ہر ایک کے پہلو میں خاک آلودہ آگہی ہے/امر سندھو

(میرا جی کی نظم میں اساطیر، جنس ، مقامی جدیدیت کا مطالعہ)

باریک بینی، یکسوئی اور مرکوز دھیان رکھتے ہوئے 150 پیج پڑھنے کے بعد میں نے بلآخر کلیات میراں جی کے لیئے آن لائن آرڈر بک کروا ہی دیا۔ زیر مطالعہ کتاب یوں بھی دلچسپ ہے کہ میرے پاس اس تجزیئے کے کئی اور پہلو کھول دیئے ہیں لازمی ہے کہ وہ سندھی ادب کے کیئے ہی ہیں۔
رات اپنی سہیلی کے پاس صرف اس لیئے گئی کہ اس سے بات کر سکوں کہ کتاب کے مقدمہ اور خلا کی جمالیات کو میں نے کیسے سمجھا ہے، اس نے مشورہ دیا کہ بات کرنے کی بجائے لکھو تو بہتر ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ دوبارہ یہ یکسوئی میسر ہوگی یا نہیں اس لیئے بہتر سمجھا کہ سہیلی سے سے شیئر کر لوں۔
میرے ذاتی مختصر مطالعے میں ہندی فلسفہ، قدیمی اساطیر اور پھر تاریخی تجربے کی وحدانیت کا شخصی تجربہ و اظھار ۔۔
یہ کئی معاملات تھے جس نے پیاس بجھانے کے بجائے بڑھا دی۔۔
اور اصل استاد کا تو کام ہی یہی کہ وہ سیراب نہیں کرتا وہ پیاس بڑھا دیتا ہے یہ کام ناصر عباس نیر نے بخوبی کیا۔
اوڈورنو سے لے کر پس ساختیات اور مابعد جدیدیت کی ادبی نظریئے و ایک بار پھر سے بغور دیکھنا پڑے گا۔۔
وقت گذرنے کے ساتھہ سیاسی نظریئے کی کلیت سے سے تشکیک پسندی اور پھر مکمل طور پہ میرا ایمان اٹھہ چکا ہے۔
مغربی سیاسی نظریئے کے برعکس ہندی فلسفے اور ہندستان کی قدیمی اساطیر اور علوم نے فرد و اجتماع کی عمارت سازی کو خوب لکھا اور سمجھا ہے۔
مغربی فلسفہ و سائنس اپنی تمامتر عقلیت کے باوجود ادھورا ہے اس میں کلیت کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا اس لیئے فلسفہ سے ادب اور انسانی کے اظھار کے دیگر جہتوں کی طرف چھلانگ اور جھکائو اس سفر کی ایک کڑی ہے۔
مغربی عقلیت کا ایک فرد کے مکمل بیان سے بھی قاصر ہے، اس کے پاس موضوعیت کا خانہ کھوکھلا اور ٹین کا خالی ڈبا ہے، زیادہ سے زیادہ فرئیڈ لے کر آئؤ۔۔۔مگر مغربی جنسی تجربے کے علاوہ اس کے پاس بھی کچھہ نہیں۔ فوکو، دکھتی رگ پی ہاتھہ تو رکھتا ہے، دیوار سے لگی جنسی و ثقافتی اقلیتوں کی نشان دہی تو کرتا ہے مگر مغرب کی جنسی کج روی اب بھی س کی راہ کی رکاوٹ ہے وہ ہندستانی اساطیر و فلسفے سے محروم ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یوں میرے نزدیک مغربی معروض و موضوع کی سائنسی اور عقلی( مارکسیوں کے نزدیک جدلیاتی ) تشریح نامکمل ہے، ان کی ایپسٹومولجی کی تعمیر ہی میں سامان خرابی موجود ہے۔
کسی بھی بحث سے میرا من اٹھہ چکا ہے۔ اس لیئے پرواہ بھی نہیں اور کسی کو سکھانا بھی نہیں کہ کلیت کی یہ تلاش کیوں ابھی تک نامکمل ہے۔
ہمارے ساتھہ برا ہوا،
ہندستانی اساطیر علاوہ غیر بن گئیں۔ سیر حاصل بحث ممکن نہیں۔
اب مغربی فلسفے کی رو سے نظریاتی بحث تو مولویوں کی سی لگتی ہیں۔
اوپر کے عنوان پہ بحث تاریخی تجربے اور تصور حقیقت پہ ہے۔
تصور حقیقت آج ہ/حال ہے
تاریخی تجربے کی جڑیں البتہ میں قدیمی اساطیر میں دیکھتی ہوں۔
اجتماعیت کا شعور اور موجودہ سماج (مغرب و مشرق) ان اساطیر کی جڑوں سے برآمد ہونے باقی ہے، لیکن اس میں شخصی تجربے کی آمیزش اس کو معنگی بخشتی ہے۔۔
شخصی تجربے کے اظھار کے بغیر یہ قدیم اساطیر اور اجتماعیت کا شعور بے معنی ہے۔
اشتراکیت کا بڑا ناقابل معافی جرم یہی تھا کہ اس نے میرا جی جیسے فرد کو قبول کرنے سے انکار کیا ۔۔
پلوٹو کی طرح بے رحمانہ طور پہ اس کو ذہنی معذور سمجھہ کر کچلا۔۔۔
ہاں مجھے کہنے دیجیئے کہ یہ کوئی شخص یا نظریہ نہیں مگر یہ شخصی تجربوں سے عرق ریز کیا ہوا ادب اس بربریت کے منہ پہ تھوکتا نظر آتا ہے۔
باوجود کلیت میں ناکافی مگر فوکو مکمل سچ کے لیئے خطرناک ہو سکتا ہے مگر وہ ایک سچائی کا علمبردار تو ہے کہ اس میں اجتماعیت کے نام پہ کچلی گئی اکائی کا عکس نظر آتا ہے۔
سماج صرف معاشی اکائی نہیں ہے۔
یہ سچائی قبول کرنے لیئے میراں جی جیسا دل گردہ چاہئیے۔
میں نے رات ڈاکٹر عرفانہ کو ایک بات یہ بھی بتائی کہ سندھی کے بہت بڑے شاعر “امداد حسینی” پہ میرا ایک آرٹیکل ڈان میں دی بکس اینڈ آرتھر میں چھپا تو انہوں نے اور انکی بیگم اوری کی بہت اچھی اسکالر، پروفیسر سحر امداد نے اس پہ اعتراض کیا جب میں ن کے مجموعے “امداد آھی رول” (imdad is vegabond) کو اس کا شاہکار لکھا اور پھر ایاز میلو میں بھی ان پہ ریفرینس کا سیشن رکھا تو ا سکا ٹائٹل “امداد آھی رول” پہ میڈم ڈاکٹر سحر امداد حسینی نے اعتراض اٹھایا اور کہا کہ اس کا ٹائٹل یہ نہیں ہونا چاہئیے میں نے ان کی بات مانی اور ٹائٹل تبدیل کر دیا مگر سیشن میں نے یہی کہا کہ “رول” ہونا میرے نزدیک کیا ہے۔
دست نے مجھے ٹوکتے ہوئے کہا کہ تم شاید بھول چکی ہو جب تم نے اجمل کمال کی آج والی میراں جی پہ مرتب کردہ پڑھیں تھی تب بھی اتنی ہے متاثر ہوئی تھیں اور کافی عرصے تک ااس کے سحر میں گرفتار رہی تھیں۔( حالانکہ واقعی یہ بات میں بھول چکی ہوں مجھے صرف کتاب پڑھنا یاد تھی،متن بھی بھول چکی ہوں)
تو میراں جی جب تک پڑھے جائیں گے
تب تک فرد کے شخصی چوائس، تجربوں کے اظھار پہ عقلیت کے نام پہ کی گئی پائمالی مذہبی، سیاسی و ثقافتی ٹوٹلٹیرین ازم پہ مذمت ایک طمانچے کی طرح جاری و ساری رہے گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply