کسی کی زکوٰۃ ، کسی کی کائنات/محمد وقاص رشید

رمضان چلا گیا یادیں چھوڑ گیا۔ لکھ چکا کہ زندگی وقت کی پگڈنڈی سے یادوں کے پھول اور کانٹے چُننے کا نام ہے۔ افتادِ طبع ، اندازِ فکر ، تربیت اور ترجیحات کے نتیجے میں بننے والے بخت پر منحصر ہے یاداشت کا دامن تار تار ہے یا پھولوں کی سیج۔ ویسے پھولوں اور کانٹوں کا ساتھ ایسا ہی ہے جیسے انسان اور یادوں کا۔

کسی نے مجھے زکوۃ کے پیسے سونپے تو ذہن میں نئے تجربات ہونے کے خیال کا چشمہ پھوٹا۔ خود نمائی سے احتراز کی کاوش کامیاب ہو گئی تو شکر خدا کا، ناکامی کی صورت معاف کر کے پیغام لے کر آگے بڑھ جائیے گا۔ مشکور ہوں گا۔

آج سے کافی مدت پہلے پاکستان سیمنٹ کے ایک دوست نے زکوۃ کے پیسے دیے تھے۔ ان دنوں ہمارے ہمسائے میں ایک ویگن کنڈیکٹر رہتا تھا۔ میں اسکے ساتھ بھیرہ تک آتا جاتا تھا۔ پھر وہ وہاں سے چلا گیا کنڈیکٹری بھی چھوڑ گیا۔ پیسے میرے پاس آئے اور میں اس سوچ میں تھا کہ کسے دوں کہ دروازے پر آخری روزوں میں دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو سامنے وہی کنڈیکٹر۔ مگر وہ، وہ نہ تھا۔ میرے سامنے گویا ایک زندہ لاش تھی۔ بیمار ہو گیا تھا بے چارہ۔ بولا نہ جائے۔ سانس غریبوں کے برے دنوں کی طرح تیز۔ صاحب کوئی فطرانہ۔۔دمہ ہو گیا مجھے۔۔۔۔ دمہ۔۔۔تیز سانسیں۔۔پہلو پر ہاتھ۔۔کیا یاد آتا، کون بھول پاتا۔۔اندر آیا اس دوست کی زکوۃ کے سارے پیسے اسے دیے تو۔۔۔ہو و و و و کی لمبی سی ہوک کے ساتھ پیروں میں گر گیا اور میں پتھر ہو گیا۔۔ پتھر۔۔۔۔زمین پر بیٹھ کر اسے کہا۔۔۔نہ کر تو زمین پر خدا کا نائب بنایا گیا۔۔مجھے خدا مت بنا۔۔۔پیسے میرے نہیں۔۔۔وہی گلی ، وہی دیوار کا سہارا ، وہی پہلو پر ہاتھ ، دھیرے دھیرے چلتا پیچھے دیکھتا تو میں اور بھی پیچھے تکنے لگتا۔ خدا حافظ۔۔۔پھر کبھی نہ ملا۔۔۔

اب کے نئے تجربات میں پہلے کے پاس میں پہنچا کچھ دن پہلے ایک افتاد جس پہ بیتی ، جمع پونجی لگ گئی۔ پیسے دیکھ کر ایک چمک سی آنکھوں میں آئی پھر سنبھل کر کہنے لگا نہیں رہنے دیں۔ میں نے کہا۔ اسی وجہ سے دے رہا ہوں کہ گر کر سنبھلنا جانتے ہو۔ میرے نہیں ہیں رکھ لو کسی نے بھیجے ہیں۔

دوسرے کی مجھے تلاش تھی۔ آہستہ آہستہ اپنے کرائے کے مکان کی طرف روانہ تھا۔ پاکستان کے بڑے بڑے معیشت دان اکٹھے ہو کر کسی ایسے مزدور کے گھر کا بجٹ بنا دیں جو ایک ہزار روپیہ دیہاڑی لیتا ہو اور ایک تہائی دیہاڑیاں ٹپکتی چھت کا کرایہ دے دیتا ہو۔ بقیہ دو تہائی میں انکے ساتھ اپنے بچے بھی پالتا ہو۔اسے پیسے دیے تو عجیب لجاجت تھی اسکے لہجے میں۔ کہا بچوں کو عید اچھی کرادینا۔ پیسے میرے نہیں۔ جسکے ہیں اسکے لیے دعا کر دیں نہیں تو خدا خود ہی دھڑکنوں کی صدا سن لے گا۔ بڑا سہولت بخش خدا ہے۔ نہ جانے انکار کرنے والے اسکا انکار کیسے کر لیتے ہیں۔ انکار پر اسکا سکوت بذاتِ خود اقرار کا ماخذ ہے۔

تیسرے “شکار” کے لیے عصر کے بعد پیسے جیب میں ڈالے اور خدا سے دعا کی کوئی ایسا ملے جس کو دور دور تک توقع نہ ہو۔ چلا میں کپڑے اوورلاک اور کاج کروانے تھا۔ آپ کو بتایا تو تھا ضرورت سے شروع ہوا سفر شوق بن گیا۔ ایک موڑ میں مڑا تو خدا کا ایک نائب کچرے سے کاغذ اور گتے وغیرہ چن رہا تھا۔ غیر محسوس سے انداز میں ، میں کچھ دور کھڑا ہو گیا۔ ایک دو لوگوں سے کاج اوورلاک کی دکان پوچھی ۔ بیچوں بیچ اسے دیکھتا رہا۔ مگن تھا کچرے سے رزقِ حلال تلاش کرنے میں۔ اتنے میں، میں نے موبائل جیب سے نکالا اور یونہی سکرولنگ کرنے لگا۔ کچھ دیر لگ گئی ہو گی کہ ایک چھناکے سے انہماک کی رسن ٹوٹی۔۔۔وہی کچرے والا۔ سامنے کھڑا تھا۔ کوئی ہیبت تھی ناچیز پر۔ اللہ اللہ۔۔کس نے بھیجا اسے۔ اسکے پیچھے دیکھا۔ نیلے آسمان اور زمین کی حد۔ کون بھیجتا ؟۔ مگر کون۔۔۔۔بغل میں کوئی چیز دبائے۔ نکالی۔۔اپنے گندے کپڑوں سے جھاڑنے لگا۔ کیا تھا۔۔دستانے۔۔ہماری ہی فیکٹری والے سیفٹی گلوز۔ کہنے لگا خریدو گے۔ میں نے اسکے چہرے کو دیکھا۔ رات کی روٹی جیسا۔ رات کی روٹی جیسا چہرہ لیے وہ صبح کی روٹی ڈھونڈ رہا تھا۔ میں نے کہا دستانے نہیں لینے۔ کوئی یاسیت تھی۔ کوئی لجاجت۔ کوئی نامرادی۔۔کہنے لگا ایک کے پیسے دے کر دو لے لو۔ او خدایا۔۔مارنا تھا کیا۔۔ کہا نہیں چاہئیں۔ ہاتھ سے اشارہ کیا جیسے بندہ کہتا ہے مرضی ہے بھئی۔  آسمان کی بجائے زمین کی طرف دیکھ کر اپنی کل کائنات اٹھانے لگا۔ جی جی ۔ وہی کاغذ ، گتے کی بوری۔ جانے لگا تو میں نے جیب سے پیسے نکالے۔۔ دیکھ کر رات کی روٹی جیسے پانی میں بھیگ گئی ہو۔ عجیب آواز نکالی اس نے۔ ہائے ے ے ے۔۔۔ او جی۔۔۔ی ی ی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا کہے۔ مجھے آ گئی۔ پیسے لے کر وہ نوٹ پیشانی کے ساتھ لگائے۔ اور چلتا بنا۔۔۔خدا نے پیشانی کیا بنائی تھی ، انسانوں نے کیا بنا دی۔۔۔چل دیا۔ وہ بھی میں بھی۔۔۔

افطار کے بعد فیضان نے بال کٹوانے تھے۔ پھر وہی دعا پھر وہی خدا۔ اسکو حجام کے پاس چھوڑا۔ واپسی پر پیزا گھر چھوڑنے آ رہا تھا۔ ایک موڑ پر اندھیرے میں کوئی کھڑا تھا۔ عام طور پر داؤدخیل کے پھاٹک تک لفٹ دے دیا کرتا ہوں۔ سوچا پیزا کے ساتھ مشکل ہو گی دوسرا دیر بھی۔ چل دیا۔ واپسی پر وہ وہیں کا وہیں۔ میں بھی۔ ٹوٹے ہوئی کھیڑی ۔ پھٹے پرانے کپڑے۔ بڑھی ہوئی شیو۔ اور آنکھوں میں حسرت۔ چاچا کیسے کھڑے ہو۔۔۔اللہ اللہ ہاتھ ہی جوڑ گیا۔ وہ جی کسی کے انتظار میں ہوں۔ فلاں جگہ گھر ہے فلاں کام کرتا ہوں۔۔۔ذاتی دا۔۔۔۔کیوں کوئی غلطی تھی گئی اے۔ ہاتھ جوڑ دیے۔ روح تلک جھٹکا مجھے محسوس ہوا۔ پیسے نکالے۔ جب دیے تو آنکھوں میں نمی تیر گئی۔ غریب کا سارا جسم نمکیات کی کمی کا مارا ہوتا ہے سوائے آنکھوں کے۔ اللہ جی تہاڈا بہوں بھلا کرے۔۔ اسکے جڑے ہوئے ہاتھ تھام کر نیچے کیے اور چل دیا۔

اسکے بعد واپسی پر وہ دو سیلزمین۔ بڑی محنت اور جانفشانی سے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ زیادہ پیار ان پہ تب آتا ہے جب تھکے ہارے بھی بچوں سے بدکلامی نہیں کرتے۔ اکثر دکانوں پر سیلزمین بچوں سے اپنے استحصال کا ازالہ کرتے ہیں۔ سارا سماج ہی خود سے کمزور پر دھونس جماتا ہے۔

عید پنڈی میں تھی۔ اگلی کہانی وہاں ملی۔ میری بیگم اور بھابھی خریداری کے لیے گئی ہوئی تھیں اور میں باہر منتظر۔ ہیلو دوست ، ہائے مائی فرینڈ ، ہیلو بیٹا۔۔۔ کوئی کارٹون کریکٹر بن کر ناچتے اور بچوں کو ہاتھ ہلاتے ایک مزدور کو میں نے دیکھا۔ کوئی آدھا گھنٹہ میں اسکا مشاہدہ کار رہا۔ فلالین کا کاسٹیوم ، سر پر رنگ دار اونی ٹوپی ، کاسٹیوم کو ہائی نیک بنانے کے لیے گردن پر دو بڑے بڑے بکسوئے لگے ہوئے تھے۔ جن بوٹوں میں ناچ رہا تھا وہ سیفٹی شوز لگ رہے تھے۔ تقریباً دو منٹ ناچتا پھر سستانے کے لیے پیچھے کھڑی موٹر سائیکلوں پر آرام کرتا پھر شروع ہو جاتا۔ رقص میرے جیسا ہی تھا۔ تفصیل میں نہ جائیں۔ میں نے آدھا گھنٹہ مشاہدہ کیا۔ بچوں نے اسکے ساتھ تصویریں ، ویڈیوز بھی بنوائیں۔ مگر اپنے ماں باپ کے ساتھ بڑی بڑی گاڑیوں کی طرف بغیر اسے کچھ دیے لپک گئے۔ میں نے سوچا شاید “الجنت” والوں کا ملازم ہو اور انہوں نے گاہکوں سے پیسے لینے سے منع کر رکھا ہو۔ میں اسکے سستانے کے ٹائم میں اسکے پاس چلا گیا گو کہ دل میرا “ورکنگ ٹائم” میں ساتھ دینے کو چاہ رہا تھا۔ گفتگو سے پتا چلا۔۔۔یہ وہ آدمی ہے جو “الجنت” کے سامنے کھڑا آدم کے جنت سے گندم کا دانہ کھانے کا خمیازہ انہی گندم کے دانوں کی تلاش کی صورت بھگت رہا ہے۔ اور گندم پر زمین کے خدا قابض ہیں۔ آٹے کی بوریوں پر “واللہ خیر الرازقین” لکھتے ہیں۔۔۔وہ الجنت کا ملازم نہیں۔ کبھی کہیں کبھی کہیں امیروں کے بچوں کو کارٹون دکھا کر انکی انٹرٹینمنٹ کا خراج وصول کرنے کی سعی کرتا ہے۔۔ اتنے موٹے کاسٹیوم میں گرمی نہیں لگتی ؟۔۔ کمال جواب دیا۔۔۔پیٹ کی آگ بھی تو بجھانی ہے اسکی گرمی زیادہ تنگ کرتی ہے۔ اجازت مانگی ۔ سیلفی لے لوں۔ پیسے دیے تو بڑے متین انداز میں شکر گزار ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پیسے تھوڑے رہ گئے تھے۔ آخری چراغ کی تلاش تھی کہ جسکی لو کے گرد کچھ دیر کو ہاتھوں کا گنبد سا رکھا جائے۔ ہوٹل میں سب لوگ عید کے دوسرے دن کھانا کھا رہے تھے۔ میں نکلا۔ ہوٹل کی پچھلی طرف ایک سکول تھا۔ بہت بڑی بڑی عمارتیں۔ اچانک ایک بچہ سامنے آیا۔ کاندھے پر ایک بوری تھی۔ پوچھا عید والے دن کام۔ کہنے لگا عید تو کل تھی۔ کیا مسکراہٹ تھی۔۔۔۔ یہ ان بچوں میں سے ہوگا جو اس عقیدے پر دنیا میں لائے جاتے ہیں کہ ہر بچہ اپنا رزق ساتھ لاتا ہے۔۔۔ہاں لاتا ہے مگر شام ڈھلے۔۔۔اپنا بھی اور انکا بھی جو اسے دنیا پر لائے۔ جیب سے پیسے نکالے اور کہا کسی نے آپکی عیدی بھیجی۔ پیسے دیکھ کر دھنک سی طلوع ہوئی اسکے سانولے افق پر۔۔۔کہنے لگا کس نے۔ میں نے کہا چھوڑیں بیٹا۔۔۔آپ جائیں۔ اللہ کے بارے کچھ کہہ کر چل دیا۔ میں یہ سوچتے ہوئے پیچھے مڑا کہ عجیب کتھا ہے۔۔۔۔ کسی کی زکوۃ ہے کسی کی کائنات ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply