16 دسمبر آتا رہے گا۔۔محمد منیب خان

منٹو نے لکھا تھاایک آدمی کا مرنا موت ہے اور ایک لاکھ آدمیوں کا مرنا تماشا ہے۔ کیا ایک لاکھ آدمیوں کے ایک ساتھ مرنے سےموت اتنی مضحکہ خیز ہو جاتی ہے؟ چلیں چھوڑیں اس پہ سوچیے کہ حادثے اور سانحے میں کیا فرق ہے؟ فرض کریں ایک کار میں پانچ افراد جا رہے ہیں  اور وہ کار کسی حادثے کا شکار ہو جاتی ہے تو کیا یہ محض حادثہ ہے یا سانحہ؟ آپ اس سوال کا جواب دینے میں شاید کچھ گومگوں کا شکار ہوں۔ چلیں آپ کی آسانی کے لیے اس سوال کی  پرت کھولتا ہوں۔ 

یہ بتائیے اگر یہ پانچوں کار سوار ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں تو گویا ایک مکمل خاندان ہی حادثے کی  نذر ہوگیا، لہذا یہ حادثہ اپنی شدت کی وجہ سے سانحہ شمار ہوگا۔ اگر پانچوں کے پانچوں لوگ  مختلف  خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں تو یہ حادثہ ہوا۔ اب اگر یہ سب لوگ آپس میں 20 سے30 سال کی عمروں کے کزن ہیں تو یقیناً پانچوں گھرانوں کی نوجوان اموات کی وجہ سے یہ ایک سانحہ شمار ہوگا۔

کسی بھی واقعہ کی شدت طے کرتی ہے کہ وہ محض حادثہ تھا یا سانحہ اور کسی حادثے کی نوعیت سے پتہ چلتا ہے اس حادثے سے  بچا جا سکتا تھا یانہیں۔ حادثات سے متعلق مباحث کے جنم لینے سے مستقبل کے حادثوں کو سانحہ بننے سے نہ صرف بچا جا سکتا ہے بلکہ حادثات کا بھی بہت حدتک تدارک کیا جا سکتا ہے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ امریکہ میں آخری بار فضائی حادثہ کب ہوا تھا۔ میری نظر سے ایسی کوئی خبرنہیں گزری کہ یورپ میں آخری بار ٹرین کب پٹڑی سے اتری تھی اور میری یاداشت میں کہیں محفوظ نہیں کہ کینیڈا میں آخری بار کب کوئی بس کھائی میں گری تھی۔ لیکن ایسے سارے واقعات پاکستان کی ہر نسل کی یاداشت کا حصہ ہیں۔

سولہ دسمبر سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ایک ایسا ہی سانحہ ہے۔ جس کے اسباب کو نہ تو عوامی سطح پہ موضوع بحث بنایا گیا اور نہ اس کے نتائج سے سیکھ کر مستقبل کے لیے کوئی پیش بندی کی گئی۔ البتہ ہر سانحہ کے بعد وہی لگے بندھے جملے دہرائے گئے اورکسی گھسے پھٹے عزم کا اعادہ کر دیا گیا۔ لہذا 16 دسمبر 2014 کا دن سقوط ڈھاکہ سے بھی بڑا سانحہ بن کر سامنے آیا۔ میں صدق دل سے سمجھتا ہوں کہ سانحہ اے پی ایس ملک ٹوٹنے سے زیادہ بڑا سانحہ تھا۔ 16 دسمبر 1971 کو ملک دو لخت ہوا تو تھاجس کا ایک حصہ اور اس حصے کے باسی مسلسل نظر انداز ہو رہے تھے۔ البتہ 16 دسمبر 2014 کا سانحہ اس لیے اندوہ ناک تھاکہ اس سے تین نسلیں متاثر ہوئیں۔ ایک وہ نسل جو پھولوں کی طرح تیار ہو کر سکول گئی اور لہو میں نہائے جسم لیے لوٹی۔ اور دونسلیں محض انکی لاشوں پہ بین ڈالنے کے لیے بچیں۔

22 جولائی 2011 کو یعنی کم و بیش سانحہ اے پی ایس سے تین سال قبل ناروے میں بھی کم و بیش ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔دائیں بازو کے حمایتی گروہ نے وزیراعظم کے دفتر میں بم دھماکہ کیا اور پولیس کی وردی میں ملبوس ایک دہشت گرد نے ایک ایسےجزیرے پہ  77 بچوں کا قتل عام کیا ،جو وہاں گرمیوں میں کیمپ لگائے موجود تھے۔ اس واقعہ کے پس منظر پہ “22 July” فلم بنائی گئی۔ یہ فلم بچوں اور بچوں کے والدین کے اس کِرب اور تکلیف کی عکاسی کرتی ہے جو ان چند گھنٹوں میں ان پہ بیتی۔ مزیدیہ فلم منظر کشی کرتی ہے کہ جب  اس دہشت گرد کا ٹرائل ہو رہا ہوتا ہے تو ایک بچہ محض اس لیے اپنے ٹراما سے نکل کر گواہی دیتا ہے کہ اس نے اپنے پیارےدوستوں کو کھویا ہوتا ہے۔ یہ ساری کارروائی بچوں کے والدین کی موجودگی میں ہوتی ہے۔ دہشت گرد ایک موقع پہ عدالت میں بیان دینے کی غرض سے ایک پوری تقریر شروع کرتا ہے جس سے بچوں کے والدین کو شدید تکلیف ہوتی ہے اور وہ اس پہ صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔ بلآخر عدالت اسے عمر قید کی سزا سنادیتی ہے۔ جبکہ ناروے کے وزیراعظم اس واقعہ کی آزادانہ تحقیقات کرواتے ہیں جس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ پولیس کے رسپانس میں بھی کچھ تاخیر ہوئی۔ جس کی ذمہ داری اس وقت کی وزیراعظم نے قبول کی۔ البتہ وزیراعظم کو عوام اور پارلیمان کا اعتماد حاصل رہا۔

ہم نے اپنے سانحات کی کبھی منظر کشی نہیں کی۔ امریکہ سے لے کر یورپ تک بارہا دہشت گردی کے بدترین واقعات ہوئے ہیں۔ نائن الیون کا واقعہ تو کوئی ڈھکا چھپا نہیں۔ اس واقعہ پہ بھی کم و بیش آدھ درجن ڈاکیومنٹریز مل جائیں گے۔ اس کے علاوہ ویت نام جنگ کی ناکامی پہ فلمیں بنیں۔ چرنوبل جیسے حادثات پہ کئی فلمیں اور ڈاکیومنٹری بنیں۔ ناروے کے بائیس جولائی پہ فلم کا احوال میں سناچکا۔ الغرض ایسے سانحات کا بے لاگ احتساب کرنے کے لیے اداروں نے خود کو پیش کیا۔ لیکن ہمارے ہاں کیا ہوا؟ ہم نے بس صدالگائیمجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے۔جبکہ  3 ستمبر 2021 کو ڈان میں شائع  ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 16 سال کی عمر کے تقریباً 32% بچے سکول نہیں جاتے جو کل پاکستانی بچوں کا ایک تہائی بنتا ہے۔

سانحہ بیت جاتا ہے لیکن اس سے متاثر ہونے والے انسانوں کے کرب کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔ سانحہ اے پی ایس کے سات سال گزرنے کے باوجود بھی دو روز قبل بی بی سی اردو پہ ایک مختصر سی ویڈیو میں ایک شہید بچے کی نو عمر بہن آج بھی ایسے رورہی تھی جیسے اس کے  بھائی  کی نعش اس کے سامنے پڑی ہو۔ سوال تو یہ ہے کہ سانحہ سقوط پاکستان سے ہم نے کیا سیکھنے کی کوشش کی؟ کیا ہم نے محض یہ سیکھا کہ ہمیشہ کسی نہ کسی  طرح ہر انکوائری رپورٹ کو دبا دیا جائے تاکہ ہم سے اگلی نسل کہیں اس انکوائری کی روشنی میں بہتر فیصلہ نہ کر سکے۔ ان دونوں سانحات کی تناظر میں فکر فردا کے حوالے سے چند سوالات کااٹھایا جانا بہت ضروری ہے۔ حمودالرحمن کمیشن کی رپوٹ کہاں ہے اور کس درسگاہ میں بطور حوالہ پڑھائی جاتی ہے؟ اگر کسی کومعلوم ہو تو میرے علم میں بھی اضافہ کر دے۔ سانحہ اے پی ایس کے دہشت گرد کہاں ہیں؟ کیا سب کے سب مار دیے گئے؟ کیوں؟ کیایہ بات اہم نہ تھی کہ  ایسی سفاک دہشت گردی کرنے والوں کو زندہ پکڑا جاتا یا انکے ماسٹر مائینڈ کو پکڑا جاتا تاکہ ان کے اصل عزائم کا پتہ چلایا جاتا؟ سکول پہ حملہ کرنے والوں کا اصل مقصد کیا تھا؟ ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کون کر رہا تھا؟ ا س سانحہ پہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کیا کہتی ہے؟ شہید ہونے والے بچوں کے والدین گذشتہ سات سال سے در بدر کیوں ہیں؟ شہداکے لواحقین کیوں کہتے ہیں، کہ گذشتہ سات سال کی زندگی مظاہروں اور میٹنگز میں گزار دی؟ شہدا کے والدین کو عدالت میں ویساانصاف ہوتا نظر کیوں نہیں آیا ،جیسا انصاف ناروے کی عدالت میں ہوا تھا؟ ناروے میں بچوں کا قاتل عمر قید کی سزا بھگت رہا ہے اورہمارے بچوں کے قاتلوں کا ترجمان کس طرح ہماری تحویل سے فرار ہو گیا؟

ملکوں اور قوموں کی تاریخ میں سانحات ہوتے ہیں لیکن قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ ہم نے ان سانحات سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہم دوسانحات کے درمیان اس ایندھن کا اہتمام کرتے رہتے ہیں جس سے اگلا سانحہ جنم لے سکے۔

سعود عثمانی صاحب کا شعر ان دو سانحات کے غم اور کرب کو بخوبی بیان کرتا ہے۔

ہے چین کام میں نہ سکوں ہے گھروں کے بیچ

Advertisements
julia rana solicitors

یہ دن یونہی گزرتا ہے دو خنجروں کے بیچ!

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply