• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہم جنس پرستی اور پاکستانی تعلیمی اداروں کا علمی و تحقیقی جائزہ/حصّہ ہفتم۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

ہم جنس پرستی اور پاکستانی تعلیمی اداروں کا علمی و تحقیقی جائزہ/حصّہ ہفتم۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

کرس ہیجز نے علمی اور غیر علمی لوگوں کے مراتب اور آمدنیوں کا باہمی تقابل  کرکے تماش بینی کے کاروبار کی اونچی آمدنیوں کی علمی حلقوں پر برتری ظاہر کی ہے وہ بتاتا ہے کہ ایک فٹبال کلب کا یا ٹیم کا کوچ امریکہ(مغرب) میں کسی جامعہ کے وائس چانسلر سے زیادہ کماتا ہے۔چنانچہ برکلے یونیورسٹی کا وائس چانسلر تین لاکھ ڈالر کماتا ہے اور فٹبال کوچ تین ملین ڈالر سالانہ کماتا ہے(ص :۹۴)۔معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا ، اب وہ ایک قدم آگے بڑھ کر تماش بینی کے کاروبار کے جنسی رخ کا جائزہ لیتا ہے چنانچہ بتاتا ہے کہ ایک اعلیٰ  درجے  کی جسم فروش عورت  تین ہزار ڈالر فی گھنٹہ سے زیادہ کماتی ہے،یعنی نائن ٹو فائیو کاروباری بارہ گھٹے میں یہ خاتون ۳۶ ہزار ڈالر کماتی ہے ۔یہ ایک امریکی استاد کی سالانہ آمدنی  سے زیادہ ہے۔جبکہ امریکی سپریم کورٹ کا جج سالانہ دولاکھ سترہ ہزار چار سو ڈالر کماتا ہے۔امریکہ اور مغرب کی نگاہ میں  مقولہ مشہور ہے کہ کام کیا تو شرمانا کیا،بھلے وہ کام شر سے کتنا ہی لبریز اور عین شر کیوں نہ  ہو ،چنانچہ  اس کلیہ کی رو سے جدید مغربی تمدن لفظی اخلاقیات کا تمدن  بن چکا ہے چنانچہ جنسی کاروبار کرنے والے لوگ بھی ورکنگ فورس مانے جاتے ہیں ،انکی آمدنیوں پر بھی ٹیکس لاگو ہوتا ہے اور طوائف کو وہاں سیکس ورکنگ وومن اور مرد کو  سیکشوول  ورکنگ مین جانا جاتا ہے،یعنی وہ بھی فیکٹری کے مزدور جیسی ایک محنتی ورکر کی طرح عزت و شرف کے قابل جانی جاتی ہے۔

ہیجز کہتا ہے کہ:

The porn star makes anywhere from 1500 dollars to 3000 dollars an hour as a prostitute.

[ibid.chapter:illusion of love:pp:68]

واضح رہے کہ پورن انڈسٹری میں آمدنی میں صنفی عدم مساوات پائی جاتی ہے ،یہاں عورت معمول ہونے کے باوجود لیڈنگ درجہ رکھتی ہے اور زیادہ آمدنی پاتی ہے جبکہ فاعل  مرد اس سے آدھی آمدنی کما پاتا ہے۔چنانچہ جدید مغربی تمدن میں جنسیت کے فروغ کو فردی دائرے میں لانے میں کیمرہ موبائل کا اہم کردار ہے جس نے ہر فرد کو جنسی بنیادوں پر ایکٹر،ڈائریکٹر اور بزنس مین بنادیا ہے۔

یہ سیکسول فکشن ایک منظم پلانٹڈ ایکشن  و ری ایکشنز کی منظر کشی پر مشتمل ہوتا ہے،جسکا اجتماعی نتیجہ ورچوئل سے رئیل ورلڈ کے سامعین میں ایک تباہ کن اشتھہا و انتہا کا نشہ پیدا کردیتا ہے، اور اب اس  فکشن کی انتہا اور رنگینی کو کئی معجونوں اور کشتہ جات سے غیر پورن نارمل پراڈکٹ تک لبریز کردیا  گیا  ہے۔اسکی ایک اعلیٰ  مثال گیم آف تھرون نامی ایچ،بی۔او کی شہرہ آفاق آٹھ سیزیز پر مشتمل ڈرامہ سیریل ہے جس میں ہم کو بیک وقت نارمل سیکس،انسیٹ،ٹیبوز،مار ڈھاڑ ،قتل و غارت گری ساتھ ساتھ چلتی نظر آتی ہیں،اگر چہ اس سیریز کا  ایک بصارتی و سمیعاتی نقطہ نظر سے ایک اپنا مشاہداتی نشہ ہے ،اس میں عکس بندی،ویژول افیکٹ کے معیار اداکاروں اور ہدایت کار کا باہمی تال میل انتہا پر پہنچتا نظر آتا ہے مگر اس میں جگہ جگہ سیکس کا استعمال جتنی کثرت سے  ہوتا نظر آتا ہے اس سے یہی محسوس ہوتا ہے  کہ مغرب کی اصل غذا بس جنس جنس اور جنس  ہی ہے ،وہ سب کچھ اسی کے لئے کماتا ہے اور سب کچھ اسی پر نچھاور کرتا ہے۔اور غالباً   انہی   جنسی مناظر کی انتہا  نے شاید گیم آف تھرونز کو شہرت کی غیر مختتم اونچائیوں پر براجمان کردیاہے،بعض دعوؤں کی رو سے سو سال تک اسکا مقابلہ کرنے کی توقع مشکل ہے۔

مگر ایسا دعویٰ  کرنا بذات خود مغربی تمدن کی روز افزا لذتی بڑھوتری کے مطلوبہ متغیر تجارتی تناظر میں ایک مبالغہ آرائی دکھتی ہے،کئی سیریلز اسکی سرزمین سے مماثل بنی ہیں جیسا کہ حالیہ ایمیزون کی سریل :وہیل آف ٹائم   کی بابت کہا جارہا ہے کہ وہ اسکے مقابل سحر تخلیق کرنے کی بتدریج صلاحیت کی حامل ہے،خود  ہدایت کار نے  اسکے تسلسل کو دا ایج آف ڈریگن میں پیش کرنے کی سرگرمی کا آغاز کردیا ہے،مگر اتنا طے ہے کہ اسکی غالب ترین شہرت اور  اسکی ٹی۔آر۔پی ریٹنگ اسکو ہر زاویہ سے مضبوط تر بنادیتی ہے ورنہ کئی ڈرامہ سیریز اس سے بہت سے بنیادوں پر آگے تھیں،مگر ان میں جنس کے متنوع پہلوؤں کی عدم تصویر بندی اور بصارت بندی نے انکو اس پہلو میں کمزور کردیا ہے، ویسے میری ناقص رائے کے مطابق اگر کوئی  بھی فرد اس ناول پر بننے پر سیریز پر نگاہ ڈالے تو بخوبی اندازہ قائم کرجائیگا کہ یہ سیریز درحقیقت اپنی عکس بندی اور مناظر کی پیش کاری میں دا لارڈ آف رنگز کے تینوں حصوں پر مشتمل  سیریز کی تھیم سے  کافی متاثر نظر آتی ہے جسکی تین فلموں کی سیریز کا کُل دورانیہ نو گھنٹے پر محیط ملتا ہے ۔

ہم بالی ووڈ انڈسٹری کی کئی فلموں میں ہم جنسیت کے رجحانات منظر بند ہوتے دیکھتے ہیں جیسے،مارگیٹا وِتھ استڑا،ڈیڑھ عشقیہ(کھلم کھلا نہیں ذو معنی لفظی پیرائے میں)،بمبئی ٹاکیز کے ایک ڈرامہ پلے جسکی ہدایت کاری کرن جوہر نے دی ہے جس پر  بذات خود گے ہونے کا الزام موجود ہے ۔ اسی طر ح بنام:عجیب داستان ہے یہ۔اسٹوڈنٹ آف دی ائیر:اس میں رشی کپور جو ڈین ہوتا ہے کے  رجحانات صرف زبانی کلامی مردوں کی  طرف رومانوی مزاح کی صورت میں دکھائے گئے ہیں، اسی طرح فلم ہیروین میں  بھی بس آزادی کے ضمن میں فلمی کلامی طور پر اس کا تذکرہ ڈھونڈنے سے مل جاتا ہے،فلم:آئی ایم ایک بھارتی نیشنل ایوارڈ ہولڈر فلم ہے جس میں باقاعدہ گے ازم کو بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۷ کے تناطر میں دکھایا گیا ہے۔جسکی رو سے ایسے رجحانات فطرت کے خلاف ہونے کےسبب قابل سزا ہیں ۔اسکا آئینی پہلو یہ دیکھا گیا ہے کہ  کہ بعد ازاں ۲۰۱۸  میں نوتیج سنگھ جوہر برخلاف بھارتی یونین کے مقدمہ میں اس دفعہ :۳۷۷  کو   بھارتی سپریم کورٹ نے انسانی حقوق اور بھارتی آئین کی روح کے خلاف قرار دیا تھا۔

اسی طرح ہم دیگر فلموں میں جن میں آزادی فکر،لبرلازم اور انسانی حقوق کے مغربی فکری بیانیہ کو فلمی رنگ ڈھنگ میں ضمنا ًو جوہراً بیان کیا گیا ہے : ان میں فلم: دونوں نہ جانے کیوں(۲۰۱۰) اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ اس میں کلامی فکری بنیادوں سے ایک درجہ آگے  بڑھ کر دو مردوں کی کسنگز کو منظر بند کیا گیا ہے۔اسکے علاوہ فلم فیشن،ہنی مون ٹریلوز،مائی برادر نکھل،گرل فرینڈ،مینگو سوفل،بوم گے،اور لیزبین ازم کے ضمن میں  خاص الخاص سمجھی جاتی ہیں۔

اسی طرح ایک سیریل ٹیوڈرز کے پہلے سیزن میں ہی انگلستان کے حاکم ہنری ہشتم جسکے تین بچے انگلستان کے تخت پر بیٹھے جن میں الزیبتھ اول کا دور مشہور و معروف ہے اس میں بھی پہلے سیزن کی وسطی اقساط میں  اسکے ایک ساتھی ،دوست اور درباری کو ایک موسیقار سے جنسی روابط قائم کرتا دکھایا گیا ہے جسکی موت بعد ازاں طاعون سے رونما  ہوتی دکھتی  ہے، جسکے نتیجے میں بعد پھر کل لندن میں یہ مرض پھیلنے لگتا ہے ،اسی طرح بلیک سیلرز نامی مشہور  سیریل میں  سریز کا اختتام بھی گے عاشقوں کی عرصہ بعد ملاقات کی صورت میں دکھایا گیا ہے ،یہاں اس قسم کے غیر ضروری مناظر حقیقت کے کچھ رٌخوں کے اظہار کے نام پر پیش کرکے درحقیقت  عام لوگوں کی جنسی اشتہا کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ نہیں تو یہ سہی ،عام آدمی اور عورت کی باہمی رسائی اور عقد کی ناپیدیت میں کم از کم ایسا مفت کا تعلق ہی زیر غور سہی۔

ہم جنسیت کا تخلیقی فطرت و جبلت کے خلاف ہونے کا علمی قصہ:

میں اس پہلو پر عقلی تناظر میں سابقہ اقساط میں کافی  روشنی ڈال چکا ہوں کہ خالق کے ذہن میں مخلوق کی تخلیق سے قبل جو مقصودیت اول نمودار ہوتی ہے،اس جبلی فطری تخلیق سے  خروج تخلیق میں سقم پیدا کردیتا ہے۔یہاں اس قسم کی جنسی ترغیبات اس قول کی نفی کرتی دکھتی  ہیں کہ یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے اسکا علاج کرو ،میں کہتا ہوں یہاں کسب اور ترغیب سے ایسی تعلیم لوگوں کے اذہان میں بتدریج ہم جنسیت  راسخ کی جاتی ہے جو گناہ کے تصور کی حدت و شدت کو ہی کم کرکے رکھ دیتی ہے،یہ ماحولیاتی،غیر رسمی تعلیمی ترغیبات ذہنی تصوریت میں اخلاق کے ضمن میں ایسی تبدیلی رونما کرتی ہے جو انسان کا بندھن و تعلق سماجی انجینئرنگ سے تو ڑ کر فردی لذت و خواہش کی طرف منتقل کردیتی ہے اسکے دماغ میں گناہ کا تصور کمزور ہونے لگتا ہے اور جتنا وہ اس لذت میں ہیروئنچی کی طرح گرفتار ہوتا ہے،اتنا اسکا ذہن اسکے مبنی بر حق اور سماج کے ظالم ہونے کا قائل ہوتا جاتا ہے۔

مذہب اب بس ایک ظالمانہ جابرانہ،مفاد پرست سماج کا آلہ کار تصور کیا جانے لگتا ہے،چنانچہ یہ کہنا  کہ یہ بس ایک بیماری ہے،تو جناب یہ بیماری بعد میں پیدا ہوتی ہوگی اول یہ بیماری ایک مخصوص ماحول تربیت  و کسب کے سبب  ب پیدا ہوتی ہے،پھر نشہ بن کر اذہان میں راسخ ہونے لگتی ہے،اس ضمن میں عامل و معمول سماج و تاریخ کی شاذ و نادر مثالوں کو دلیل بنا کر انکی تقلید کرنےلگتا ہے،مطلب بیماری بعد میں بنتی ہے اول ماحول،سماج و خاندان کی ناجائز جابریت اس میں منفعت پیدا کرتے ہیں،خواہش اس کو مثبت ثابت کرتی ہے اور اشتہا اسکو عمل میں لاتی ہے۔

خاندان کی جابریت درحقیقت معاشی و معاشرتی تمدن کی خاندان میں در آنے والی ایسی جابریت ہوتی ہے،جو فرد کے لئے روٹی ،کپڑا،مکان،روزگار اور نکاح ناممکن بنادیتی ہے۔غریب گھرانوں میں لوگوں کی شادی کی عمر مالیاتی کمزوری کےسبب نکلنے لگتی ہے، چنانچہ نتیجتاً جس کو اس حالت میں بنا نکاح  کےماحول میں جو ہاتھ آتا ہے اسے پکڑ لیتا ہے، اس سے رضا و جبر سے لطف اندوز ہونے لگتا ہے۔

جبکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جن کے دماغ میں یہ  فکری دیوار موجود  ہوتی ہے کہ مذہب اور سماج اس بابت صحیح کہتے ہیں مگر ہماری خواہش و اشتہا بھی پوری ہونی چاہیے  تو وہ  لوگ نتیجتاً زنا کی طرف راغب ہوتے  جاتے ہیں ، یہ  مرد و عورت کا باہم  سادہ  قسم کا  زنا  ہوتا ہےجس میں عمر کی کوئی تفریق و قید نہیں ہوتی ہے۔ایک دوسرا طبقہ وہ بھی  ملتا ہے،جن کو ناجائز  طور  پر قید خانہ نما گھروں  میں قیدیوں کی مانند کچھ زیادہ ہی بند کردیا جاتا ہے اور گھر کو سیدھا سادھا اخلاقی سماجی  قید خانہ سمجھ لیا جاتا ہے،اور جہاں مردوں کی زندگی عورتوں کی زندگی سے بالکل مختلف ہوتی ہے، بکل عصمت چغتائی کے ناول لحاف کی مانند نواب صاحب کا رجحان لونڈوں کی طرف زیادہ ہوتا ہے وہ بیچاری  بیگم جان کو  آنکھ بھر دیکھتے تک نہیں ہیں تو گھر میں قید بیگم جان اپنی ملازمہ سے ہی جنسی خواہش پوری کرنے لگتی ہیں،اس ضمن میں راحت کاظمی کی شارٹ فلم لحاف کے نام سے ریلیز ہوچکی ہے۔

اس بات سے معلوم چلتا ہے کہ حقیقت بیان کرنا الگ شئے  ہے،حقیقت کی وجوہات بھی ساتھ  بیان کرنا بھی دوسری شئے  ہے،مگر صرف نتیجہ بیان کرکے وجوہات و علت کو فراموش کرنا صاف تیسری شئے  اور تصویر کا ایک نیا رخ ہے،راحت کاظمی نے یہاں ہدایت کاری میں عورت کی ہم جنس پرستی کی وجوہات کی ابتدا کو بیگم جان کے جسم میں درد سے بیان کیا ہے،درد کا علاج جو کہنے کو شادی شدہ مرد سے دور حجرہ میں بند عورت کا درد ہوتا ہے جس کو نواب صاحب سمجھ ہی نہیں پاتے ہیں کیونکہ انکا رنگ ڈھنگ ڈھکے چھپے انداز   اغلامی ہوتا ہے چنانچہ نواب درد کو درد جان کر مالشن بلاتے ہیں جو بیگم جان کی  مالش کرتی ہے  اور وہی کم بخت جوان لونڈے کی ماں مالشن  بعد میں بیگم جان کی ملازمہ اور اسکی محبوب بن جاتی ہے۔

یہاں بیگم جان کی شروع سے سرشت ہم جنس پرستی بیان نہیں کی گئی ہے بلکہ یہاں نواب صاحب کی بیگم جان سے دوری ،زنانہ کوبس رسمی طور پر دنیا کو دکھانے کے نام پر قائم کرتا دکھایا گیا ہے،یہاں نواب صاحب مردانے اور مدرسے کے لڑکوں کی طرف التفات قائم کرتے اشاروں کنایوں  میں دکھائے گئے ہیں ،چنانچہ یہاں  بیگم جان کے جنسی  درون خانہ ماحول کی تبدیلی نواب صاحب کے جنسی رجحان کی تبدیلی کے سبب پیدا ہوتی ہے اور بیگم جان کی ذہنی ساخت میں یہ تبدیلی نواب صاحب کی عدم دلچسپی،زنانہ میں قید ہوجانا،  اور انکی جنسی خواہش جو عمر و نکاح کے حساب سے فطری تھی کے سبب ممکن ہو پاتی ہے ،یہاں پھر اس خام  تبدیلی کو مالشن کی مالش اور دبانے نے ایک خاص ذہنی تربیت میں بدل دیا  ہوتا ہے اور اس متبادل تعلیم نے اسکی سادہ جنسیت کو اسکی مفقودیت کے سبب ہم جنس پرستی  میں بدل دیا ہوتا ہے۔

مفتی عزیز الرحمان کی ہم جنسیت کا بھونڈا ماجرہ:

اسی طرح حسن ذوق سے محروم بابا  مفتی عزیر الرحمٰن   کو دیکھتے ہیں جو نا صرف شادی شدہ  کئی بچوں کا باپ ہے بلکہ باباجی  بیوی کے ہوتے ہوئے  بھی اغلام بازی و لونڈے بازی کرنے کی جسارت میں بے باک ہوکر معصوم بنتے دکھتے ہیں چنانچہ اس تناظر میں مسئلہ کی جزیات و کلیات کا تجزیہ کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ ہمیں اس ضمن میں  اسکی ذہنی ساخت میں تبدیلی کا تجزیہ کرنا ضروری معلوم پڑتا ہے، یہ بابا اور اسکا متاثرہ چیلہ ہمارے سامنے بالرضا  اور بلارضا استحصال پر کئی سوالات پیش کرتے دکھتے ہیں ، ایسا سوچا جاسکتا ہے کہ کیا اس شیطان کے چیلے مفتی کے ساتھ  کیا بچپن میں کچھ ایسا ہوا تھا جسکی لذت بعد میں اس طالب علم سے روابط میں عود آئی تھی ؟یہاں یہ جانچنا ضروری ہے کہ آیا وہ ہم جنس پرستی کی لذت سے نکاح سے قبل آشنا تھا یا مابعد اسکو اسکا چسکا لگا؟یہ چسکا کیوں لگا جبکہ اسکے پاس سادہ،حقیقی جائز جنسی تعلق کا ذریعہ بیوی کی صورت میں موجود تھا۔ایک وجہ شاید یہ ہو کہ بیوی سے دوری ،یا بیوی سے اسکے درون خانہ  غیر مطمئن معاملات نے معاملہ کو یہ رنگ دیا ہو،یا سادی سی بات کہ جنسی خواہش کی اشتہا پوری کرنے سے اسکی بڑھتی عمر کی بیوی قاصر ہو ؟،دوسری عورت اس عمر میں بچوں کی موجودگی میں میسر ہونے کے امکانات کم ہوں تو عزیر شیطانی کو ایسی شیطانی سوچی ہو؟،ایک اور امر یہ بھی ممکن ہے  کہ اسکی جبلت کی درون خانہ ترغیبات نے عزیز شیطانی کو  اس طرف راغب کیا ہو ؟جبکہ  ممکن ہے طالب علم خود اس قسم کے یکساں رجحان کا حامل  ہو،وہ کچھ مطالب،مقاصد اور مفادات کے لئے خود کو مفتی کا مفعول بنا چکا ہو،پھر جب دال صحیح نہ  گلی ہو تو اس نے مفتی جی کا دھڑن تختہ کردیا ہو؟،بھلے موصوف  کتنی اپنی استحصال زدہ داستانِ غم دنیا کو سناتا پھرتا ہو  اور اس با ریش مرد نما لونڈے نے مفتی کو اپنے امتحانی  مفادات کے حصول کے لئے ترغیب دی ہو اور جو بعد ازاں مفتی میں ایسی جنسی نشہ   پیدا کرگئی ہو،کہ جس سے پیچھا چھڑانا ناممکن ہو،؟یہ بھی معکوس نتیجہ  اس طالب علم کی  خواہش کے برخلاف نکلا ہو  کہ وہ بوڑھا بد ذوق خدا بییزار مفتی اسکے مفادات پوری کرنے کی جگہ اسکا  استحصال کرنے میں ہی اپنی خواہشی لذت کی بقا تصور کرتا معلوم پڑتا  ہو،خیر جو بھی ہو  ابلیس کے دربار میں مفتی جی  کا رتبہ اس وقت اس اعلیٰ  درجہ کا حامل  ہوگیا تھا کہ  جسکی مفتی جی کو بھی توقع نہیں تھی ۔

ہم جنسیت کی گہوارہ(نرسریز) تعلیم گاہیں اور جدید ایمانیات:

واضح رہے کہ ہم جنس پرستی کے تعلیمی اظہارات جن اداروں میں زیادہ غالب دیکھنے کو ملتے ہیں وہ یا تو یک جنسوی ماحول کے تعلیمی اداروں میں دیکھنے کو ملتے ہیں جیسے بوائز ا سکولز اور گرلز اسکولز و کالجز یا پھر یک جنسی مدارس میں بالخصوص مردانہ دینی اداروں میں ایسی باز گشت  سننے کو ملتی ہے۔جبکہ مخلوط تعلیمی نظام میں یہ رجحان  مقابلتاً نہ  ہونے کے برابر ہے،مگر یہ کہنا  کہ وہاں سرے سے  اس رجحان کا تصور ہی نہیں ملتا  ہے یہ بات بھی  صریحاً غلط ہے ،ہاں اس ضمن  میں میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ یہ رجحان مخلوط نظام کے مردوں میں نہ  ہونے کے برابر ہے اور خواتین میں نسبتاً  انکے برخلاف کچھ حد تک اکا دکا عام ہے،مگر ایسی لڑکیاں نہایت قلیل ہزاروں میں دو چار ہوتی ہیں اور یہ  زیادہ تر لبرل مغربی فکر کی حامل انا پرست(ہیومن ایگو انفیکٹِڈ )  لڑکیاں  ہوتی ہیں، چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ اس قسم کی لڑکیوں کی ایک خاص مخصوص چال ڈھال ہوتی ہے،عامل و معمول میں جسمانی اور حسن ذوق کی مساوات بھی مفقود ہوتی ہے،انکا اپنے ہم جماعتوں سے تعلق و بندھن بھی کمزور اور دوری پر استوار ہوتا ہے،یہ عموماً کونے کھدرے اور خاموشی میں ڈری ڈری یا بے خوف اس عمل میں مرتکب پائی جاتی ہیں ،خاموش کلاسیں،جھاڑیاں،درخت،اور لیڈیز ٹوائلٹ انکی آماجگاہیں اور سکون خانے ہوتے ہیں۔

ہمیں  یہاں یہ جان لینا چاہیے کہ سائنسدانوں کا ایک طبقہ یہ موقف رکھتا ہے کہ ہم جنس پرستی کا سبب نہ  تو کسی قسم کا کوئی  کسب ہے اور نہ  ہی یہ  ِسرے سے کوئی بیماری ہے یہ امر اس رجحان یا عمل کار کے حامل افراد کے جین یا ڈی۔این۔اے کوڈنگ میں ازلی اور فطری طور پرپایا جاتا ہے جو بتدریج ترقی کرکے خام سے بالغ ہیت اختیار کر لیتا ہے۔ممکن ہے  کہ  کچھ حد تک سائینسدان اس امر میں درست موقف کے حامل ہوں،مگر  یہاں یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ سائینس کی دنیا میں ہر تحقیق کے متضاد موقف پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے کا اینٹی تھیسز ہوتے ہیں،سائینس مسلسل چینج  یا تبدیلی کا دوسرا نام ہے،یہ  ایک خاص محدود و متعین کردہ فلسفیانہ منطقیت کو اپنے مفروضات کے ذریعہ پروان چڑھاتی ہے،اور اکثر ذہنی تخلیقات یا ذہنی موضوعیت کو علمیت کی دنیا میں لانے کے لئے اول مفروضہ گھڑتی ہے پھر اسے ثابت کرنے کے لئے جت جاتی ہے،اور مفروضہ ثابت کرنے میں کتنی دولت،وقت اور محنت خرچ ہوتی ہے یہ ایک الگ بحث کی محتاج ہے۔

جس طرح ہم الہامی خبروں کے لئے انبیا کرام اور ان پر اتری الہامی کتابوں سے رجوع کرتے ہیں ویسے ہی سائینسدان سائنس کے پیامبر ہوتے ہیں یہ ایک خاص قسم کی علمی یا سائنسی ایمانیات پروان چڑھاتے ہیں جسے جدید جمہوری جامعاتی کلچر ترقی پر ایمانیات کے زیر سایہ  مسلسل  مختلف ناموں اور طریقوں سے پروان چڑھاتا  رہتا ہے،چنانچہ اب شعوری اور غیر شعوری اقدار نامہ جو  مغرب کی متعین کردہ معیار بندی کی روشنی میں  متعین ہوتا ہے  ان معیاری اقدروں کی روشنی میں جدید ریاستوں اور سماجوں کو ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ قرار دیا جاتا ہے۔

عین اسی طرح علمی دنیا میں  یہ بات مشہور ہے کہ عمرانیات متعین کردہ اہداف و مقاصد،سروے،سوالناموں سے کسی نتیجہ کا دعوی کرتا ہے،جس میں سروے کردہ افراد کے حقیقی میلانات و رجحانات،سچ و جھوٹ کو فراموش کرکے اسکے بیان کردہ موقف ورجحان کو اصل جان لیا جاتا ہے،یعنی یہ ایک امر تفصیل اور تحقیق کا محتاج ہے کہ سروے ،منضبط ،سوالنامے اور انٹرویو میں جواب دہندہ کتنا سوچ بولا اور کتنی حقیقت چھپائی ہے؟ اسکے برخلاف علمِ نفسیات  اپنے قائم کردہ معیارات ،افکار،اور تحقیقات کے بعد بھی ایک اغلبیت (پروبیبلٹی) میں گم ہوکر کسی  کسی فیصلہ کن  سالِڈ نتیجے  پر پہنچنے سے قاصر رہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply