوتا ہے، بجائے اس کے کہ خود ساختہ فلسفے اور بوجھل وجودی اصلاحات سے اسے مشتبہ بنا دیا جاتا؟ بہرحال! یہ قاری کا مسئلہ ہے کہ وہ معیار کا تعین کیسے کرتا ہے۔لیکن میرے خیال میں شاید ہی کوئی  قاری ہوگا جو اس بات سے انکار کرے کہ جو چیز اس ناول کو اپنے عہد کے اچھے ناولوں میں مقام عطا کرتی ہے وہ اس کا ردتشکیلی بیانیہ ہے۔
حواشی:
1- ٹیری اگلٹن، تھیوری کے بعد، ص 90-91
2-ایضاً، ص، 77
3- ناول کا فن، میلان کنڈیرا، مترجم: ارشد وحید
4- ایضاً ص۔12-13

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply