یہ لاہور شہر کے گلیوں کوچوں میں پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے دوہرا ووٹ کے تین نکاتی مطالبے کے جائزے یہ کیوں ضروری ہے؟ ۔ اور کیسے ممکن ہے کی آگاہی مہم چلاتے تحریک شناخت کے بے لوث رضاکار ہیں۔انھیں پتہ ہے۔کہ اس مہم کے عوض نہ انھیں کسی یوسی وارڈ کا کونسلر سے لے کر ایم این اے تک بننے جیسے کسی عوامی عہدے تک پہنچنا ہے۔ نہ کوئی دیگر ایسا فائدہ اٹھانا ہے۔بس لوگوں کو باخبر کرنا ہے ۔کہ 78سال میں 15انتحابات میں 5بار تم پر 3انتخابی نظاموں کے تجربات کئے گئے ہیں ۔ان میں یہ یہ خامیاں اور خوبیاں تھیں۔انکی روشنی میں یہ تین نکات پر مبنی مطالبہ ولالحہ عمل تیار کیا گیاہے ۔ جو کہ پاکستان کے معروضی سیاسی ؤ معاشرتی حالات کے مطابق ہے ۔۔
شرم کی بات یہ ہے ۔کہ لاہور آبادی کے اعتبار سے پاکستان میں اقلیتوں کا سب سے بڑا ضلع ہے ۔جہاں 30اگست 2022کے الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق مجموعی طور پر 352606ووٹرز ہیں جن میں 336139 مسیحی 18088قادیانی 1128بہائی93ہندو 83سکھ61پارسی 12بدھسٹ ہیں ۔۔ لاہور کی سات تحصیلوں میں اقلیتی ووٹرز کی تعداد کچھ یوں ہے لاہور کنٹونمنٹ 17989 لاہور کینٹ 23548لاہور سٹی 77381ماڈل ٹاؤن 123736رائیونڈ 25027 والٹن کینٹ 40518 ہے ۔ پاکستان میں آبادی سے ووٹوں کا تناسب تقریبا ً پچاس پچاس ہے ۔اس حساب سے یہ آبادی تقریبا ًسات لاکھ ہونی چاہیے جو اب 2023 کے آخر تک یقیناً بڑھ کر آٹھ لاکھ ہو چکی ہوگی۔۔ اور ووٹرز تقریبا ًچار لاکھ ہو چکے ہونگے ۔ اس میں 95 فیصد آبادی مسیحوں کی ہے ۔ جن کے لاکھوں نہیں تو ہزاروں مذہبی، سیاسی ؤ سماجی ورکر جن میں سے ہر کوئی راہنمایی جیسے عظیم منصب کا دعویدار ہے ۔ اس شہر میں بستے ہیں، انکے سینکڑوں ہزاروں ادارے بھی ہیں ۔ لیکن اس شہر میں سب سے پہلے فادر برنارڈ عنایت پھر کمانڈر سلیم میتھوز ،کرنل الیاس عظیم، کرنل البرٹ نسیم ،عامر عبداللہ۔پاسٹر اگسٹن ،دلنشین عبید اور ان کے مددگاروں کے علاؤہ بہت کم لوگ ایسے ہونگے جنہوں نے تحریک شناخت کے پیغام “انضمام بذریعہ شناخت برائے ترقی وبقاء”کو منظم طریقے سے اقلیتی سماج میں پھیلانے کی سعی کی ہو ۔۔ جبکہ ہزاروں لاکھوں لوگ صرفِ اسی شہر سے تحریک شناخت کے اغراض و مقاصد کو سراہتے ہیں۔ جبکہ ان اغراضِ ومقاصد کے حصول کے لئے لکھی گئی کتب کی معلومات کو 98فیصد اپنی اجتماعی شناخت قرار دے کر پھولے نہیں سماتے ہیں۔گوکہ تحریک شناخت کا انتخابی سیاسی ایجنڈا نہیں لیکن تحریک شناخت کے ذمدار اس بات پر متفق ہیں ۔کہ انصاف پر مبنی شفاف انتخابی نظام اس ملک کی اقلیتوں کے سماجی معاشرتی وسیاسی مسائل کے حل کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے ۔کہ یہ بات تحریک شناخت کے رضا کار انتہائی منظم طریقے سے ذمہ دارین اور متاثرین تک پہنچا رہے ہیں۔۔ لیکن اوپر تحریک کے رضاکاروں جنہوں نے تحریک کے پیغام انضمام بذریعہ شناخت برائے ترقی وبقاء کو بڑی تندہی سے مسیحی سماج میں پھیلایا ہے ۔اس انتخابی نظام کی مہم میں کیوں حصہ نہیں لے رہے یا اگر مسیحی متفق ہیں تو وہ متحرک کیوں نہیں اسکی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں ۔
1.کمانڈر میتھوز ، فادر عنائیت برنارڈ ، بیرون ملک شفٹ ہوچکے ہیں جبکہ کرنل البرٹ بھی اکثر بیرون ملک ہوتے ہیں ۔کرنل الیاس عظیم چرچ آف پاکستان سے منسلک ہیں نوکری کی اپنی حدود وقیود ہوتی ہیں ۔ عام آدمی کو تھانے کچہری کی سیاست والا ٹور ٹپہ چاہیے ۔ پاکستان کے مسیحیوں کے معروضی سماجی حالات پر مذہب کی گہری چھاپ کی وجہ سے اس مذہبی گروہ کے سیاسی ورکروں کا شدید فقدان ہے۔ اگر کچھ ہیں تو وہ بھی انسان ہیں انکی انسانیت کے تقاضے قومی پارٹیوں کی دس نمبر سطع کی قیادت پورے کردیتی ہے۔ اس پر میں تفصیلی جڑانوالہ کے پس منظر میں لکھے گئے مضامین میں لکھا تھا ۔۔ اسکے باوجود یہ مکمل لالحہ عمل و مطالبہ کتابی صورت میں اردو اور سندھی میں چھپ چکا ہے۔ جس کے بارے میں آگاہی دنیا بھر تحریک شناخت کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بے لوث رضا کار کتابوں ،کتابچوں ،قومی و کمیونٹی کے اخبارات ،رسائل ،پوسٹرز ،وڈیو کلپس ٹی وی انٹرویوز،سیاسی، حکومتی ، ریاستی و دانشور اشرفیہ کو خطوط ودیگر ذرائع سے تقریبا ً دہائی سے متاثریں و ذمہ دارین دونوں فریقوں کو دے رہےہیں۔ لیکن یہ کوشش اب تک بظاہر نتیجہ خیز کیوں نہیں ہوئی بظاہر اس لئے کہ متاثرین کی حد تک آگاہی کی سطح کافی بلند ہوئی ہے ۔۔لیکن اس جواب سے پہلے میں
میں آپکو بتاتا ہوں ،کہ میں نے اب تک بیک ڈور یعنی پچھلے دروازوں سے کیا کوشش کی کہ اس ملک کی اقلیتوں کے لئے موجودہ دوہری نمائندگی والے انتخابی نظام کو دوہرے ووٹ سے مشروط کرکے اقلیتوں کے لئے قابل قبول بنا دیا جانے کے لئے کیا کوششیں کی ہیں۔ سب سے پہلے تو پس منظر میں کی جانے والی اعلیٰ سطح کی کوشش یہ تھی ..کہ ماضی قریب کی مقتدرہ میں شاملِ ایک اعلیٰ عہدیدار مسیحی جو مقتدر ترین اعلیٰ قیادت کے قریب تھے.. ان سے گزارش کی کہ وہ صاحب سے بات کریں۔ جہاں سے بات کرنے کا مثبت جواب آیا ۔
تحریک شناخت کی ایک رضا کار نے سابقہ وزیراعظم نواز شریف سے برطانیہ سے آنے سے پہلے وہاں ملاقات کی ۔جس کے ریفرنس سے میں اقلیتی کوآرڈینیٹر سابقہ ایم پی اے ن لیگ کی اقلیتی کوآرڈینیٹر راحیلہ سے بات کی پھر میں نے سہیل وڑائچ سے اپنی یاد اللہ کے حوالے سے پوچھا، چوہدری صاحب آپ بتائیں کہ نواز شریف کو ان کے مفاد میں مشورہ آپ دیں تو کارگر ہوگا یا عرفان صدیقی صاحب کے کہنے سے یہ بیل منڈھے چڑھے گی؟ انھوں نے کہا عرفان صدیقی صاحب کے کہنے سے۔انھوں نے صدیقی صاحب کا نمبر بھی عطا کیا ۔۔ میں نے بات کی ،اتنے بڑھے شاعر لکھاری نے کہا کہ وائس میسج کر دیا ۔ میرے رئیل اسٹیٹ کے دوست محمد ندیم قاسم خان صاحب نے میری سابقہ پی ٹی آئی ایم این اے کھوکھر سے بات کروائی اور انھوں نے خود پی ٹی آئی کی محترمہ عندلیب سے لابنگ کی، جس نے بقول ندیم خان صاحب سابقہ وزیراعظم عمران خان سے بات کی ، انکا جواب بھی مثبت تھا ۔ سیاسی حکیم (ڈاکٹر نہیں) کیونکہ ڈاکٹر مرض کا نہیں فوری تکلیف کا علاج کرتے ہیں فرخ سہیل گوئندی کے تعاون سے میں یہ مقدمہ بابر اعوان کو ٹیلیفون پر پیش کیا ۔ معتدد پی ٹی آئی اعلیٰ عہدے داروں سے گوشی نے ٹیلیفون پر کانفرنس کالز کروائیں ۔انھیں ضمنی انتخابات میں اس اعلان کے متوقع فوائد سے آگاہ کیا۔ معتدد قومی پارٹیوں کے اقلیتی ونگز مسیحی وہندو راہنماؤں میں جن میں کھیل داس کوہستانی ، جے پرکاش ، دسیوں ودیگر کو کہا کہ اپنے پارٹی لیڈروں کو 20 سندھ ،پنجاب کی قومی اور 50صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر یقینی کامیابی کی نویدِ سچے حقائق ؤ شواہد سے سمجھاؤ ۔ جب کہ تمھارے پارٹیوں کے مالکان و راہنما ایک ایک سیٹ کے لئے کیسے کیسے الحاق کر رہےہیں تو یہ بےضرر سستا آسان فارمولا بھی آزما لیں۔اس میں تو صرفِ یہ کہنا ہے ہم اقتدار میں آکر اقلیتوں کے لئے شفاف اور انصاف پر مبنی انتخابی نظام وضع کریں گے ۔
تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں