• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اسلامی معاشرہ میں مساجد کی تعمیر، اہمیت اور مقاصد۔۔ ڈاکٹر محمد عادل

اسلامی معاشرہ میں مساجد کی تعمیر، اہمیت اور مقاصد۔۔ ڈاکٹر محمد عادل

اسلامی معاشرہ میں مسجد کو ایک مرکزی مقام حاصل ہے جو محض عبادات تک محدود نہیں۔ مسلمانوں کی دنیوی و اخروی زندگی کی فلاح مسجد کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مسجد کو اسلامی معاشرہ میں وہی اہمیت حاصل ہے جو انسانی جسم میں دل کو حاصل ہے کہ جب تک دل صحیح سلامت کام کررہا ہو تو جسم بھی متحرک ہوتا ہے لیکن اگر دل میں مرض پیدا ہوجائے ، تو پورا جسم پژمُردہ  ہوجاتا ہے۔
مسجد :اسلام کی علامت
قرآن کریم میں تعمیر مسجد کو ایمان کی علامت قرار دیا گیا ہے،سورۃ التوبۃ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
“اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو وہی آباد کریں، جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان لائیں، جو نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں اور صرف اللہ تعالیٰ ہی سے ڈریں”۔
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی مساجد کو اسلام کی علامات میں سے  قرار دیا گیا ہے ۔ صحیح البخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جہادی مہم پر کہیں تشریف لے جاتے تو فوراً حملہ نہیں کرتے بلکہ صبح کا انتظار کرتے ،پھر صبح اگر اذان کی آواز سن لیتے تو حملہ کا ارادہ ترک کر دیتے اور اگر اذان کی آواز سنائی نہیں دیتی تو حملہ کر دیتے۔ اسی طرح سنن الترمذی کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کوئی لشکر بھیجتے تو فرماتے کہ جب تم کوئی مسجد دیکھو یا مؤذن کی آواز سنو تو کسی کو قتل نہ کرو۔

ان دونوں احادیث مبارکہ میں غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ مساجد کو اسلام کی علامت سمجھتے تھے ،یہی وجہ ہے کہ کسی علاقے میں مسجد یا اذان کی آواز کو ان لوگوں کے مسلمان ہونے کے لئے کافی سمجھتے ہوئے ،ان پر خود بھی حملہ نہ کرتے اور صحابہ کرام ؓ کو بھی ایسا کرنے سے منع فرماتے۔
جس طرح مسجد کسی علاقے میں اسلام کی علامت قرار دی گئی ہے ،اسی طرح احادیث مبارکہ میں کسی شخص کے مسجد سے تعلق کو اس کے ایمان کی علامت قرار دیا گیا۔ سنن الترمذی کی حدیث ہے کہ جب تم کسی آدمی کو دیکھو کہ وہ مسجد کا عادی ہے یعنی مسجد میں نمازیں پڑھتاہے یا اس کی خبر گیری کرتا ہے تو اس کے مؤمن ہونے کی گواہی دو۔
جبکہ اس کے برعکس مسجدوں کو ویران کرنے ، اس کی بربادی کی کوششیں کرنےوالوں اور اس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روکنے والوں کو سب سے بڑا ظالم قرار دیا گیا اور انہیں دنیا وآخرت کی رسوائی کی وعید سنائی گئی۔ سورۃ البقرۃ میں ارشادِ ربانی ہے:
“اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوںمیں اللہ تعالیٰ کا نام لینے سے روکے اور اس کی بربادی کی کوشش کرے”۔

تعمیرِ مسجد کے مقاصد
روئے زمین پر پہلی مسجد کے قیام کے مقاصد قرآن کریم کی دو آیات میں ذکر کی گئی ہیں، سورۃ البقرۃ میں آیا ہے:
“اور جب ہم نے خانۂ کعبہ کو لوگوں کے جمع ہونے اور امن کی جگہ بنا دیا”۔
اسی طرح سورۃ المائدۃ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
“اللہ تعالیٰ نے عظمت والے گھر کعبہ کولوگوں کے لئے قائم رہنے کا ذریعہ بنایا”۔
ان دونوں آیات نے اسلامی معاشرہ میں مسجد کے کردار کو خوب وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے ؛پہلی آیت میں بیت اللہ کے متعلق کہا گیا کہ یہ لوگوں کے اجتماع وامن کی جگہ ہے ، جبکہ دوسری آیت میں اسے انسانیت کے لئے دین و دنیا کی مصلحت کا ذریعہ بتایا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسجد ہی وہ جگہ ہے کہ جہاں سے مسلمانوں کے تمام تہذیبی وتمدنی ، تعلیمی و ثقافتی اور معاشرتی و معاشی امور میں رہنمائی کا کام سرانجام دیا جا تا ہے۔

قرو ن اولیٰ میں مسجد کی مرکزیت
رسول اللہ ﷺ نے ریاست مدینہ میں مسجد کی کثیر الجہتی اور مرکزی حیثیت قائم کی۔ مسجد نبوی کو جامع مسجد کے ساتھ،مدرسہ، خانقاہ،دعوت و تبلیغ کےمرکز، پارلیمنٹ ہاؤس، حکومتی سیکرٹیریٹ ، سپریم کورٹ اورپولیس و فوج کےمرکزی ہیڈکواٹر کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔اس کے علاوہ زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم ، بیرونی وفود کی آمد ، غنیمت کی تقسیم اور سفراء و قراء کا دیگر قبائل کے پاس بھیجنا ،غرض کہ ریاست کے تمام امور کا انتظام یہی سے کیا جاتا تھا ۔مسجد نبوی کی یہ حیثیت ایک لمبےعرصہ تک برقرار رہی،پھر اسلامی مملکت کی سرحدات پھیلنی شروع ہوئی تو ہر صوبہ میں مرکزی مسجد کو یہی حیثیت حاصل رہی ،جہاں مرکزی حکومت کی طرف سے تعینات گورنر حکومتی امور نمٹاتے تھے۔

مسجد کی اسی مرکزی کرادر ہی کا نتیجہ تھا کہ لاکھوں مربع کلومیٹر پر محیط اسلامی مملکت میں اتحاد و اتفاق کا ماحول قائم تھا اور جہاں کہیں مسائل پیدا بھی ہوئے مسجد ، دینی اداروں اور شخصیات نے اس کو بہ احسن وخوبی حل کیا اور جب اسلامی معاشروں سے مسجد و دینی اداروں کی مرکزیت ختم ہوتی گئی اور ان کو صرف عبادات تک محدود کیا گیا تو امت کی وحدت پارہ پارہ ہو گئی اور بحیثیت مجموعی امت پر زوال کا شکار ہوگئی۔

مسجد بنانا کس کی ذمہ داری ہے؟
مندرجہ بالا سطور سے ثابت ہو چکا ہے کہ اسلامی معاشرہ میں مسجد کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔لہٰذا ہر مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست میں مساجد کا ہونا ناگزیر ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرہ میں مسجد بنانا کس کی ذمہ داری ہے؟ ذیل کے سطور میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
1: قرآن کریم میں مسلمان حکومت کی ذمہ داریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ،اس میں نماز کے قیام کو بھی شامل کیا ہے، سورۃ الحج میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
“یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں حکومت عطا کردیں ، تو وہ نماز قائم کریں گے ،زکوٰۃ ادا کریں گے، بھلائی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے”۔

اس آیت میں نماز کے قیام کی صورت میں مساجد کی تعمیر کی ذمہ داری مسلمان حکومت کے ذمہ  لگائی گئی ہے۔

2: رسول اللہ ﷺ نے ریاست مدینہ کی بنیاد رکھنے کی ابتداء مسجد سے فرمائی اور صرف اسی مسجد پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ جب مسلمانوں کی تعداد بڑھتی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے بحیثیت خلیفہ ان کے لئے مزید مساجد تعمیر کئے،سنن ابی داؤد کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بحیثیت خلیفہ مدینہ منورہ کے علاوہ دیگر آبادیوں اور قبائل میں مساجد بنانے کا حکم دیا ۔جیسے بلاذری نے انساب الاشراف میں لکھا ہے کہ جب مدینہ منورہ میں مسلمانوں کی آبادی بڑھنے لگی تو رسول اللہ ﷺ نے آبادی کے تناسب سے مساجدکی تعداد میں اضافہ کیا اور 9 مساجد کی تعمیر فرمائی، جہاں لوگ نماز پڑھتے اور مختلف امور کے لئے وہاں جمع ہوتے رہتے۔ڈاکٹر محمود احمد غازی کی تحقیق کے مطابق بعد میں مدینہ منورہ میں مساجد کی تعداد 40 تک پہنچی تھی اور ان تمام مساجد کی جملہ ضروریات اور ان میں تعلیم وتعلم کی ذمہ داری سیدنا عبادہ بن صامتؓ کے سپرد تھی ،جو بذات خود ان مساجد میں جاکر نگرانی کرتے تھے۔

3: اسی طرح تاریخ دمشق میں سیدنا عمرؓ کے متعلق آیا ہے کہ جب کوئی شہر فتح ہوتا ، تو آپؓ امراء کو خطوط کے ذریعے وہاں مساجد کی تعمیر کے نہ صرف احکامات جاری کرتے تھے، بلکہ وہاں تعلیم وتعلم کے لئے افراد کی تعیناتی بھی آپ فرماتے تھے ۔ اسی طرح سیدنا عثمانؓ نے اپنے دور ِ خلافت میں مسجد نبوی کی توسیع و تزیین سرکاری نگرانی میں کرائی۔

4: علامہ قرطبی مال غنیمت کے مصارف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مال غنیمت کے پانچویں حصے کو دیگر رفاہی امور کے ساتھ مساجد کی تعمیر پر خرچ کیا جائے گا ۔ جبکہ فقہاء کے نزدیک بیت المال کے چوتھے حصے کو دیگر مصارف کے ساتھ مساجد کی تعمیر پر صرف کیا جائے گا۔

مذکورہ بالا دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی ریاست میں نہ صرف مساجد کی تعمیر حکومت کی ذمہ داری ہے، بلکہ ان کی ضروریات کا خیال رکھنا ، اس میں توسیع کرنا اور امام ومعلمین کا تقرر وغیرہ بھی حکومت کے ذمے ہیں۔ لیکن اگر حکومت اپنی اس انتہائی اہم ذمہ داری سے عہدہ برآں نہیں ہوتی ،تو عام مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ضرورت کے مطابق مساجد کی تعمیر اور اس کی ضروریات کا خیال رکھیں ۔ اگر حکومت اور عام لوگ بقدر ضرورت مساجد کی تعمیر نہیں کرتے تو سب کے سب گنہگار ہوں گے۔

مسجد تا قیامت مسجد ہی رہے گی
کسی زمین پر مسجد تعمیر کی گئی تو اب یہ زمین قیامت تک مسجد ہی رہے گی۔ علامہ سرخسی نے شرح السیر الکبیر اور علامہ ابن نجیم نے البحرالرائق میں امام ابو یوسفؒ کا یہی قول نقل کیا ہے کہ مسجد چاہے مکمل طور پر خالی ہو جائے اور لوگ دوسری مسجد بنالیں یا گاؤں مکمل خالی ہوجائے یا سرے سے مسجد کی عمارت باقی نہ رہے، تب بھی مسجدکی جگہ فروخت کرنا جائز نہیں اور نہ ہی وہ زمین وقف کرنے والے کو واپس ہوگی بلکہ یہ تاابد مسجد ہی رہے گی۔ اگر کسی علاقہ کے لوگ پرانی مسجد کو چھوڑ کر دوسری مسجد بنالیں ، جو ان کی عبادات کی ضروت پورے کرنے کے کافی ہو اور پرانی میں مسجد میں کو ئی بھی نماز نہ پڑھے، تو اس صورت میں بھی پرانی مسجد کی جگہ کو باڑ وغیرہ لگا کر بے حرمتی سے محفوظ کرنا ضروری ہے۔

سرکاری زمین پر مسجد بنانا
حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جہاں مسلمانوں کو اپنی عبادات کے لئے مسجد کی ضرورت ہو اور قریبی علاقہ میں مسجد نہ ہو یا وہ دور یا ناکافی ہو تو حکومت کو خود سے زمین کا انتظام کرکے مسجد تعمیر کر لینی چاہیئے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے حکومت اپنی ذمہ داری پوری نہ کر سکی ،تو عوام کومسجد بنانے سے پہلے قانونی تقاضے مکمل طور پر پورے کرنے چاہیئں ۔کیونکہ کسی بھی فرد یا سرکاری زمین پر اس وقت تک مسجد بنانا جائز نہیں ،جب تک متعلقہ محکمہ سے باقاعدہ اجازت نہ لی جائے۔لہٰذا اس معاملے میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیئے اور مسجد بنانے سے پہلے قانونی تقاضے پورے کرنے چاہیئں تاکہ مسجد بنانے کے بعد اس میں کسی قسم کے مسائل کھڑے نہ ہوں۔

سرکاری زمین پر بنی مسجد کوگرانے کا حکم
سرکاری زمین پر بنی ایسی مساجد جس میں سالوں تک نمازیں پڑھی گئی ہوں ،اس کے متعلق علماء کا اتفاق ہے کہ ایسی زمین شرعی مسجد کے حکم میں ہے اور اس کو گرانا اور اس کی جگہ کوئی اور عمارت، پارک وغیرہ بنانا جائز نہیں۔
مملکت خداداد پاکستان میں کئی دہائیوں سے قائم مساجد کے متعلق وقتاً فوقتاً حکومتوں اور عدالتوں کی طرف انہدام کے احکامات و اقدامات سامنے آتے ہیں۔ اس لئے مختلف اوقات میں ملک کے نامور اہل ِ علم و مفتیان اس مسئلےکے متعلق اجتماعی و انفرادی طور پر فتاویٰ جاری کرتے رہے ہیں۔ ساٹھ کی دہائی میں ایسا ہی ایک مشترکہ فتوی مفتی ولی حسن ، مولانا یوسف بنوی، مفتی محمد شفیع رحمہم اللہ وغیرہ سمیت کئی نامی گرامی علماء کی دستخطوں سے منظر عام پر آیا، جس میں قرآن وحدیث کے دلائل کی روشنی میں سرکاری زمین پر دہائیوں سے موجودمساجد قائم رکھنے کے جواز اور ان کے انہدام کے عدم جواز پر تمام علماء نے اتفاق کیا ہے۔ اسی طرح حال ہی میں معروف علمی ادارے بنوری ٹاؤن سے بھی اس مسئلے کے متعلق ایک فتوی جاری کیا گیا:
“اگر کسی علاقے میں مسجد کی ضرورت ہو اور اہلِ علاقہ کسی خالی سرکاری زمین پر مسجد تعمیر کریں اور اس میں کئی سال تک باقاعدہ پنج وقتہ نماز یں و جمعہ ادا کی جاتی رہیں اور اتنے سالوں تک حکومت کی طرف سے ان مساجد کے قیام و تعمیر پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا گیا تو ایسی تمام مساجدمسجدِ شرعی کا حکم رکھتی ہیں، اور وہ مقامات تا قیامت مسجد کے حکم میں ہیں، ان کو گرانا یا ان کی جگہوں پر مسجد کے علاوہ کوئی اور عمارت بنانا شرعاً جائز نہیں”۔

شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب سمیت ملکی سطح پر معروف علماء و مفتیان نے بھی دلائل کی روشنی میں یہی رائے اختیار کی ہے۔اس رائے کی تائید میں علامہ زاہد الراشدی صاحب ایک بہترین علمی نکتہ ذکر کیا ہے، جو 2007ء میں روزنامہ اسلام لاہور میں چھپا تھا۔ علامہ زاہد الراشدی لکھتے ہیں:
“یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ ایک ہے اجازت اور ایک ہے رضامندی۔ دونوں میں تھوڑا سا فرق ہے اور اس فرق کو ملحوظ رکھنا فقہی طور پر ضروری ہے۔ اجازت یہ ہے کہ اس جگہ مسجد تعمیر کرنے کے لیے باقاعدہ درخواست دی جائے اور اجازت ملنے کے بعد وہاں تعمیر کر لی جائے، اور رضامندی یہ ہے کہ مسجد تعمیر کر لی گئی ہے اور متعلقہ محکموں اور مجاز اتھارٹی نے اس پر خاموشی اختیار کر کے اسے عملاً قبول کر لیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کسی محلہ کے مسلمانوں نے مسجد کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے کسی موزوں اور مناسب سرکاری زمین پر مسجد تعمیر کر لی ہے اور مجاز اتھارٹی نے اس پر خاموشی اختیار کر لی ہے تو یہ ’’رضامندی‘‘ کے مترادف ہے اور اس عملی رضامندی کے بغیر حکومت کو وہ مسجد گرانے کا حق حاصل نہیں ہے۔ پھر اس رضامندی کا مدار صرف خاموشی پر نہیں ہے بلکہ سالہا سال تک وہاں نمازیں ادا کی جاتی رہی ہیں جبکہ بجلی، پانی، گیس اور دیگر ضروری چیزوں کے کنکشنز کی منظوری اور متعلقہ محکموں اور مجاز اتھارٹی کے لوگوں کا اس مسجد میں نمازیں ادا کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ سالہا سال تک بطور مسجد ڈیل کرنا ’’خاموش رضامندی‘‘ سے بہت آگے کے امور ہیں جو صرف رضامندی نہیں بلکہ عملاً اجازت کے مترادف ہیں”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لہٰذا سالوں بلکہ دہائیوں سے موجود ایسی مساجد جن کی تعمیر کی سرکاری اداروں کی طرف عوام کو اجازت دی گئی ، اس کے نقشے منظور کرائے گئے ، ان کا حکم اب شرعی مساجد کا ہے اور حکومت کے لئے ان مساجد  کو گرانا شرعا و اخلاقاً جائز نہیں ہے۔
پاکستان نہ صرف ایک اسلامی ملک ہے ،بلکہ اس کی بنیاد اسلام ہی پر رکھی گئی۔ اس لئے یہاں کی آبادی کی ضرورت کے مطابق مساجد بنانا اور ان مساجد کی ضروریا ت کا خیال حکومتی ذمہ داری ہے۔ لیکن چونکہ آزادی کے بعد بروقت اس مسئلے کی طرف توجہ نہیں دی گئی، اس لئے عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنی اس بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے مساجد تعمیر کی ہیں، جن میں سے کچھ سرکاری زمینوں پر قائم ہیں۔ لیکن اب ہر چند سال بعد حکومتیں اور عدالتیں ان مساجد کو غیر قانونی قرار دے کر ان کےانہدام کے لئے احکاما ت جاری کرتی ہیں۔ جس سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہونے کے ساتھ امن و امان کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے موجودہ صورتحال میں جب ملک کو مختلف قسم کے بین الاقوامی چیلنجز درپیش ہیں ، آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل کو اہل علم سے رہنمائی لیتے ہوئے اس مسئلے کا مستقل حل پیش کرنا چاہیئے اور اس ضمن میں پارلیمنٹ کو قانون سازی کے لئے سفارشات پیش کرنی چاہیئے ، تاکہ حکومت وریاست یکسو ہوکر معاشی و بین الاقوامی مسائل کے حل کے لئے کوششیں کرے اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات بھی مجروح نہ ہوں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر محمد عادل
لیکچرار اسلامک اسٹڈیز باچا خان یونیورسٹی چارسدہ خیبر پختونخوا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply