• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) نگر خاص جانا ۔ راکا پوشی کے جلوے دانیال شو ۔ محبتوں کے چند پھول کیپٹن بابر کے حضور/سلمیٰ اعوان(قسط20-الف)

میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) نگر خاص جانا ۔ راکا پوشی کے جلوے دانیال شو ۔ محبتوں کے چند پھول کیپٹن بابر کے حضور/سلمیٰ اعوان(قسط20-الف)

یہ نکہت و نور میں ڈوبی ہوئی ایک دل آویز سحر تھی۔ صبح صادق کا اجالا ابھی پھیلا ہی تھا۔ جب میں چھت پر چڑھ گئی تھی اور اس وقت کائناتی حسن کے عشق میں پورم پور غرق تھی۔ ہمارے نصیب میں شیشے جیسی چمکتی ایسی صبحیں بھلا کہاں تھیں؟ ہواؤں میں پھلوں اور پھولوں کی رسیلی باس گھلی ہوئی تھی۔ درختوں کی ہریالی اور طراوت دل کو سکون اور طمانیت بخشتی تھی۔ میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس ہریالی کو جذب کرنا چاہتی تھی کہ شاید آنکھوں کا گدلا پن دور ہو جائے۔ ناک اور منہ کھول کر ہواؤں کو اپنے اندر گھسیڑ رہی تھی کہ پھیپھڑوں میں جمی غلاظتیں خارج ہو جائیں۔
‘‘انسان بھی کیسی کمینی شے ہے۔ ہر جگہ اور ہر حالات میں وہ صرف اپنی ذات اور مادی فوائد کی گھمن گھیریوں میں ہی الجھا رہتا ہے۔
قہوے کی مسحور کن خوشبو میرے نتھنوں میں گھسی
‘‘اے کاش اس وقت مجھے چائے کا ایک کپ مل سکتا’’۔ میں نے طلب کے ہاتھوں مغلوب ہو کر آنکھیں بند کر لیں۔
غنچہ خانم شائد چائے بنا رہی تھی۔ چائے کی اس ذلیل لت نے مجھے بہت ندیدہ بنا دیا ہے۔ میری آنکھیں بلا وجہ ہی پرائے گھروں کے چولہوں کی تاکا جھانکی میں خوار ہوتی رہتی ہیں کہ کب ان پر دیگچی چڑھے؟ کب قہوہ بنے ؟ کب پیالہ میرے ہاتھ میں آئے؟
دنیا کی سیاحت میرا ایک ایسا خواب ہے جس کی تعبیر شاید کبھی حاصل نہ ہو۔ یوں یہ اور بات ہے کہ میں رک سیک اپنی پشت پر لٹکائے ترکی کے محلوں ‘غرناطہ کی گلیوں اور قرطبہ کے بازاروں میں گھومتی پھرتی رہتی ہوں۔ پوپھٹتی کسی خوبصورت سی صبح یا کسی ملگجی سی شام میں گلیوں میں چکر کاٹتے ہوئے میرے قدم رک جاتے ہیں کہ کسی گھر کے باورچی خانے کی جالی سے قہوے کی خوشبو نے مجھے بے بس کر دیا ہے اور میں بے اختیار تھڑی پر بیٹھ کر اپنا کشکول نیم کھلے دروازے سے اندر بڑھا دیتی ہوں کہ میں چائے یا کافی کے چند گھونٹ لئے بغیر بغیر آگے جاہی نہیں سکتی ہوں۔
میں نیچے آگئی۔ خنک ہواؤں نے میرے لوُں لوُں میں ٹھنڈک رچا دی تھی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی خوشگوار حرارت کا احساس ملا۔ میں نے بیڈ پر لیٹ کر کمبل سے اپنے آ پ کو ڈھانپ لیا۔ شفقت باتھ روم میں تھی۔ پانی کے شل شل گرنے کی آواز مجھے جانے کیوں بری لگ رہی تھی؟ جی چاہتا تھا ٹونٹی فوراً بند کردوں۔ شفقت نے باہر نکل کر مجھے خفگی سے دیکھا اور بولی۔
‘‘کمال ہے۔ اُٹھا دینا تھا۔ نماز ہی پڑھ لیتی’’۔
میں نے جواب نہیں دیا۔ میں جانتی ہوں وہ نیند کی دھنی ہے۔ لاکھ ٹکریں مارو۔ مجال ہے ‘‘ہوں ہاں ’’کے سوا کوئی جواب دے جائے۔
اکبرنے ناشتہ تیار ہونے اور جیپ آجانے کی اطاعات اکٹھی پہنچائیں۔
ناشتے سے فارغ ہوئے اور جیپ میں بیٹھے۔ خدا کا شکر تھا۔ غنچہ خانمہمارے ساتھ جانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
‘‘کیسے’’ میرے پوچھنے پر اس نے اپنا پورا دہانہ کھول دیا۔ آنکھوں کو معنی خیز انداز میں گھمایا۔
جواباً میں ہنس دی۔
سونا لٹاتی کرنوں والی اس البیلی صبح کو ہم ۲۵۵۵۰ فٹ بلند راکا پوشی چوٹی کے دامن میں پھیلے علاقے جو دریا کے بائیں کنارے پر چھنس گہ سے ہسپر گلیشیر تک اور دریا کے دائیں کنارے گوج بالا سے خضر آباد تک ہیں کی سیاحت کے لئے نکلے تھے۔
‘‘آیت الکرسی پڑھ کر پھونک لیں۔ خانم ہنسی تھی۔ بہت پر خطر راستے ہیں۔’’
‘‘ان کے لئے نئے نہیں’’۔
اکبر نے یہ کہتے ہوئے شاہراہ قراقرام پر گاڑی چوتھے گئیر میں ڈال دی۔
دریا کے ایک طرف نلت کی وادی ہے پار چھلت کا گاؤں ہے۔ کبھی چھلت کی وادی ہنزہ اور گلگت کے درمیان سرحدی چوکی کا کام دیتی تھی۔ چھلت سے گلگت کا فاصلہ ۲۶’ ۲۵ میل کا ہے۔ چھلت کے ساتھ چھپروٹ کا گاؤں ہے۔
اکبر کو یہاں کچھ کام تھا۔ یہ گاؤں پولو کے بہترین کھلاڑیوں کے لئے بہت شہرت رکھتا ہے۔ وزیر سرورخان‘ غلام عباس ‘داؤد خاں اور درویش جیسے مایہ ناز کھلاڑی اسی گاؤں کے ہیں۔
محکمہ زراعت کی کوششوں نے رہن سہن میں نمایاں تبدیلیاں پید اکی ہیں۔ شاہراہ قراقرم کے دائیں بائیں پھلوں کے باغات ہیں۔ مدرسے اور ڈسپنسریاں کام کر رہی ہیں۔
خضر آباد کی وادی حسن و رعنائی کے گہنوں سے لدی پھندی دامن دل کو بار بار کھینچتی تھی۔
شاہراہ قراقرم کے داہنے ہاتھ وہ معلق پل ہے جسے پار کرنے پر نگر خاص کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ گلگت سے ۷۵ میل کے فاصلے پر ہے۔
راکا پوشی کی برف پوش چوٹی پر دھوپ کی تپش دھوئیں کے بادل اُڑا رہی تھی۔ ان بادلوں کو دیکھتے دیکھتے میرے ذہن جانے کیوں بھٹکنے لگا تھا؟
جانے کتنے انقلاب اس راکا پوشی نے دیکھے ہونگے؟ عروج و زوال کی کتنی داستانیں اس کے دامنوں میں محفوظ ہونگی؟ جانے یہ کب سے یونہی کھڑی دنیا کو اپنے پیچھے پاگل کئے ہوئے ہے؟ اور خود اس کا اپنا وجود بدلتے وقت کے ساتھ کتنا بدلا ہو گا؟
جیپ کی رفتار خاصی تیز تھی۔ چاروں طرف سربفلک پہاڑوں کا احاطہ تھا۔
‘‘یہاں دھوپ کم نکلتی ہے۔ اکبر بتا رہا تھا۔ سورج کا رخ نہ ہونے کی وجہ سے سردی کی شدت زیادہ ہے۔ نگر ۱۴۰۰ مربع میل کے رقبے میں پھیلی ہوئی وادی ہے۔ جہاں لوگوں کی اکثریت شیعہ مسلک سے متعلق ہے۔ سیدھے سادھے مخلص اور مہمان نواز لوگ جو نہ شراب پیتے ہیں اور نہ کشید کرتے ہیں جو سادہ زندگی بسر کرتے ہیں مگر اپنے مذہبی تہوار محرم ‘عیدین اور نو روز بڑی شان و شوکت اور دھوم دھام سے مناتے ہیں۔
محرم کی عزاداری کے لئیے بلتستان سے ذاکرین اورعلماء آتے ہیں۔ امام بارگاہوں میں نوحہ خوانیاں ‘سینہ کوبیاں اور زنجیر زنی بھی کی جاتی ہے۔ جلوس ‘علم بڑی شان و شوکت سے نکالے جاتے ہیں۔ چہلم امام تک سوگ میں رہتے ہیں۔ نو روز کی عید بھی تزک و احتشام کے ساتھ منائی جاتی ہیں۔ آفتاب اپنے بارہ برجوں سے گزر کر جس گھڑی پھر پہلے برج حمل میں داخل ہوتا ہے۔ اس وقت وظائف پڑھے اور تعویزات لکھے جاتے ہیں۔ مرغ ذبح کر کے مٹھائیاں اور پھل تقسیم ہوتے ہیں۔
یہاں بہت پس ماندگی ہے نگر ہنزہ کی نسبت تعلیمی اور معاشی لحاظ سے بہت پیچھے ہے۔ اکبر کسی قدر افسردگی سے بولا۔
وادی بڈہ لس میں اکبر ہمیں اس گرم چشمے پر لے گیا جس کی شہرت اندرون ملک کم اور بیرون ملک زیادہ ہے۔ جلدی بیماریوں اور جوڑوں کے درد کے لئے یہ پانی اکسیر کا درجہ رکھتا ہے۔ قدرت نے جانے کون سی معدنیات کا اس میں رچاؤ کر دیا ہے کہ زندگی سے مایوس لوگ یہاں آتے ہیں اور شفایاب ہو کر جاتے ہیں۔
اس گرم چشمے کی کراماتی کہانیوں میں سے جس کہانی نے مجھے بہت متاثر کیا۔ وہ اس انگریز کی تھی جو چھ فٹی قامت پر نوکیلے نقش و نگار کے ساتھ مشرقی کلچر سے خصوصی دلچسپی رکھتا تھا۔ کپتان تھا اور جالندھر چھاؤنی میں تعینات تھا۔ شادی کر کے نئی نویلی دلہن کو انگلینڈ سے لایا تھا۔ اس کے یہ دن مرادوں کے تھے جس کے ہر ہر لمحے پر اُسے جنت کا گمان ہوتا۔ یہ جنت جہنم میں بدل گئی۔ جس دن اس کے جسم پر پھنسیاں نمودار ہوئیں۔ خارش شروع ہوئی اور کھال اترنے لگی۔ وہ ڈاکٹروں کے پاس بھاگا ۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ اس کی وہ جان جگر جو ساتھ جینے اور ساتھ مرنے کی قسمیں کھاتی تھی۔ انگلینڈ بھاگ گئی اسے ڈر تھا کہ کہیں یہ چھوت کی بیماری اسے نہ چمٹ جائے۔ اپنے کسی سجن بیلی سے اس نے تاسف بھرے لہجے میں کہا
‘‘یار یہ یورپی عورت تو بڑی تھڑولی ‘بے مہر اور انسانیت سے عاری ہے۔ دیکھو تو کیسے چھوڑ گئی ہے مجھے؟’’
وہ تھک گیا تھا۔ پھر کسی نے اسے بڈہ لس کا پتہ بتایا۔ وہ یہاں پہنچا۔ ہفتوں یہاں رہا۔ صحت یاب ہوا۔ اس کی سفارشات پر یہاں آنے والوں کے لئے ایک ریسٹ ہاؤس تعمیر ہوا۔
بعد ازاں اس انگریز نے گجرات کاٹھیاوار کی ایک گجراتی عورت سے شادی کی اور اسے لے کر انگلینڈ چلا گیا۔
چشمے کے قریب پتھروں پر بیٹھی بھاپ کے مرغولوں کو اوپر فضاؤں کی طرف پرواز کرتے ہوئے دیکھ کر میں نے بے اختیاراپنے آپ سے کہا تھا۔
‘‘کسی کتاب ‘کتابچے ‘پی ٹی ڈی سی کے کسی پمفلٹ میں اس چشمے سے متعلق کوئی بات نہیں لکھی گئی۔ کاش اگر مجھے ذرا سا بھی علم ہو جاتا تو میں اپنی بیٹی کو ساتھ لے آتی۔ اس کے صحت افزا پانی میں اسے نہلاتی۔ اس کی خارش زدہ گردن جو آئے دن زخموں سے لہولہان رہتی ہے۔ شاید ٹھیک ہی ہو جاتی۔
میں نے پانی میں ہاتھ ڈالا۔ پر فوراً نکال لیا۔ پانی میری برداشت سے زیادہ گرم تھا۔
غنچہکا بڑا بیٹا پانی دیکھ کر نہال ہوا جاتا تھا۔ چاہتا تھا کہ کسی طرح آگے تک چلا جائے۔ ماں نے ڈانٹ ڈپٹ سے روک رکھا تھا۔ اکبر نے کہا بھی کہ نہلا دو اس کے لئے اچھا ہے۔
پروہ نہیں مانی۔ پانی گرم تھا۔ ہوائیں ٹھنڈی تھیں اور بچہ پہلے ہی نزلے زکام سے سُوں سُوں کرتا تھا۔
میں نے اپنی زنبیل میں ہاتھ ڈال کر پڑیوں میں بند چینی ‘ پتی ‘دودھ نکالا۔ چھوٹی تھرماس نکالی۔ خانم نے میرے ارادے بھانپتے ہوئے چلا کر کہا۔ ‘‘ارے ارے کیا کرنے لگی ہیں۔ پانی بے شک بھاپیں چھوڑ رہا ہے۔ مگر سلفر جیسی معدنیات سے بھرا ہوا ہے۔ یہ تو بس جلدی امراض کیلئے ہی اکیسر ہے۔
اکبر ریسٹ ہاؤس کی طرف گیا ہوا تھا۔ وہ جب آیا تو اس نے بیوی کی بات کی تائید کی۔
یہ وادی خالص آفتابی سلاجیت کے لئے بھی بہت مشہور ہے۔
ریسٹ ہاؤس سے ہم نے چائے بنوائی اور پی۔ اس خوبصورت ماحول میں چائے کے ایک کپ نے کیسا لطف دیا۔ یہ شاید الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔
ولی آباد میرے لئے بہت بابرکت وادی ثابت ہوئی۔ مقامی کلچر کے جو مختلف رنگ دیکھنے کے لئے میں یہاں وہاں بھاگی پھرتی تھی۔ اس کی ایک جھلک یہاں دیکھنے کو ملی۔
وادی میں کوہ پیماؤں کی ایک ٹیم آئی تھی۔ جاپان’ اٹلی’ سویڈن’ یوگو سلاویہ’ اسپین اور امریکہ کے مہم جوؤں کا یہ ٹولہ دنیا کے ستائیسویں بڑے پہاڑ راکا پوشی کو سر کرنے کے لئے یہاں پہنچا ہوا تھا۔
‘‘لیجئے آپ کے من کی مراد پوری ہو گئی ہے۔’’
اکبر جو گاڑی روکے کسی مقامی مرد سے باتیں کر رہا تھا۔ ہنستے ہوئے میری طرف آیا۔
‘‘ایک خوبصورت شو آپ کا منتظر ہے۔’’
میرے اندر جیسے پھلجھڑیاں سی چھوٹنے لگیں۔
اکبر گاڑی ڈرائیو کرتا ہوا پولو گراؤنڈ کے پاس کھلُی جگہ آگیا۔
گاؤں کے تمام لوگ وہاں جمع تھے۔ سامنے سٹیج بنی ہوئی تھی۔ مہمانوں کے لئے اگلی قطار میں کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ کچھ لوگ دریوں پر بیٹھے تھے اور اکثریت پتھریلی زمین پر پھسکڑا مارے بیٹھی تھی۔
اسسٹنٹ کمشنر جناب داؤد صاحب بھی دورے پر اس طرف آئے ہوئے تھے۔ داؤد صاحب سے میری اچھی علیک سلیک ہے۔ شگر میں میرا قیام ان کے پاس تھا۔
‘‘تو آپ یہاں بھی پہنچ گئی ہیں’’۔
‘‘یہاں تو آنا چاہیے تھا۔ آپ کی جائے پیدائش ہے یہ’’۔
داؤد صاحب خوشدلی سے ہنسے اور ہمیں اکبر کے ساتھ لے کر آگے بڑھے۔
دائیں ہاتھ سازندے اپنے اپنے سازوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ غنچہجیپ میں تھی۔ میں اور شفقت اگلی سیٹوں پر بیٹھ گئیں۔
یہ تقریب دانیال کے سلسلے میں تھی۔
دانیال شمال علاقہ جات کا ایک ایسا کردار ہے۔ جو جب جنوں کے عالم میں ہو تو پریاں اور جن اس کے پاس آتے ہیں۔ مستقبل کے بارے میں واقعات’ پر اسرار کہانیاں اور مختلف النوع چیزوں کی نشان وہی کرتے ہیں۔
‘‘اللہ انسان کس قدر سیماب فطرت ہے۔ اپنے کل کو جاننے کے لئے کیا کیا ڈھونگ رچاتا پھرتا ہے؟ دور افتادہ پہاڑوں میں رہتا ہو یا ماڈرن بستیوں کا مکین ہو۔ کل کے بارے میں جاننے کیلئے مرا جاتا ہے۔ کبھی رم کے ذریعے’ کبھی جوتش’ نجوم’ علم ہندسہ’ سرودھا (سروں کا علم جس سے قسمت کا حال معلوم کیا جاتا ہے) کے واسطے سے قسمت کا حال جاننا چاہتا ہے۔
ایک بار میں اپنی ایک دوست کے گھر گئی۔ سارے فیملی ممبر پورچ میں مٹی کے ڈھیر کے سامنے بیٹھے تھے۔ گندی مندی سی جینز اور ٹی شرٹ پہنے ایک ہیپی ٹائپ نوجوان عامل کا کردار ادا کر رہا تھا۔ میری دوست کی والدہ آنکھیں بند کئے مٹی کے ڈھیر پر انگلی سے لکیریں لگا رہی تھیں۔ ان لکیروں سے وہ قسمت کا حال بتاتا تھا۔ سارے گھر والے دم سادھے بیٹھے تھے۔
نوجوان نے کچھ سال یونان میں گزارے تھے۔ جہاں اس نے جیو مینسی کا علم سیکھا تھا۔ اور اب اسی علم کو بروئے کار لا کر وہ لوگوں کو کل کے بارے میں بتاتا تھا۔
پتہ نہیں یہ سچ تھا یا جھوٹ
اور اب جب ہم ایک ایسا ہی تماشہ دیکھنے والے تھے میں نے اکبر سے پوچھا۔
کہیں یہ دانیال حضرت دانیال علیہ السلام بننے کی کوشش تو نہیں کرتے جنہیں علم رمل عطا ہوا تھا جو بہرحال ایک مسلہ امر ہے۔
‘‘اس کے بارے میں تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔’’
سٹیج سے قدرے فاصلے پر پتھر کے چولہے پر ایک برتن میں چیلی کے پتے گھی میں تلے جا رہے تھے۔
‘‘زمانہ بدلتا جا رہا ہے۔ اب ان باتوں کی وہ اہمیت نہیں رہی جو کبھی تھی۔ ماضی میں حکمران اپنے مستقبل کے بارے میں ہمیشہ دانیال اور سازندوں کو بلایا کرتے تھے’’۔ داؤد صاحب بتا رہے تھے۔
چیلی کے تلے ہوئے پتوں پر انگارے ڈال دئیے گئے۔ فضا میں عجیب سی باس کا دھواں پھیل گیا۔
تبھی ایک سمت سے ایک لمبا اونچا کھلے ہاتھ پاؤں والا شخص جھومتا گاتا آیا۔ وہ جیسے مدہوش ساتھا۔ اسی مدہوشی میں وہ بازوؤں کو اُوپر نیچے جھولے جُھلاتا ھوئیں کے غبار میں چلا گیا۔ کبھی کبھی وہ اپنے اردگرد لپٹی ہوئی چادر میں دھوئیں کو گھیر گھیر کر اپنے جسم میں داخل کرنے کی کوشش کرتا۔ سازندوں نے بڑی تیز دھن بجانی شروع کی۔ ساتھ ہی تماش بینوں نے سیٹیوں اور تالیوں سے فضا میں ہلچل مچا دی۔
پھر ایک عجیب بات ہوئی۔ خوفناک اور ڈراؤنی سی۔ ہمارے وہم و گمان سے بھی بالا۔
دانیال تیزی سے چلتا ہوا ہماری طرف آیا۔ اس نے اپنا داہنا پاؤں زور سے زمین پر مارا۔ شفقت کے عین سامنے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جنگلی بھینسے کی طرح ڈکرایا۔
بوہ بوہ (جاؤ جاؤ) کہتے کہتے یوں دھاڑا کہ سارے مجمع کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ سازندوں کے ساز خاموش ہو گئے۔ مجمع میں کسی آواز کی بھنبھناہٹ تک نہ تھی۔ وہ انگشت شہادت سے شفقت کی طرف اشارے کر رہا تھا۔ ہمارے سانس سینے میں کہیں رک گئے تھے۔ چہروں کے رنگ فق اور سارا سر یر جیسے کانپتا تھا۔
‘‘اوہو’’
اس شو کے منتظمین میں سے دو تین بھاگتے ہوئے اکبر کے پاس آئے۔ شنا زبان میں اس سے چند باتیں کیں۔ اکبر ہنس پڑا ۔شفقت کو بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور بولا۔
‘‘گھبرائیے مت دراصل مجھے بھی خیال نہیں رہا۔ دانیال کی محفل میں کوئی فرد سرخ کپڑے نہیں پہن سکتا اور آپ سرخ جوڑا پہنے ہوئے ہیں’’۔
وہ اُسے لے کر جیپ کی طرح چل پڑا۔ خدا کا شکر تھا۔ سازندوں کے ساز پھر شروع ہوئے۔ دانیال وجد میں تھا اور ڈانس کر رہا تھا۔ لوگوں کی تالیوں کا شور دھیرے دھیرے پھر بڑھنے لگا۔
دانیال نزدیکی پہاڑ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ خوبصورت درختوں اور پھولوں کی طرف اشارے کرنے لگا۔ سٹیج پر چکر لگاتے لگاتے بانسری بجانے والے کے پاس رک کر اسے ‘‘اور تیز بجاؤ’’ کا اشارہ دینے لگا۔
اس کے چہرے پر ہنسی تھی۔ وہ درختوں اور پہاڑوں کی طرف دیکھتے ہوئے بڑا بڑا رہا تھا۔
‘‘اسے درختوں اور پہاڑوں پر پریاں اور جن نظر آرہے ہیں’’۔
مجمع میں لوگوں نے اپنے متعلق باتیں پوچھنی شروع کر دیں۔ دانیال ہاتھ اور سر ہلا ہلا کر جواب دیتا رہا۔ کسی نے کوہ پیماؤں کے بارے میں دریافت کیا کہ وہ راکا پوشی کو سر کرنے میں کامیاب رہیں گے یا ناکام۔
دانیال کا جواب نفی میں تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply