ہم کہاں جارہے ہیں۔۔۔۔ناصر خان ناصر

پاکستان میں بے حس وحشی درندوں کا ہجوم قانون اپنے ہاتھ میں لے کر انسانوں کو مار مار کر ان سے زندگی چھین لیتا ہے اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ نہ اندھا قانون حرکت میں آتا ہے، نہ مذہبی، سماجی یا سیاسی پارٹیاں۔ حکومت آنکھوں پر ہاتھ رکھے کانوں میں تیل ڈالے بے حس چُپکی پڑی رہتی ہے۔ سیاست دان چُپ شاہ کا روزہ رکھ لیتے ہیں۔ مذہبی راہنماؤں نے گونگے کا گُڑ کھا رکھا ہے۔

سخت افسوسناک۔۔۔۔۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟
کراچی میں ایک نہتے بچے کو ہجوم نے مار مار کر ہلاک کر دیا۔
یہ کوئی پہلا اندوہناک واقعہ بھی نہیں ہے۔ مشعال کاقتل ہو یا کراچی میں مرنے والے وزیرستان کے خوبرو نوجوان کی ہلاکت، قصور و ساہیوال کے کیس ہوں یا افغان بچی فرشتہ کا اغوا و قتل۔۔۔ معاشرے کا بھیانک روپ دیکھا نہیں جاتا۔ ہر طرف افراتفری، دہشت اور وحشت کا بھیرو ناچ رہا ہے۔ خون کی پیاسی کالی دیوی اپنے بال کھولے رقصاں ہے۔ کیا یہ ہمارا پیارا پاکستان ہے؟
اس سے قبل بے شمار واقعات ایسے ہوئے اور کسی کو عبرت ناک سزا نہیں ملی۔ خود حکومت کے اپنے لوگ بھی اس حمام میں ننگے ہیں۔ سانحہ ساہیوال پر عبرت ناک خاموشی اور اسے سرد خانے میں ڈالنے کا نتیجہ اس شعلے کے جنگل کی آگ میں پھلینے کی صورت برآمد ہوا ہے۔

جب سے یہ خبر پڑھی ہے، اداسی کی بِنا پر منجمد ہو گئے ہیں، دل شل ہو کر رہ گیا ہے۔
کیا خبر یہ بچہ بھوکا ہو؟
یا غریب سے بوڑھی ماں کی بھوک ،بیماری نہ جھیلی جاتی ہو، اس کی دوا ءکے لیے مجبوراً چرانے نکلا ہو؟
بے چارے نے آخر کیا ایسا کوئی خزانہ چُرا لیا تھا کہ اس سے زندگی جیسی قیمتی شے ہی چھین لی گئ؟
اتنا سوکھا سڑا سا تو تھا غریب۔۔۔۔
پاکستان اب ایک جنگل بن چکا ہے، جہاں درندے ہی بستے ہیں ۔
درندوں کی چیر پھاڑ پر کیسا رونا؟
اگر قیامت آئی تو یقیناً پاکستان سے ہی شروع ہو گی۔
یہ ایک انتہائی سخت افسوس ناک واقعہ ہے۔ ان دو عفریتوں کے ساتھ ساتھ اس مار کٹائی اور اجتماعی قتل میں شریک ہونے والے تمام لوگوں کو سخت سزا جلد از جلد سنائی جائے تو دل کی بے کلی  کو چین پڑے۔

پاکستان میں اوّل تو سرے سے کوئی قانون ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو امیر رشوت دے کر چُھوٹ جاتے ہیں۔ غریب کا جینا محال کر رکھا ہے۔
اسی ایک بات کا تو سخت افسوس ہے کہ ہمارا معاشرہ دن بدن مزید بے حس اور انتہائی خونخوار ہوتا جا رہا ہے۔ ہجوم کے سامنے کسی بے گناہ کو مارا پیٹا جاتا ہے تو کوئی بھی شخص اسے چھڑوانے یا لوگوں کو اس ظلم سے باز آنے کے لیے اپنی آواز بلند نہیں کرتا۔ اُلٹا اصل بات جانے بغیر ہی ہر شخص لاٹھیاں، جوتیاں اور تھپڑ برسانے میں جُٹ جاتا ہے۔ لوگ تماشا دیکھنے اور وڈیو بنانے میں مگن ہو جاتے ہیں۔ اس ہولناک واقعے کی وڈیو منظر عام پر آ چکی ہے۔ اس کے ذریعے اس لڑکے کو مارنے والے سبھی لوگوں اور بے حس ہجوم کی شناخت بآسانی کی جا سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سانحہ میں حصہ لینے والے ہر شخص کو گرفتار کر کے عبرت ناک سزا دی جائے۔ وگرنہ لاقانونیت کی یہ آگ مزید پھیلتی چلی جائے گی۔ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر فرعون بن جانے والا ہر شخص بڑا مجرم ہے اور اسے سخت سزا دے کر ہی معاشرے کا سدھار ممکن ہو گا۔
اگر اب بھی خاموشی اختیار کی گئی تو یہ آگ سارے معاشرے کو نگل لے گی۔
ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply