اور میں نم دیدہ نم دیدہ (19)-ابوبکر قدوسی

ہوٹل میں مکمل خاموشی تھی اور یہ خاموشی اندر تک اتر رہی تھی کہ فضا میں آواز بلند ہوئی ۔۔۔
اللہ اکبر ، اللہ اکبر ۔ ۔
اللہ اکبر ، اللہ اکبر ۔ ۔۔
میں سوچ کے رہ گیا کہ کبھی جبل قیس پہ ایک صاحب اکیلے کھڑے تھے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی کبریائی کی آواز کیا لگائی کہ اپنا ہی خاندان پلٹ کر بدگو اور دشمن جاں ہو گیا ، اور اب یہ آواز تمام عالم میں یوں بلند ہوتی ہے کہ وقت کا کوئی لمحہ اس کی قید سے آزاد نہیں ہو پاتا ۔ یہ آواز مسجد نبوی کے مناروں سے بلند ہو رہی تھی ہم بصد شوق اٹھے اور ہوٹل سے نکل کے مسجد کو چل دیے ۔ ہمارے ہوٹل کے دونوں طرف سڑک تھی ایک طرف البیک ہوٹل تھا اور دوسری طرف جنت البقیع کی دیوار ۔ مسجد کی طرف جانے کے واسطے میں اسی عقبی دروازے سے نکلا اور جنت البقیع کی دیوار کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا مسجد کو چل دیا ۔ بارہ برس بعد میں مدینے میں آ رہا تھا ، ایک ایک قدم برسوں کی پیاس اور جدائیوں کی گواہی دے رہا تھا ۔
ساڈے گل وچ ہجر دا پھاہ
ساڈا رک رک آوے ساہ
ساڈا رووے اک اک وال
ساڈی اکھیں اتھرو، لال
اِدھر دیوار ختم ہوئی ، اُدھر ضبط کی دیواریں ٹوٹ رہی تھی ۔میرے سامنے مسجد نبی تھی ۔ اب میں بقیع کے سامنے والی سمت تھا جس کے پہلو میں مسجد ہے ۔ بڑا احاطہ ، صاف ستھرا فرش ، سامنے مسجد کی عمارت اور ادھر دل سمندر کہ جس میں لمحاتِ وصل کے نشاط میں بھی گزری جدائیوں کے طوفان اٹھ رہے تھے ۔
ہر ویلے تانگھ دلبر دی رو رو کاگ اڈاراں ۔
فالاں پاواں قاصد بھیجاں تھی گیا حالَ بیماراں ۔
یار باجھوں ہن جیون کوڑے اندر درد ہزاراں ۔
غلام فرید میں روواں ایویں جویں وچھڑی کونج قطاراں ۔
جی چاہ رہا تھا ایک بار تو جا کے قدموں میں بیٹھ جاؤں ۔ یہ دیکھیے حضور ! ہم عاصی ، خطا کار آپ سے ہزاروں میل دور بیٹھے صبح و شام آپ کا ذکر کرتے ہیں ، آپ پر درود بھیجتے ہیں ، جدائیوں سے تڑپتے ہیں اور آج آپ کے قدموں میں چلے آئے ہیں ۔
تیرے قدموں میں بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
مسجد کے محراب کے باہری طرف بیرونی احاطے میں بھی کچھ صفیں بچھا دی جاتی ہیں ۔ میں ان صفوں پر ہی بیٹھ گیا ۔ بھلے لاکھ دل میں شوق کی تڑپ ہو لیکن آگے کون جائے ؟ دل کی عجیب کیفیت تھی جیسے کوئی تھکا ہارا مسافر ، صدیوں کی پیاس اور میلوں کی مسافت اپنے دامن میں سموئے ، پاؤں جلاتی اور دل جھلساتی دھوپ میں چلتا ہوا آئے تو راہ میں آنے والے کسی اولین شجر سایہ دار کے نیچے ہی ٹھہر جائے ، ڈھے جائے ۔ سو میں بھی ادھر ہی بیٹھ گیا ، نماز پڑھی ، کچھ دیر بیٹھا رہا ۔ چپ چاپ نہ کتنی دیر اس ادھ کھلی زرد دھوپ میں بیٹھا ماضی میں گم تھا ۔ ہزار یادیں دل کو تڑپا رہی تھیں ۔ مسافر کہاں دور مکے سے چلے تھے اور کہاں آن اترے ۔ اپنا دیس چھوڑنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہوتا ہے لیکن جب دیس ہی پردیس ہو جائے تو کیا کیجئے ۔ رسول خود بھی آئے اور ساتھ سارے اصحاب بھی ہجرت کر کے اس شہر مدینہ میں اٹھ آئے ۔ میں وہاں بیٹھا ہواؤں کی سرگوشیوں میں جیسے کان لگائے سن رہا تھا ، صدیوں کی گزری آوازیں ۔
جیسے کوئی پاس سے گزرا اور کہہ رہا ہوں کہ یہ اجنبی ہمارے دیس میں آئے ہیں جو ہمارے رسول ہیں اور ان کے ساتھ ہمارے بھائی آئے ہیں ۔ یہ انصار تھے کہ جنہوں نے اجنبیوں کی اجنبیت ، اجنبیت نہ رہنے دی ، اُنہیں یوں سینے سے لگایا کہ وہ مکہ بھول گئے ۔ اب مدینہ ان کا دیس تھا اور وہ اب مدنی تھے ۔
جب میں مکہ میں تھا تو مجھے مختلف احباب کے فون آ رہے تھے جو ملاقات کے متمنی تھے ۔ ایسے میں ایک روز مجھے ایک اجنبی سعودی مقامی نمبر سے واٹس ایپ پر پیغام آیا تھا ۔ یہ عبدالعلیم تھے ، انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ حرم نبوی کے پڑوس میں ہی ایک دفتر میں ہوتے ہیں اور رہائش ان کی مسجد قباء کے جوار میں ہے ۔ انہوں نے مجھے پیشکش کی تھی کہ جب آپ مسجد نبوی میں آئیں گے تو عشاء کی نماز کے بعد ان کے ہمراہ ہی مسجد قبا چلا چلوں اور وہی واپس ہمیں ہوٹل چھوڑ دیں گے ۔ چونکہ میں صرف دو راتوں کے واسطے مدینہ میں آیا تھا سو میری بھی خواہش تھی کہ اپنے اس تھوڑے وقت سے میں زیادہ سے زیادہ سمیٹ لوں ۔ میری وہی کیفیت تھی کہ ایک شخص تہی دامن ہو اور اس کو کسی خزانے کے منہ پر لا کے بٹھا دیا جائے اور کہا جائے کہ ” اتنا وقت ہے سمیٹ لو ” ۔
میں بھی جنم جنم کا پیاسا چاہ رہا تھا کہ یوں پیاس بجھے کہ تو کوئی تشنگی باقی نہ رہے ۔ انہوں نے اپنے دفتر کا بتایا تو میں مغرب کی نماز کے بعد ادھر چلا گیا ۔ حرم نبوی میں امام کے دائیں ہاتھ بیرونی دیوار کے بالکل متصل ایک بڑی عمارت ہے ۔ اسی عمارت میں سے حرم کے تمام معاملات کنٹرول کیے جاتے ہیں اور یہیں ان کی جاب ہے ۔ اس عمارت کی دیوار پر بڑے بڑے بینا فلیکس لگے ہوئے تھے جس میں حرم کے مختلف مناظر تھے اس کے آگے لوگ تصاویر اتارتے ہیں تو یوں گمان ہوتا ہے کہ جیسے آپ اصلی عمارت میں اسی مقام پر کھڑے ہیں ۔ میں وہاں کھڑا تھا کچھ ہی دیر میں عبدالعلیم چلے آئے ۔ اپنے ساتھ تھرماس میں ” گہوہ ” لیا ہوا تھا۔ بصد اصرار مجھے پلایا ۔ طے ہوا کہ عشاء کی نماز کے بعد وہ اپنی ڈیوٹی سے فارغ ہو کر ہمیں ہمارے ہوٹل سے لے لیں گے ۔ میں نے ان کو ہوٹل کا بتایا اور چلا آیا ۔ عشاء کی نماز کے بعد نو بجے عبدالعلیم ہمارے ہوٹل آئے اور ہم ان کے ساتھ بیٹھ کر مسجد قباء کو چل دیے ۔
