میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں؟۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں کون ہوں؟
کہاں سے آیا ہوں؟
کہاں جا رہا ہوں؟
میں کس دنیا میں رہتا ہوں؟
میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں
میرا ایک شعر ہے
؎ اپنی ذات سے غافل ہوں
آنکھیں ہیں اور اندھا ہوں
جوں جوں میرے شعور کی آنکھ کھل رہی ہے
مجھے احساس ہو رہا ہے
میں ایک دنیا میں نہیں
میں بیک وقت بہت سی دنیاؤں میں رہتا ہوں
ایک خارجی دنیا ہے اور ایک داخلی دنیا
ایک حقائق کی دنیا ہے اورایک تصورات کی دنیا
ایک فردا کی دنیا ہے اور ایک ماضی کی دنیا
اب میں ایک انسان ہوں
انسان سے پہلے حیوان تھا
حیوان سے پہلے پودا
اور پودے سے پہلے پتھر
اس دنیا میں ان گنت کہکشائیں تھیں
پھر ہماری کہکشاں وجود میں آئی
ہمارے ستارے اور سیارے ’ چاند اور سورج بنے
پھر ہماری زمین وجود میں آئی
پہاڑ اور وادیاں بنے
دریا اور سمندر بنے
ان ہی سمندروں کی کوکھ میں زندگی پیدا ہوئی
پتھروں سے پودے
پودوں سے حیوان
حیوانوں سے انسان بنے
پہلے انسانوں کے ارد گرد آوازیں ہی آوازیں تھیں
رونے کی کراہنے کی ہنسنے کی آوازیں
پھر آوازوں نے لفظوں کا روپ دھارا
لفظوں نے مصرعوں اور جملوں کو
اور
مصرعوں اور جملوں نے
نظموں’ افسانوں اور مقالوں کو جنم دیا
پھر
ان نظموں’ افسانوں اور مقالوں میں
انسانوں نے
اپنے جذبات’ خیالات اور نظریات کا اظہار کیا
انسان شاعر اور ادیب بنے
وہ دانائی کی
اپنے سچ کی تلاش میں نکلے
انہوں نے
جہالت کی رات میں علم کی صبح کے
اور
جنگ کے میدانوں میں امن کے خواب دیکھے
میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں
کیا انسان امن کے خوابوں کو شرمندہِ تعبیر کرپائیں گے
کیا وہ کرہِ ارض پر پرامن معاشرے بنا سکیں گے
یا ایٹمی ہتھیاروں سے
انسانوں’ جانوروں’پرندوں اور پودوں کو نیست و نابود کر دیں گے
اجتماعی خود کشی کر لیں گے
میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں
۔۔۔۔خالد سہیل ۲۶ جون ۲۰۱۹

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply