کیا کسی ایپ کو ممنوع قرار دینا مسلئے کا حل ہے؟۔۔عاصمہ حسن

9 اکتوبر 2020 کو پاکستانی حکومت نے ٹک ٹاک کو بظاہر اس کے غیر اخلاقی و غیر معیاری مواد کی وجہ سےممنوع قرار دیا لیکن دس دن بعد اس پر سے پابندی ہٹا دی گئی ـ بالکل اسی طرح دو ماہ قبل پب جی پر بھی پابندی لگا کر ہٹا دی گئی تھی ـ پی ٹی اے نے یقین دہانی کروائی ہے کہ اب ان کی طرف سے کسی قسم کا غیر اخلاقی و غیر معیاری مواد یا وڈیوز نہیں آئیں گی ـ اب اس بات کی کیا گارنٹی ہے ؟

سوال یہ ہے کہ بیشتر لوگ ایسا کام کرتے ہی کیوں ہیں اگر ان کو ایک طرف سے بند کیا جائے گا تو دوسرا کوئی اور راستہ اختیار کر لیں گے، ـ کام وہ یہی کریں گے لیکن طریقہ کار بدل جائے گاـ۔
جب ہم کوئی بھی کام اس کی مقرر کردہ حدود میں رہ کر اچھے طریقے سے کرتے رہیں تو اس میں کوئی برائی نہیں’ لیکن جب اس کا غلط استعمال کرنے لگ جائیں تب مسلئے مسائل پیدا ہوتے ہیں ـ جیسے ہر چیز کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں’ اسی طرح اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں بالکل اسی طرح ہماری اچھی اور بری سوچ ہوتی ہے ـ اب چاہیے تو یہ کہ ہم دنیا کو اپنا اچھا پہلو دکھائیں اور بہتر’ مثبت کام کریں لیکن کچھ لوگوں کو مختصر اور قلیل وقت میں نتائج چاہیے ہوتے ہیں، چاہے وہ بری شہرت ہی کیوں نہ ہو اپنا مقصد پانے کے لئے ہر حد سے گزر جاتے ہیں جس کی وجہ سے غلط اور منفی پہلوؤںکا انتخاب کرتے ہیں ـ ٹک ٹاک کے معاملے میں بھی یہی ہوا کہ سستی’ غیر معیاری اور رات و رات شہرت حاصل کرنے کے چکر میں ہم اپنی تہذیب و تمدن ‘ اخلاقیات اور اپنی قدریں بھول گئے ـ
ظاہر ہے ایک اچھا ‘تعلیمی اور اخلاقی و معلوماتی مواد اتنی شہرت حاصل نہیں کرسکتا نہ اسے کوئی پڑھنا یا دیکھنا چاہتا ہے جتنا کہ غیر اخلاقی اور سنسنی خیز مواد ـ ۔

کسی بھی پلیٹ فارم کی بات کر لیں خاص طور پر سوشل میڈیا’ فیس بک’ انسٹاگرام اور یوٹیوب وغیر ہ کسی کام کی بات یا اچھے لکھے ہوئے یا معلوماتی وڈیوز کو لائیک یا کمنٹ نہیں ملتے اس کے برعکس کسی خاتون کی تصویر یا اخلاق سے گری ہوئی تحریر یا وڈیو کو نہ صرف لائیک و کمنٹ بلکہ شئیر اور فالورز بھی مل جاتے ہیں ـ افسوس کہ یہ ہماری ذہنیت کا معیار ہے ـ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم ان پلیٹ فارمز کو مثبت طریقے سے اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے یا اپنے علم و تجربے کو دوسروں تک پہنچانے اور ان کی رہنمائی کے لئے استعمال کریں لیکن افسوس کہ ہم اس کا غلط استعمال زیادہ کر رہے ہیں ـ۔
اس قسم کی ایپس کے مشہور ہونے کے پیچھے کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک یہ کہ ہمارے پاس انٹرٹینمنٹ کے پروگرام نہیں ہیں جیسے کہ 70 اور 80 کی دہائی میں نیلام گھر اور کسوٹی جیسے پروگرام ہوتے تھے جس کا انتظار کیا جاتا تھا نیلام گھر اور طارق عزیز شو جیسے معلوماتی پروگرام سب گھر والے بیٹھ کر دیکھتے تھے سوالات طارق عزیز ٹی وی پروگرام میں کرتے اور ہم اپنے گھر میں بیٹھے جواب دیتے اور تالیاں بجاتے خوشی کا اک عجیب سماں ہوتا تھا پھر معین اختر’ انور مقصود اور بشریٰ انصاری کی لاجواب اداکاری اور مزاح نے دھوم مچائی ـ۔

پی ٹی وی کے کئی ڈرامے جیسا کہ اندھیرا اجالا’ تنہائیاں ‘ دھوپ کنارے’ وارث  جیسے اور کئی ڈرامے تھے جن کو سارا خاندان ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھا کرتا تھا ـ مزاحیہ پروگرام جیسے ففٹی ففٹی اور سونا چاندی تھے جن کو دیکھ کر کچھ وقت کے لئے ساری پریشانیاں بھول جاتے تھے جبکہ آجکل کے ڈراموں میں ہم اپنی نسلوں کو کیا دکھا رہے ہیں جن میں رشتے ناطوں کو پامال کیا جا رہا ہے ‘ کسی ایک کی بیوی کسی دوسرے کے شوہر کے ساتھ عشق کر رہی ہے ‘ بیوی کی سگی بہن اپنے سگے بہنوئی کے ساتھ رشتہ بنا رہی ہے سازشیں ہیں’ نفرتیں ہیں جو ہم اپنے بچوں کے دماغوں میں ڈال رہے ہیں’ سکھایا جا رہا ہے کہ جھوٹ کیسے بولا جاتا ہے’ بڑوں کے ساتھ کیسے بدتمیزی کی جاتی ہے کیسے نفرتوں اور سازشوں کا جال بچھایا جاتا ہے ـ کیا ایسے تربیت ہوتی ہے ؟ کیا اچھے لکھنے والے ناپید ہو گئے ہیں ؟ کیا یہ ہمارا کلچر ہے ؟ کیا یہ ڈرامے ہمارے مذہب کی عکاسی کر رہے ہیں؟مارننگ شوز کی مثال لے لیں یہ سب کیا دکھا رہے ہیں ـ لمحہِ فکریہ ہے کہجب ہم ایسے پروگرام یا ٹی ویڈرامے بنائیں اور دکھائیں گے تو معاشرے میں کس قسم کی فضا پیدا ہو گی’ ہمارے بچے کیا سیکھیں گے’ ہماری نوجوان نسل کی کس قسم کی تربیت ہو گی ـ۔

ہمیں ملک و قوم کے مستقبل کے مفاد کے لئے مناسب حکمتِ عملی اپنانےکی ضرورت ہے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہےـ،لیکن کسی بھی ایپ کو ممنوع قرار دے دینا مناسب نہیں لوگ کوئی اور طریقہ ایجاد کر لیں گے ـ ممنوع قرار دینے سے اُن لوگوں کا کاروبار یا آمدنی بند ہو جاتی ہے جو اچھا کام کر رہے ہوتے ہیں چند برے لوگوں کی وجہ سے سب کو سزا نہیں ملنی چاہیے بلکہ ہونا یہ چاہیے  کہ ہر چیز کے استعمال کے قوانین بنائے جائیں ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سے سخت سزا دینی چاہیے تاکہ کوئی دوسرا راستہ اختیار نہ کرے اور اپنی حدوں کو پار نہ کرے ـ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مارنگ شوز اور اس جیسے دوسرے پروگراموں کی جگہ معلوماتی’ تعلیم و تربیت اور ہنر سکھانے’ کامیاب لوگوں کے تجربات کے حوالے سے پروگرام ترتیب دینے چاہیے تاکہ معاشرے میں سدھار آ سکے ـ اپنے ڈراموں میں اپنا کلچر و مذہب ‘ عزت و احترام ‘ رشتوں کی اہمیت اور پیار سکھانا چاہیےـ ہماری ذمہ داریوں’ سچ کی جیت ‘ محنت میں عظمت کو اجاگر کرنا چاہیے ـ مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنا چاہیے ایسے پروگرام ترتیب دینے چاہیے جو ہمارے بچوں کے کردار کو سنوار سکیں تاکہ بے راہ روی کی جو فضا پیدا ہو گئی ہے وہ ختم ہو سکےـ ایک بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ جو آج ہم بوئیں گے وہی کل ہم کاٹیں گےـ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کیا کسی ایپ کو ممنوع قرار دینا مسلئے کا حل ہے؟۔۔عاصمہ حسن

Leave a Reply