سعودی گورنمنٹ نے ایک کمال کیا ہے کہ مسجد نبوی سے مسجد قبا تک جانے والا راستہ پیدل چلنے کے لیے مخصوص کر دیا ہے ۔ قریباً تین کلومیٹر لمبے اس راستے پر ٹائلیں لگا دی گئی ہیں ۔ یہ وہی راستہ ہے کہ جس راستے پہ چل کر سرور کون و مکان صلی اللہ علیہ وسلم قباء کو کہا جایا کرتے تھے مسجد قباء اسلام کی پہلی مسجد ۔۔۔۔۔۔۔
قباء وہ مقام تھا کہ جہاں رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر ہجرت کرتے ہوئے سب سے پہلے آ کر ٹھہرے تھے ۔ روشن سڑکوں سے گزرتے ہوئے ہم بھی قباء کی جانب جا رہے تھے ۔ عبدالعلیم نے نسبتاً کھلے احاطے میں گاڑی روکی ۔ یہ ان کی رہائشی عمارت کے بالکل پہلو میں کھلی جگہ تھی ، جس کی دوسری منزل پر ان کا فلیٹ واقع تھا ۔ عبدالعلیم کے گھر میں داخل ہوتے ہی احساس ہوا کہ گھر کو بڑے شوق سے سجایا اور سنبھالا گیا ہے ۔ ہم کھانا کھا چکے تھے سو ان کے اصرار کے سبب چائے پی اور کچھ دیر بیٹھے ۔ خواتین آپس میں مل رہی تھی ۔ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنے گھر سے وضو کر کے آئے اور آ کر مسجد قباء میں دو نفل ادا کرے تو اسے مقبول یعنی قبول شدہ عمرے کا ثواب ملے گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ ہر ہفتہ کے روز کبھی پیدل اور کبھی سوار ہو کر قبا تشریف لاتے اور مسجد میں نماز ادا فرماتے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں
عَنِ ابْنِ عُمَر رَضِیَ الله تَعَالٰی عَنْهُ قَالَ کَانَ رَسُوْلَ الله ﷺ یَأْتِیْ قَبَاءً مَاشِیًا وَرَاکِبًا فَیُصَلِّي فِيه رَکْعَتَیْنِ (صحیح البخاری باب اتیان مسجد قبا ماشیا وراکبا۔ 2
”نبی ﷺ پیدل یا سوار ہو کر قباء تشریف لاتے اور دو رکعت (نماز نفل) ادا کرتے۔”
اسی طرح قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے مسجد قباء کا ذکر کیا ہے ۔
﴿لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَىٰ مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِيهِ ۚ فِيهِ رِ‌جَالٌ يُحِبُّونَ أَن يَتَطَهَّرُ‌وا ۚ وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِ‌ينَ ﴿١٠٨﴾…سورۃ التوبہ
”جس مسجد کی بنیاد پہلے دن سے ہی تقویٰ پر رکھی گئی ہے وہ زیادہ حق دار ہے کہ آپ وہاں کھڑے ہوں۔ اس میں یعنی قباء میں ایسے لوگ ہیں جو طہارت پسند ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی ایسے طہارت پسند لوگوں سے محبت کرتا ہے۔”
ہم پردیسی کہ گھر سے بہت دور تھے سو عبدالعلیم کا گھر ہی ہمارے گھر کے حکم میں شامل تھا ۔ ہم نے وضو کیا اور مسجد قباء کو چل دیے ۔ مجھے یہ گمان نہیں تھا کہ عبدالعلیم کا گھر مسجد قباء کے یوں قریب ہوگا کہ
دل میں ہے تصویر یار کی
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لیا
عبدالعلیم کے گھر والی عمارت اور مسجد قباء کے درمیان کچھ بھی نہیں ہے ، سوائے مسجد کو اپنی ہی تعمیرات کے ، سو ان کے گھر سے نکلے تو مسجد کے بیرونی احاطے میں داخل ہو گئے ۔ جہاں کچھ دکانیں سجی ہوئی تھیں اور کچھ دفاتر اور وضو کی جگہ ۔ مسجد قباء کو سعودی حکومت نے بہت سادگی سے سجایا اور سنوارا ہے ۔ رات کے اندھیرے میں روشنیوں کے بیچ سفید مسجد کا عجیب ہی منظر تھا ۔
انسان کے اندر کی کیفیت ہوتی ہے جو اسے پابہ رقص کر دیتی ہے وگرنہ باہر تو کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ یہ کیفیات اس کے اپنے اندر اتری ہوئی محبتوں سے تعلق رکھتی ہیں وہی اینٹ محبوب کے گھر کی چوکھٹ پہ لگ جائے تو انسان کا سجدہ گاہ بن جاتی ہے ، محض اینٹ گارے کی دہلیز رانجھے کی محبتوں کی چوکھٹ ہو جاتی ہے ۔
نمی دانم کہ آخر چوں دم دیدار می رقصم
مگر نازم بر ایں ذوقے کہ پیش یار می رقصم
صفائی ستھرائی پر تو بات کرنا تکرار ہے کہ سعودیوں کی ہر مسجد یوں ہی صاف ستھری ہوتی ہے کہ جس کا تصور ہی کیا جا سکتا ہے ہمارے ہاں کے معاملات تو اتنے عجیب ہیں کہ اگلے روز میں سجدے میں تھا اور بھول گیا تھا کہ لاہور میں ہوں زور سے سانس کھینچ لیا تو سانس کے ساتھ مٹی گلے میں اتر آئی ، سجدہ مکمل کرنا مشکل ہو گیا ۔ کئی بار میں کہا کرتا ہوں کہ میرا بس چلے تو میں اپنے شہر ، اپنے علاقے اور اپنے ملک میں مسجدوں میں قالین بچھوانے پر پابندی لگوا دیں کیونکہ ایک تو ہمارے ہاں ہر وقت خاک اڑتی ہے اور اپنی عمر بھی خاک اڑاتے گزر جاتی ہے اور وہی خاک ان قالینوں کے ذریعے حلق میں اتر آتی ہے ۔ دوسرا ہمارے ہاں صفائی ستھرائی کے حوالے سے ذوق بہت اعلیٰ نہیں ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر جگہ یہی معاملہ ہو لیکن بیشتر مساجد میں یہی حال ہوتا ہے ۔
ہم نے ایک طرف کونے میں دو نوافل ادا کئے اور مسجد دیکھنا شروع کی ۔اس مسجد کا طرز تعمیر کچھ کچھ مغل طرز تعمیر سے ملتا جلتا ہے کہ اندرونی ہال محرابوں پر مشتمل البتہ سادہ سفید ۔ مرکزی محراب بھی سادگی اور وقار کا شاہکار ہے ۔ خاکی رنگ کا فرش بچھا ہوا اور چھت پر جہازی سائز کا بہت بڑا فانوس ، اس کی روشنیاں بھی سفید ۔
ایک طرف لکڑی سے بنے بہت شاندار ریک لگے تھے جن پر قران کریم دھرے تھے ۔ عربوں کی قران سے محبت بھی عجیب ہے ، مجھے ایک بار ریاض میں کسی سرکاری دفتر میں کسی کام سے جانا ہوا تو وہاں انتظار گاہ میں پڑے میزوں پر قرآن کریم رکھے ہوئے تھے ۔ مقصود تھا کہ جب آپ کو انتظار جو کرنا ہے تو وہ وقت قرآن پڑھ کر کیجیے ۔ مسجد کے صحن پر دھوپ سے بچاؤ کے لیے کپڑے کے بنے سفید شامیانے لگے ہوئے تھے ۔
مسجد سے نکلے اور ارادہ تھا کہ ہوٹل کو جائیں اور آرام کریں ، کیونکہ طے ہوا تھا کہ صبحِ دم زیارتوں کو نکلا جائے ۔ برادر عبدالعلیم نے کہا کہ وہ صبح آٹھ بجے ہوٹل آ جائیں گے اور ہمیں زیارات کروائیں گے ۔ اس ارادے سے ہم واپس ہوٹل کو نکلے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply