• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نیشنل عوامی پارٹی کے خاتمے کا پروجیکٹ/عامر حسینی

نیشنل عوامی پارٹی کے خاتمے کا پروجیکٹ/عامر حسینی

بلوچستان میں 1974ء سے شروع ہونے والے فوجی آپریشن کے دوران جس بڑے پیمانے پر ماورائے عدالت قتل ہوئے، نیب سے وابستہ سیاسی کارکنوں، مزدور رہنماؤں، صحافیوں، شاعروں ، ادیبوں اور طالب علموں کو گرفتار کیا گیا اور انھیں سکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس اہلکاروں نے ٹارچ سیلوں میں اذیتیں دیں ، قلی کیمپ کے عقوبت خانوں سے جو کہانیاں باہر آئیں اس نے فوج کے خلاف پاکستان کے اندر کافی غم و غصے کو جنم دیا تھا۔

بھٹو دور میں پیپلزپارٹی کے اندر اور باہر سے پنجاب ، سندھ اور صوبہ سرحد / خیبر پختون خوا  میں جو جمہوری ترقی پسند اپوزیشن تھی ،کی سب سے بڑی ترجمان نیشنل عوامی پارٹی تھی ،پر پابندی لگائی جا چکی تھی اور اس کے تمام قابل ِ ذکر مرکزی و صوبائی لیڈر جیل میں تھے اور کچھ زیر ِ زمین تھے ۔اس لیے میدان مذہبی سیاسی جماعتوں اور سینٹر رائٹ کی جماعتوں کے لیے کھلا تھا جو اصل میں فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں اور امریکی سرمایہ دار ی کیمپ کی دلال جماعتیں تھیں ۔

بھٹو صاحب کی قیادت میں پیپلزپارٹی کی حکومت ایک بہت بڑے تضاد میں گھری ہوئی تھی ۔ ایک طرف بھٹو صاحب نے علاقائی اور بین الاقوامی سیاست کے میدان میں تھرڈ ورلڈ میں لیفٹ ونگ پاپولزم کے زیر اثر مسلم ممالک کے اتحاد اور اپنے تئیں انھیں سوویت یونین اور امریکی سرمایہ داری کیمپ کے قطبین سے نکال کر ایک تیسرا بلال تشکیل دینے کا “یوٹوپیائی” ایجنڈا اٹھا رکھا تھا ۔ بھٹو صاحب مڈل ایسٹ کی عرب بادشاہتوں اور عرب قوم پرست بعث ازم کی حکومتوں کے ساتھ مل کر اور مڈل ایسٹ کے تیل کی کمائی سے پاکستان کو جدید اسلامی فلاحی مملکت بناکر مسلم ممالک کے بلاک کے پرچارک بنے ہوئے تھے ۔ دوسری جانب وہ پاکستان کے فوجی اور سویلین سیکورٹی آپریٹس کی مدد سے بلوچستان میں ایک ایسے فوجی آپریشن کا سیاسی چہرہ بنے ہوئے تھے جس نے ملک کے اندر جمہوری اور ترقی پسند حلقوں کے ایک بڑے حصے میں انھیں انتہائی غیر مقبول بناکر رکھ دیا تھا ۔ پاکستان میں امریکی سرمایہ داری کیمپ کے دلال فوجی جرنیلوں پاکستان میں سوویت یونین کی قیادت میں کمیونسٹ بلاک اور ہندوستان سے دوستانہ تعلقات کے حامی طبقات جن کی ترجمانی نیشنل عوامی پارٹی کر رہی تھی اور اس حامی ٹریڈ یونینز اور طلباء یونینز کو کچلنے اور ان کے حامی پریس کو ختم کرنے کے لیے پوری طرح سے استعمال کیا ۔ پاکستان کی معیشت میں اس دور میں ایرانی سرمایہ کاری بڑی اہمیت کی حامل تھی اور فوج کو جدید طیاروں ہیلی کاپٹرز ‘اسلحہ و گولہ و بارود کی فراہمی میں بھی ایران کا بڑا کردار تھا ۔ بھٹو حکومت کے شاہ ایران کے جو سٹریٹجک تعلقات تھے ،اس کی روشنی میں بھی شاہ ایران جو اس وقت خطے میں امریکی چوکیدار کے فرائض سر انجام دے رہا تھا ،کے ذریعے امریکی سرمایہ داری کیمپ سے شاہ ایران کو پاکستان میں نیشنل پارٹی کے بارے میں ملنے والی ہدایات کو نظر انداز کرنا مشکل ہو رہا تھا ۔ جبکہ چین اور سوویت یونین کے درمیان جو جھگڑا چل رہا تھا اس کے تناظر میں چینی اسٹبلشمنٹ کو نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں تھی۔ بھٹو صاحب اور ان کے حامی پریس نے جن میں ایک بڑا سیکشن چین نواز لیفٹ کی طرف جھکاؤ رکھنے والا بھی تھا نیشنل عوامی پارٹی کو سوشل سامراج روس کا ایجنٹ قرار دیا ۔ پیپلزپارٹی میں کنونشن لیگ کی باقیات ، زمیندار اشرافیہ اور 74ء میں بھٹو کے دائیں طرف مزید جھکاؤ سے شروع ہونے والی اسلامائزیشن پر مبنی رجعت پرستانہ اقدامات کو بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ گر دانے والے پنجابی حامیوں کا ایک بڑا سیکشن اور پیپلزپارٹی پنجاب کی حامی پرتوں میں کرش انڈیا اور اینٹی انڈیا کیمپ نیشنل عوامی پارٹی کو غدار ، ہندوستانی ایجنٹ بتلا رہا تھا ۔

بھٹو صاحب کی نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف تقریروں کا ایک بڑا حصہ بھی نیشنل عوامی پارٹی اور اس کے حامیوں کے خلاف اینٹی انڈیا بیانیہ کو ہی تقویت پہنچا رہا تھا ۔ بھٹو صاحب نے نیشنل عوامی پارٹی اور اس کے حامیوں کو ملک کی سلامتی کے خلاف سب سے بڑا خطرہ بناکر پیش کر رہے تھے ۔

بھٹو 74ء سے اس کوشش میں بھی لگے رہے کہ وہ کسی طرح سے اپنے خلاف دائیں بازو کی پروپیگنڈہ اور منظم مہم میں سب سے طاقتور عنصر جماعت اسلامی کی قیادت سے بھی نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف اپنی مہم کے لیے تعاون حاصل کر لیں وہ اس خیال کے اتنے اسیر ہوئے کہ اچھرہ میں مولانا مودودی سے ملاقات کرنے جا پہنچے ۔

بھٹو کے دائیں طرف جھکاؤ کے خلاف خود ان کی پارٹی میں موجود بائیں بازو کے سیکشن جن میں ایک حصہ وہ بھی تھا جو نیشنل عوامی پارٹی (ولی خان) کیمپ سے ان کی پارٹی میں شامل ہوا تھا(پنجاب میں اس کی قیادت محمود قصوری کر رہے تھے) ان سے ٹکراؤ میں آیا تو بھٹو نے انہیں پنجاب کی تنظیم میں بے اثر اور غیر موثر بنانے کے لیے اپنی پارٹی کے دروازے پنجاب کی زمیندار اشرافیہ کے لیے کھول دیے اور 74ء میں پنجاب کے وہ بڑے زمیندار سیاسی گھرانے جنھیں ستر کے انتخابات میں عوام نے بدترین شکست سے دوچار کیا تھا کو بڑی تعداد میں اپنی پارٹی میں شامل کر لیا اور پنجاب میں پیپلزپارٹی کی صدارت بہاولنگر کے ایک بڑے زمیندار سیاست دان میاں افضل وٹو کے سپرد کردی اور پنجاب کی وزرات اعلی ملتان ڈویژن کے اندر برطانوی راج سے چلی آ رہی زمیندار اشرافیہ کے درمیان تقسیم کے ایک کیمپ قریشی گروپ کے سربراہ نواب صادق قریشی کو دے ڈالی اور پنجاب کی پاور پالیٹکس اور پنجاب حکومت کی طاقت کا سب سے بڑا مرکز بھی لاہور اور ملتان میں وائٹ ہاوس کو بنایا۔ پنجاب کی بیوروکریسی اور پولیس کے ذریعے بھٹو صاحب نے اپنی پارٹی کے اندر پارٹی کے دائیں سمت جھکاؤ خلاف لیفٹ اپوزیشن کو بھی غیر موثر بنا کر رکھ دیا ۔ پیپلزپارٹی پنجاب کی پارلیمانی پارٹی ان دنوں پنجاب کی زمینداراشرافیہ کی لونڈی بنی تو اس کے ساتھ ہی پیپلزپارٹی پنجاب کے اضلاع میں پارٹی کی ضلعی تنظیموں میں شیخ محمد رشید، ڈاکٹر مبشر حسن ، خورشید حسن میر کے حامیوں کو بھی نکال باہر کیا گیا۔

بھٹو فوجی جرنیلوں کی جانب سے بلوچستان کی فوجی مہم سے پیدا ہونے والی صورت حال میں فوج کے خلاف نفرت کو بھٹو اور پیپلزپارٹی کی طرف کرنے کی سازش اور منصوبہ بندی کا بر وقت ادراک نہ کرسکے ۔ انھوں نے حیدرآباد جیل میں قید نیپ کی قیادت میں فوجی جرنیلوں کی منصوبہ بندی اور سازش کا سب سے زیادہ اور ٹھیک ادراک رکھنے کمیونسٹ سیاست دان میر غوث بخش بزنجو کی جانب سے نیپ کی قیادت سے مذاکرات کرنے اور بلوچستان میں فوجی آپریشن کو بند کرانے کی تجویز پر عمل کرنے کی بجائے میر غوث بخش بزنجو پر نیپ سے الگ ہونے اور بروٹس بن جانے پر ہی سارا زور صرف کیے رکھا ۔( بزنجو وہ واحد سیاست دان تھے جو پہلے دن سے یہ نظریہ رکھتے تھے کہ فوجی جرنیل پاکستان میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے لیے پی پی پی اور نیپ کے درمیان تصادم کی سازش کر رہے ہیں اور وہ پی پی پی اور نیپ دونوں کو اس راستے پر چلنے سے روکنے کی کوشش کرتے رہے لیکن بھٹو نے 1973ء کے آئین کی منظوری کے ہوتے ہی تصادم کے راستے پر چلنے اور اپنا اقتدار فوجی طاقت کے بل بوتے پر قائم کرنے کا راستا اختیار کیا ۔ بھٹو نے کے پی کے سے اس راستے کے لیے اپنا بازو خان قیوم کو بنایا جسے وہ کبھی ڈبل بیرل خان جیسا جنسیت زدہ لقب جلسوں میں کھلے عام دیا کرتے تھے )۔

1975ء کے آتے آتے بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف اپنے اقدامات سے ایسی فضا پیدا کردی تھی جس سے جرنیلوں کو یہ موقع  ملا کہ وہ بھٹو کی حکومت اور جمہوریت کی بساط لیٹے جانے کے لیے ایک ایسے اپوزیشن اتحاد کی تشکیل کا راستا ہموار کریں جس کی ڈوری پس پردہ ان کے ہاتھ میں ہو اور اسے پنجاب اور سندھ کے شہری مذہبی دائیں بازو اور سنٹر رائٹ جماعتوں کی قیادت کے پاس ہو اور اس اتحاد میں نیشنل عوامی پارٹی کے اندر موجود کمیونسٹ دھڑے کو ہر صورت الگ تھلگ رکھا جائے ۔

کالعدم نیشنل عوامی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کمیونسٹ پارٹی کی نمائندگی سی سی پی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر اعزاز نذیر کرتے تھے وہ گرفتار نہیں تھے ۔

جون 1975ء میں بھٹو حکومت کے خلاف ایک اتحاد تشکیل دیا جا رہا تھا جو متحدہ جمہوری محاذ۔ یو ڈی ایف کے نام سے تشکیل پایا ۔ اس اتحاد کی اصل طاقت پاکستان مسلم لیگ ۔قیوم کے ملک قاسم ، پی ڈی پی کے نوبزادہ نصر اللہ ، جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل ، تحریک استقلال پارٹی کے ائر مارشل (ر) اصغر خان ، جے یو آئی کے مفتی محمود ، جے یو پی کے مولانا شاہ احمد نورانی ، مسلم لیگ آزاد کشمیر کے صاحبزادہ عبدالقیوم ، خاکسار پارٹی کے خان اشرف ، مسلم لیگ کے چوہدری ظہور الٰہی تھے ۔

جون میں کامریڈ رمضان میمن کے بقول کمیونسٹ پارٹی پاکستان کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر اعزاز نذیر نے لاہور میں پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا ایک اجلاس یو ڈی ایف کی لاہور میں کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد سے ایک روز پہلے بلایا گیا اور اس میں ڈاکٹر اعزاز نذیر نے انکشاف کیا کہ امریکی سرمایہ داری کیمپ کی اشیر باد سے پاکستانی فوج کے جرنیلوں نے بھٹو حکومت کا خاتمہ کرنے اور بھٹو کو راستے سے ہٹانے کا منصوبہ بنا لیا ہے کیونکہ بھٹو کو وہ پاکستان میں نیشنل عوامی پارٹی کو ختم کرنے کا کام لے چکے اور بھٹو کی مسلم ممالک کے بلاک کے قیام کی کوششیں امریکی کیمپ کے لیے ناقابل قبول ہیں اور امریکی کیمپ پاکستان میں اپنے جرنیل دلالوں اور ان کے راتب خور سیاسی مذہبی جماعتوں کو بھٹو حکومت کے خاتمے کے لیے استعمال کریں گے ۔ ڈاکٹر اعزاز نذیر کی قیادت میں کالعدم نیپ میں موجود سی سی پی کے اراکین کے ساتھ کل جماعتی کانفرنس میں جرنیلوں کی منصوبہ بندی کو بے نقاب کرنے اور مذھبی جماعتوں کے دلال کردار کو ننگا کرنے کے لیے حکمت عملی تیار کی گئی ۔ لیکن کانفرنس کے پہلے دن اسٹیج پر نہ تو ڈاکٹر اعزاز نذیر کو بیٹھنے کی اجازت ملی اور نہ انھیں تقریر کرنے دی گئی ۔ اسٹیج کے سامنے جب نیپ کے کارکنوں نے ڈاکٹر اعزاز نذیر کی قیادت میں بلوچستان میں فوجی آپریشن بند کرو ، بلوچستان سے فوج واپس بلاو، فوجی جرنیل مردہ باد کے نعرے لگائے گئے تو خاکسار پارٹی کے بیلچہ بردار کارکنوں نے نیپ کے کارکنوں پر بیلچوں سے حملہ کردیا ۔ جس سے ڈاکٹر اعزاز نذیر سمیت کئی کارکن زخمی ہوگئے ۔ دوسری جماعت اسلامی کے کارکنوں نے نیپ کے نعرے لگانے والے کارکنوں کو پیپلزپارٹی کے ایجنٹ قرار دے ڈالا ۔ دوسرے دن نیپ کے مرکزی رہنما اور سینٹ میں ڈپٹی چیئرمین ہاشم غلزئی اسٹیج پر بٹھائے گئے اور انھوں نے نیپ کی طرف سے اپنے علاوہ رفیق کھوسو کو تقریر کی دعوت دی تو جب رفیق کھوسو نے بلوچستان میں فوجی آپریشن بند کرنے ، اسیر قیادت اور کارکنوں کو رہا کرنے اور نیپ کی قیادت پر چل رہے بغاوت و غداری کے خصوصی ٹربیونل کے مقدمے کے خاتمے کی مانگ پر مبنی تقریر کی تو پیچھے سے ان کی قمیض کھینچنے اور انھیں اسٹیج سے اتارنے کی کوشش کی گئی یہاں تک کہ ایک موقعہ پر ڈائس پیچھے کو گرنے لگا ۔ صاحبزادہ عبدالقیوم نے جب فوج کی زیر نگرانی انتخابات کرانے کی قرارداد پیش کرنے کی کوشش کی تو نیپ کے کارکنوں نے شور مچا دیا اور پنڈال میں سے بھی اس کے خلاف آوازیں آنے لگیں تو ملک قاسم نے نیپ کے لوگوں سے کہا وہ نیچے بیسمنٹ میں بیٹھ کر بلوچستان میں فوجی آپریشن بند کرنے سمیت اپنے دیگر مطالبات پر مشتمل قرارداد تیار کریں اور وہ نیپ کے لوگوں کو نیچے لے گئے اور خود اوپر جاتے ہوئے باہر سے کنڈی لگا گئے ۔ اس دوران یو ڈی ایف کے زیر انتظام کانفرنس میں صاحبزادہ عبدالقیوم کی قرارداد پاس کر لی گئی اور اس کے فوری بعد نوابزادہ نصر اللہ خان کی صدارتی تقریر کرواکے کانفرنس ختم کردی گئی ۔ یوں یو ڈی ایف کو جرنیلوں نے اپنے کنٹرول میں رکھنے میں کامیابی حاصل کر لی اور ولن بننے سے اپنے آپ کو بچا لیا ۔

ڈاکٹراعزاز نذیر نے کالعدم نیپ کی جانب سے قرارداد کے متن پر مشتمل پریس ریلیز اخبارات کو بھیجی لیکن سب اخبارات نے فوج کے زیر نگرانی انتخابات کرانے کی قرارداد پر مشتمل یو ڈی ایف کی طرف سے جاری پریس ریلیز کو صفحہ اول پر شہ سرخی کے ساتھ شایع کیا اور جو کچھ نیپ کے کارکنوں کے ساتھ ہوا اسے رپورٹ نہیں کیا جبکہ اعزاز نذیر کی پریس ریلیز کو ایک اور دو کالمی سرخی کے ساتھ غیر غیرنمایاں کرکے شائع  کیا ۔

ایک طرف فوجی جرنیل پاکستان میں بھٹو حکومت کے خاتمے کی منصوبہ بندی اور پاکستان میں مذہبی اور سنٹر رائٹ سیاسی جماعتوں کی قیادت میں بڑی تحریک چلانے اور بھٹو کو بلوچستان آپریشن کا واحد ولن قرار دینے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے تو دوسری جانب بھٹو کے پنجاب کے چیف منسٹر نواب صادق قریشی کے گھر پر نواب صادق قریشی کی وساطت سے کورکمانڈر ملتان جنرل ضیاء الحق کو ملک کی مسلح افواج کا نیا سربراہ بنانے کے لیے بھٹو سے جنرل ضیاء الحق کا ایک مرنجان مرنج فوجی افسر کے طور پر تعارف کرایا جا رہا تھا جسے تابعداری اور اطاعت میں بے مثال بنا کر پیش کیا جا رہا تھا ۔
ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیاء میں تابعداری اور اطاعت شعاری کچھ اس طرح سے بھائی کہ ایک طرف تو انھوں نے اپنے سب سے معتمد اور انتہائی وفادار اس وقت سبکدوش ہونے کی تیاری کر رہے مسلح افواج کے سربراہ جنرل ٹکا خان کے تفصیلی نوٹ اور سفارشات کو بالکل نظر انداز کردیا تو دوسری جانب انھوں نے ٹکا خان سے اس معاملے پر مشاورت تک نہ کی ۔ وہ جنرل ضیاع الحق کے بارے میں یہ بھی بھول گئے کہ فلسطینیوں کے قتل عام میں ملوث اس وقت کے بریگیڈیئر ضیاع الحق کو کورٹ مارشل سے بچانے کی سفارش ان کے خلاف مبینہ سازشیں کرنے والے اور انھیں بنگلہ دیش بنانے کا ذمہ دار قرار دینے والے جنرل گل حسن نے کی تھی ۔

مجھے یاد آیا کہ بھٹو نے جماعت اسلامی کو خوش کرنے کے لیے پنجاب یونیورسٹی میں یونین الیکشن میں جماعت اسلامی کے طلباء ونگ اسلامی جمعیت طلباء کو یونین انتخابات دھاندلی اور دھونس سے جیتنے کا موقع   بھی فراہم کیا تھا ۔

بھٹو نے کراچی میں دو فیکٹریوں پر چین نواز ٹریڈ یونینسٹوں کے قبضے کے ایڈونچر کی سزا بھی نیشنل عوامی پارٹی کی حمایت یافتہ نیشنل ٹریڈ یونینز فیڈریشن اور فیکٹریوں میں اس کی حمایت یافتہ سی بی اے یونینز کے خلاف پولیس آپریشن ، لیبر ڈپارٹمنٹ اور نئے ادارے این آئی سی آر ( جس کا چئیرمین مولوی مشتاق) کی کارروائیوں کے ذریعے دی تھی اور جب نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگی تو کراچی میں ایمپریس مارکیٹ صدر کی گھڑیالی بلڈنگ میں قائم پاکستان ورکرز فیڈریشن مرکزی دفتر کو سیل کردیا گیا اور وہاں پر موجود کراچی کی فیکٹریوں میں اس سے الحاق رکھنے والی ٹریڈ یونینوں کا سارا ریکارڈ قبضے میں لیا گیا اور اس ریکارڈ میں موجود مزدور یونینوں کے کارکنوں اور عہدے داروں کو غدار اور ایجنٹ قرار دے کر جیلوں میں بند کردیا گیا جبکہ درجنوں مزدور کارکنوں کو زیر زمین جانے پر مجبور کردیا گیا ۔ یہ کراچی میں ترقی پسند سیاسی باشعور کارکنوں پر سب سے بڑا کریک ڈاؤن تھا ۔

پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کے دوران سندھی لینگویج بل آنے کے بعد سے سندھ میں خاص طور پر کراچی کے تعلیمی اداروں اور کارخانوں طالب علموں اور مزدوروں کو نسلی و لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے اور ان میں دوریاں بنانے کا عمل شروع ہوچکا تھا جس کے خلاف جام ساقی سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن بناکر سندھی اور اردو بولنے والے طالب علموں میں یک جہتی اور اتحاد بنائے رکھنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے تھے اور پاکستان ورکرز فیڈریشن کراچی ، حیدر آباد میں مزدوروں کو تقسیم ہونے سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے ۔ لیکن اس وقت سندھ کے چیف منسٹر ممتاز بھٹو درپردہ جئے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی تعلیمی اداروں میں سرپرستی کرنے میں مصروف تھے ۔ کراچی اور حیدرآباد میں جماعت اسلامی کی حمایت یافتہ پاکٹ ٹریڈ یونینز مزدوروں کو پہلے مذہبی بنیاد پر تقسیم کر رہی تھیں اب وہ اردو اسپیکنگ مہاجر شاونزم کو بھی ہوا دے رہی تھیں ۔

اس زمانے میں کراچی میں نیپ بھاشانی کے سابق جنرل سیکرٹری محمود الحق عثمانی بھی مہاجر شاونزم کا جھنڈا اٹھا چکے تھے اس سے نیپ میں سی پی پی کے زیر اثر کام کرنے والی ٹریڈ یونینز کا نسلی و لسانی شناختوں سے ماورا مزدور ایکتا کے نعرے کے تحت کام بہت مشکل ہوتا جا رہا تھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

74ء سے 77ء تک کا پرآشوب دور کراچی کی سیاست کو بنیاد پرستی اور مہاجر نسل پرستی کی طرف بتدریج دھکیل رہا تھا ۔ نیشنل عوامی پارٹی کے خاتمے کا پروجیکٹ پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کے لیے ہی زہر قاتل ثابت نہیں ہوا بلکہ اس نے آخرکار پاکستان میں جمہوریت کی بساط لیٹنے اور پاکستان کے سب سے بدترین اور گھٹیا مارشل لاء کی تاریک رات کو مسلط کرنے کا کام بھی سر انجام اور جرنیل بھٹو کو پھانسی چڑھانے میں بھی کامیاب رہے ۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply