کرونا وائرس کے اثرات اور چین۔۔منور خان

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دو بڑے شہر شنگھائی اور بیجنگ، جنہیں انسانوں کا جنگل کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ، اس وقت اس جنگل کا سماں پیش کررہے ہیں جہاں شیر کے ڈر سے تمام جانور چھپ گئے ہوتے ہیں اور ایک ایسی خاموشی چھا جاتی ہے جس میں ہوا اور سوکھے پتوں کا شور بھی خوف میں مبتلا کردیتا ہے۔
چین کے مختلف شہروں میں اس وقت   ہُو کا عالم ہے، لوگ گھروں میں محصور ہیں، تمام بازار بند ہوچکے ہیں دفاتر میں  کام بند کردیا  گیاہے، مختلف بڑے برانڈز، مکڈونلڈ، پیزا ہٹ، جنرل موٹر، ایپل، گوگل اور دوسرے بڑے کاروبار مکمل بند ہوچکے ہیں۔
چین ایک ایسا ملک ہے جہاں جمہوریت، آزادی اظہار رائے اور انسانی حقوق کے بارے میں سوچنا بھی ناممکن ہے۔ اگر انہیں دنیا کی ظالم ترین قوم کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، ان سے تو جانور بھی پناہ مانگتے ہیں، یہ بات تو سب ہی اچھی طرح جانتے ہیں کہ چین کے لوگ غذا کےنام پر تقریباً تمام جانور ہی کھاتے ہیں ، اور جس طرح دیکھا گیا ہے کئی جانوروں کو تو زندہ ہی کھا جاتے ہیں کئی وڈیوز ایسی بھی دیکھی گئی ہیں جن میں جانوروں پر ظلم کی انتہا کردی جاتی ہے، اس کے علاوہ چین کے لوگوں کے بارے میں یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ کئی مواقعوں پر مردہ انسان یا نوزائیدہ بچے بھی ان کی خوراک بن چکے ہیں، غرض یہ کہ ایسا کوئی غیر انسانی فعل نہیں ہے جس کی توقع چائنیز سے نہ کی جاسکتی ہو۔ اس کا ایک ثبوت چین میں موجود مسلمانوں پر ظلم کی شکل میں بھی موجود ہے۔

کرونا وائرس، ایک انتہائی خطرناک وائرس ہے جس کا اندازہ سوائے چین کے سائنٹسٹ اور چند حکمرانوں کے علاوہ دنیا میں کسی کو نہیں،
چین میں فیسبک اور ٹوئٹر موجود نہیں وہاں ان کا اپنا سوشل میڈیا ( ویبو، وی چیٹ، کیو کیو) ہے، اور اس پر بھی مکمل حکومتی کنٹرول ہے۔
چونتیس سالہ ڈاکٹر لی وینلیانگ نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک ٹوئیٹ کیا جسمیں کرونا وائرس کے مہلک ہونے  بارے دنیا کو بتانے کا کہا گیا اور ڈاکٹر لی وینلیانگ نے قبل از وقت کرونا وائرس کے بارے میں بھی سوشل ایپ پر کچھ معلومات شئیر کیں تھیں جس کی وجہ سے انہیں گرفتار کیا گیا اور الزام لگایا گیا کہ وہ افواہیں پھیلا رہے ہیں۔

اور کل ان کی اچانک موت ہوگئی۔۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے چین دنیا سے حقائق کیوں چھپا رہا ہے؟
جواب: چین کی حکومت یہ ثابت کرنا چاہ رہی ہے کہ یہ وائرس کوئی وبا نہیں بلکہ امریکہ کی طرف سے کیا جانے والا ایک بائیو لوجیکل حملہ ہے، اور اسی سلسلے میں چین نے ایک درخواست اقوام متحدہ میں بھی جمع کروادی ہے، دوسری طرف امریکہ چین کو تعاون کی پیشکش کررہا ہے اور اپنے لوگ چین بھیجنے اور وائرس کو ختم کرنے کی ویکسین بنانے میں اپنا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کر وا رہا ہے جس کو چین نے قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایسی صورتحال میں چین کے مخالفین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ وائرس چین نے ہی بنایا ہے جو شاید وہ امریکہ اور دوسرے مخالفین کے خلاف استعمال کرنا چاہتا تھا مگر خود اس کا شکار ہوگیا ہے۔
غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق اب تک پچیس ہزار انسان اس وائرس کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں مگر چین کی حکومت یہ بات چھپا رہی ہے اور اب یہ بھی اطلاعات ہیں کہ چین کی حکومت نے اپنی عدلیہ سے ایک درخواست کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وائرس سے متاثر بیس ہزار لوگوں کو مارنے کی اجازت دی جائے تاکہ وائرس مزید لوگوں تک نہ پہنچ سکے۔ شاید ایسا کر کے وہ ان پچیس ہزار لوگوں کو جو پہلے سے ہی لقمہ اجل بن چکے ہیں دنیا کے سامنے ظاہر کرنا چاہتے ہوں۔
ہر گزرتا دن مشکلات میں اضافہ کررہا ہے اگر کرونا وائرس کو قابو کرنے میں چند مہینے اور گزر گئے تو  کرونا وائرس پر چین میں ہی قابو پا لیے جانے اور  دوسرے ممالک پر اس کے اثر انداز نہ ہونے کے باوجود    پوری دنیا پر اس کے بہت خطرناک اثرات ہوں گے، کیونکہ چین پوری دنیا کی معیشت کا حب  (Hub) ہے وہاں مصنوعات بننا بند ہوجاتی ہیں تو اسکی وجہ سے پوری دنیا میں مہنگائی اور بیروزگاری کا طوفان آسکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply