آم بجھاتا’ایک خوبصورت روایت جو تمام ہوئی۔انوار احمد

آج بھی جب کبھی ذہن بچپن کے واقعات اور ان سے جڑی روایات میں کھو جاتا ہے تو بے شمار بھولی بسری یادیں سر اٹھانے لگتی ہیں . والدین کا وہ سنہرا دور جب وہ مکمل طور پر فعال تھے . گوناگوں مصروفیات اور معاشی تگ و دو کے باوجود اپنی روایات اور اقدار کو بھی کسی طور زندہ رکھے ہوئے تھے اور انہیں بخوبی نباہ بھی رہے تھے باجود اس کے کہ  تقسیم کے بعد اکثر خاندان ٹوٹ پھوٹ اور کسمپرسی کا شکار ہوئے اور باوجود حالات کے جبر کے انہوں نے اپنی اقدار کو بھی زندہ رکھا جو یقیناً  آسان نہ ہوگا ۔

کیسے کیسے خوبصورت رشتے تھے اور ان سے جڑی معاشرتی روایات کی پاسداری بھی کی جاتی تھی .اکثر گھرانوں میں سب مل جل کر رہتے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل رہتے تھے . والدین , بھائی , بھابھیاں , نند , دیور سب اکھٹے رہتے اور مل بانٹ کر کھاتے ۔ چیزوں اور وسائل کی افراط تو نہ تھی لیکن کم میں بھی برکت تھی اور اچھا گزارا ہوجاتا تھا۔

عید اور دوسرے تہواروں کو ہنسی خوشی منایا جاتا تھا. عزیز و اقربا کا آنا جانا لگا رہتا تھا ,بزرگوں کا احترام اور چھوٹوں سے شفقت کا برتاؤ  کیا جاتا تھا اور ہر ایک کو اپنی حدود کا احساس رہتا  تھا۔ چچا ,تایا اور پھوپھیاں بھانجے بھتیجوں کی تربیت کیا کرتی تھیں اور اکثر سرزنش بھی کرتے لیکن کیا مجال ہے کہ والدین دخل اندازی کریں یا کبھی کسی قسم کی ناگواری کا اظہار کریں ۔

کچھ رشتے ہنسی مذاق اور چھیڑ چھاڑ کے سمجھے جاتے تھے ، جیسے دیور بھابھی , بہنوئی  اور سالے سالیوں کا رشتہ , نند اور بھابھی کے درمیان شوخیاں اور جملے بازی ہوتی لیکن کبھی کوئی   اخلاق سے گری ہوئی بات یا کسی قسم کا لچر اور بیہودہ مذاق  نہیں کرتا تھا۔ باہمی احترام اور روداری مقدم سمجھی جاتی تھی۔

ایک روایت جو اب تک ذہن میں ہے اور اس کا مظاہرہ اکثر اپنے ارد گرد ہوتے دیکھا وہ ” آم بجھانا” تھا۔

یوپی اور اودھ کے لوگ آم کو ایک پھل ہی نہیں بلکہ ایک روایت اور ثقافت سمجھتے تھے۔ مجھے یاد ہے جب آم گھر میں آتے اور اگر ان میں کوئی دوگٹھلیوں والا   آم مل جاتا تو وہ کھایا نہیں جاتا تھا  بلکہ  الگ رکھ لیا جاتا تھا ۔ اس آم کو “آم بجھانے” کے لیے استعمال کیا جاتا، وہ اس طرع کہ اسے کسی طرع چھپا کے یا کسی کپڑے وغیرہ میں لپیٹ کر دیور اپنی بھابھی کو یا سالی اپنے بہنوئی کو کسی بہانے پکڑا دیتیں اور آم بجھاتیں۔

میرے والد مرحوم کو ان کی سالیاں ” نواب دولہا ” کہا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ میری چھوٹی خالہ گھر آئیں اور ایک کپڑے میں پوشیدہ کوئی چیز ابا کو کسی بہانے دی ۔ابا نے جیسے  ہی اسے ہاتھوں میں لیا خالہ نے جھٹ کہا ” نواب دولہا فراموش ۔۔۔ دو سو آم ” ابا نے حیرانگی سے اس چیز کو دیکھا اور چھوڑنا چاہا لیکن دیر ہوچکی تھی . خالہ دھوکہ دینے میں کامیاب ہوچکی تھیں انہوں نے دو گٹھلیوں والے آم کو بڑی ہوشیاری سے چھپا کر ابا کو پکڑا دیا تھا اور اب ابا کے لیے ان کو دو سوآم دینا لازم ہوگیا تھا۔ ابا مرحوم فراخدل کے مالک تھے انہوں نے بھی بڑے چاؤ  سے اپنی عزیز سالی کا مان رکھا اور دو سو آم گن کر دیے ۔

ایسا ہی ایک مرتبہ میری والدہ مرحومہ نے اپنے بہنوئی کے ساتھ کیا اور ڈھیر سارے آم کی حقدار ٹھہریں ۔

ہائے کیسے لوگ اور کیسے  زمانے تھے . ایک بار مجھے بھی دوگٹھلیوں والا آم مل گیا، آیا تو میں نے بیگم سے کہا چلو کسی کو بجھوائیں تو انہوں نے میری طرف حیرانگی سے دیکھا اور پوچھا یہ کیا ہوتا ہے اور میں نے خاموش  رہنے میں ہی  عافیت جانی!

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply