ایک خوبصورت ملاقات/ڈاکٹر راؤشاہد

غیر روایتی انداز سے گفتگو کا آغاز ہُوا، بولنے والے کے الفاظ میں اتنی تاثیر تھی کہ میرے سوالات خود بخود بننے لگے، کبھی خوشی اور کبھی حیرانگی کہ کیا قسمت ہے بہاولپور شہر کی کہ ایک تعلیمی ادارے کے سربراہ کی وجہ سے شہر کی دہائیوں پر محیط محرومیوں کا ازالہ ہو رہا ہے۔ صرف ساڑھے تین سال پہلے دور دراز علاقے کی سمجھی جانے والی یونیورسٹی پاکستان کی جامعات میں تو نمایاں ہو ہی چکی ہے اب ورلڈ رینکنگ میں جگہ بنانے لگی ہے۔

چند سال قبل جو خواب صرف خواب ہی لگتے تھے گزشتہ 3 سالوں کی کارکردگی دیکھتے ہوئے وہ تیزی سے حقیقت کا روپ دھارنے لگے ہیں۔ معاشی حالات سمجھنے والے لوگ اعداد و شمار سے اور عام لوگ مارکیٹ میں ہونے والے کاروبار روزانہ کی سیل اور آمدنی سے ملکی اور شہر کے معاشی حالات کا اندازہ لگاتے ہیں۔ بہاولپور شہر کو جب موٹروے سے کاٹ دیا گیا اور شہر کا کاروبار بُری طرح متاثر ہو گیا اور بہت سے کاروبار ہمیشہ کیلئے بند ہو گئے تو اللہ تعالی نے ایک مسیحا کو اسلامیہ یونیورسٹی کا سربراہ بنا کر بہاولپور بھیجا، جس کے ویژن کی بدولت پاکستان بھر سے آئے 50 ہزار سے زائد طلباء اور انکے خاندان شہر کی معیشت میں حصہ ڈالنے لگے، جو اس حصّے سے کہیں زیادہ تھا جو مہنگائی اور موٹروے کے روٹ پر بہاولپور کے نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ طلباء کی تعداد بڑھانے پر کچھ حلقے اعتراضات اٹھا رہے تھے لیکن ویژن رکھنے والے وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب یہ جانتے تھے کہ اس اضافے کے جہاں طلبا اپنی تعلیمی قابلیت بڑھا کر ثمرات حاصل کریں گے وہیں یہ تعداد شہر کی ترقی میں بھی حصہ ڈالے گی۔

اور پھر یہی ہُوا ،دیکھتے ہی دیکھتے یونیورسٹی کی تعداد 15 ہزار سے 65 ہزار تک جا پہنچی ہے ۔ مشکل سے 6 سے 8 گھنٹے ہونے والا کاروبار 18 سے 24 گھنٹے پر چلا گیا۔ شہر میں جا بجا ہوسٹلز بننے لگے۔ کاروباری حضرات نے بہاولپور کا رخ کیا اور بڑے بڑے پلازے اور مالز آباد ہو گئے۔ بہت سی خواتین نے گھر کے اندر رہتے ہوئے کھانے پکانے اور کپڑوں کے کاروبار شروع کر دیے۔ اور بہت سے پرانے ہوٹل 24 گھنٹے چلنے لگے،پاکستان کے بڑے شہروں کے بہت سے برینڈز نے اپنے آؤٹ لیٹس بہاولپور میں کھول دیے ،بہت سی نئی بس سروسز نے دور دراز علاقوں بہاولپور کیلئے نئے روٹس کھول دیے   ۔ اور سب سے بڑھ کر ان معاشی سرگرمیوں کو انجام دینے کیلئے ہز اروں نئی نوکریاں پیدا ہوئیں جو بیشتر تو بہاولپور کے لوگوں نے پوری کیں اور کچھ لوگ دوسرے شہروں سے روزگار کی تلاش میں بہاولپور آگئے۔

یہ اس ویژن کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے جو آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ جامعہ بہاولپور کو ایک خاص مقام حاصل ہو چکا ہے پاکستان کے بڑے لیڈران اتنی بڑی تعداد میں موجود طلبا  سے بات کرنے کی خواہش میں بہاولپور کے دورے کرتے ہیں ۔پاکستان اور دنیا بھر سے بڑے سکالرز بخوشی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا دعوت نامہ قبول کرتے ہیں اور یہاں کے طلبا تک اپنا ویژن اور زندگی کے تجربات پہنچاتے ہیں۔ یہ سب کمال اس تعداد کا ہے  جس کو ایک خاص سوچ اور ویژن نے پروان چڑھایا۔

دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے اس بڑی تعداد کیلئے ہنگامی طور پر یونیورسٹی کا انفراسٹرکچر بڑھایا۔ طلبا  کو یونیورسٹی تک پہنچانے کیلئے بسوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا، بسوں کے روٹس کو بڑھا کر قریبی شہروں تک پہنچا دیا گیا۔ آس پاس کے شہروں میں تین نئے کیمپس کھولے جارہے ہیں تاکہ طلبا کو تعلیمی سہولیات ان کے اپنے شہروں تک میسر آجائیں۔ بہاولپور شہر کی ترقی ڈسٹرکٹ سے ہوتی ہوئی پورے ڈویژن تک جا پہنچے گی۔ نئی بلڈنگز اور ہوسٹلز تعمیر ہو رہے ہیں۔ کلاس رومز اور لیبز بنائی جا رہی ہیں۔ میڈیا اینڈ کمیونیکیشنز ڈیپارٹمنٹ میں ایک سٹیٹ آف دی آرٹ ٹی وی سٹوڈیو بنایا گیا ہے جہاں طلبا  پروفیشنل ٹریننگ حاصل کر رہے ۔ یونیورسٹی کے چاروں طرف 11 سے 12 کلومیٹر پر محیط خوبصورت ٹریک،  کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن ، ایمفی تھیٹر، سٹوڈیوز، کمیونٹی براڈ کاسٹنگ ، پرفارمنگ آرٹس سوسائٹی، سڑکیں ، یونیورسٹی کے اند ر اور باہر ہوسٹلز ، بلڈنگز کے نئے بلاکس وسیع لانز شاپنگ مالز تمام فیکلٹیز ڈیپارٹمنٹس اور بلڈنگز کا ایکدوسرے سے ٹف ٹائلز اور سڑکوں سے رابطہ ،نرسنگ کالج، ویٹرنری اور ایگریکلچر کے شعبہ جات میں جدت ، نئی لیبز کا قیام، فیکلٹی اور انتظامی عملے کی تعداد میں طلبا  کی تعداد کے تناسب سے اضافہ سینکڑوں نئے پی ایچ ڈیز فیکلٹی ممبران اور موجودہ فیکلٹی کا ڈاکٹریٹ حاصل کرنا اسی ایک ویژنری شخصیت کے مرہون منت ہے۔

وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب ایک بات اکثر کہتے ہیں کہ تنقید کرنے والے اپنا کام کرتے ہیں اور آپ کو اپنا کرنا ہے آپکا بہترین کام ہے حصہ ڈالنا ،اپنے حصے کا دیا جلاتے جائیں ایک دن وہ دیا پوری دنیا کو روشن کردے  گا۔ اس ساری ترقی کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور خود اپنے وسائل پیدا کرکے یہ کام کر رہی ہے۔ بہت سے پروجیکٹس ایسے ہیں جن کے ثمرات آنے والے سالوں میں یونیورسٹی کو ملیں گے جیسا کہ یونیورسٹی کا اپنا شمسی توانائی پر چلنے والا پلانٹ جس سے یونیورسٹی نے بجلی کا بل کم کر دیا ہے اگلے فیز میں یہ مکمل طور پر یونیورسٹی کے الیکٹریسٹی کے اخراجات اٹھا لے گا۔ یونیورسٹی کا زرعی رقبہ جو پہلے کوڑیوں کے بھاؤٹھیکے پر جاتا تھا وہاں باغات اور ریسرچ کے بعد زیادہ پھل دینے والے باغات لگا دیے گئے ہیں جن کی بدولت اگلے چند سالوں میں یونیورسٹی کی صرف زرعی رقبے سے آمدنی کروڑوں میں چلی جائے گی۔

عموماً اس طرح کا ویژن پرائیویٹ سیکٹر میں پایا جاتا ہے جو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کے پاس ہے جس سے پرائیویٹ سیکٹر اپنے کاروبار کو ترقی دیتا ہے۔ اسی لیے بدقسمتی سے آج تک پاکستان کا کوئی سرکاری ادارہ مثال نہیں بن سکا جبکہ پرائیویٹ سیکٹر سرکاری اداروں سے کہیں کم وسائل اور مسائل کے باوجود ترقی کی منازل طے کرتے ہیں اور ان کے مالکان اور ملازم اس ترقی کے ثمرات حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے سامنے ادارے اور ان کا تقابل موجود ہے۔ پاکستان سٹیل مل بند پڑی ہے جب کہ چند مرلوں پر چلنے والی پرائیویٹ سٹیل ملز کروڑوں روپے کما رہی ہیں۔

پاکستان ریلوے ، پی آئی اے، پی ٹی سی ایل، واپڈا، پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان، سرکاری سکول و کالج، ڈاکخانہ  ، سرکاری ہسپتال جبکہ ان کے مقابلے میں اگر ہم پرائیویٹ ادارے دیکھیں ڈیوو، فیصل موورز، جیز، وارد، ٹیلی نار، پرائیویٹ آئی پی پیز اور پاور ہاؤس، پرائیویٹ ٹی وی چینلز، ایف ایم، بیکن ہاؤس،   ایل جی ایس روٹس جیسے پروئیویٹ سکولز، ٹی سی ایس اور پرائیویٹ ہسپتال ۔ اگر دیکھا جائے تو اوپر بیان کیے گئے تمام سرکاری اداروں کے وسائل اور انفراسٹرکچر سرکاری اداروں کے مقابلے میں ہزراوں گنا کم ہے لیکن کامیابی اور ترقی میں وہ سرکاری اداروں سے کہیں آگے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب ہم واپس اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی طرف آتے ہیں اللہ تعالی نے قسمت سے یونیورسٹی اور بہاولپور شہر کو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کی شکل میں ایک ایسا مسیحا عطا کیا ہے جو اس مادر علمی کو ترقی شہرت اور بہترین رینکنگ کے اعلی معیار تک لے جانے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں اور انکی گزشتہ ساڑھے تین سال کی کارکردگی اس کا مکمل ثبوت ہے کہ اگر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کو میسر رہے تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان میں کسی سرکاری ادارے اور اسکی وجہ سے اس شہر کی ترقی کی مثالیں دی جائیں گی۔ اگرچہ آج میں بات لیڈر شپ اور ڈاکٹر اطہر محبوب کی شخصیت کے ایک اور پہلو پر لکھنا چاہتا تھا جن پر میری گزشتہ روز ملاقات میں گفتگو ہوئی لیکن میرے جذبات قلم کو گھسیٹ کر اس ترقی پر لے آئے جو ہر درد مند اور تعلیم دوست پاکستانی کا خواب ہے۔ انشاءاللہ اس پر پھر کبھی لکھوں  گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ایک خوبصورت ملاقات/ڈاکٹر راؤشاہد

Leave a Reply