ایک جنگجو کا قلم/رؤف کلاسرا

سوشل میڈیا کی نئی دنیا میں جن چند لکھاریوں نے اپنا نام بنایا یا کہہ  لیں خود کو برانڈ بنایا ان میں انعام رانا کا نام شامل ہے۔ رانا کی تحریریں پڑھتے ہوئے مجھے احساس ہوا اس سیلف میڈ انسان نے میچورٹی کا سفر بڑی خوبصورتی سے طے کیا ہے۔ مجھے اس کی تحریروں میں موجود ایک ماڈریٹ، حسّاس دل کے مالک ایک لبرل اور برداشت سے لبریز انسان نے متاثر کیا ہے۔

دنیا کا کوئی بھی موضوع آپ کے ذہن میں اُبھرے تو ممکن ہی نہیں اس کتاب میں اس پر باب آپ کو نہ ملے۔ میں سوچتا گیا اور پڑھتا چلا گیا۔ رانا کے پاس نئے خیالات کا ایک خزانہ ہے۔ہلکا پھلکا مزاح ہے، گپ شپ ہے۔ جگت ہے، دوستیاں ہیں، پرانی محبتیں ہیں لیکن ساتھ میں بَلا کی سنجیدگی بھی ہے۔ ایک خوبصورت نوسٹلجیا ہے، گزرے ماضی سے جڑے کرداروں کی بھولی بھٹکی یادیں ہیں، کربلا کے شہیدوں اور مظلوموں سے عشق ہے، اپنے باپ سے بے پناہ محبت ہے جس کا اظہار وہ نہ کرسکا اور آج تک وہ درد سینے میں چھپائے پھرتا ہے۔

اس کے پاس حسّاس دل ہے جو اپنوں اور پرائے کے دکھ میں جلتا رہتا ہے۔ اس کے قلم میں کاٹ ہے جو کسی بھی ادیب کے لیے ضروری ہے۔ اس کی باتیں سیدھی دل کو لگتی ہیں۔ اس کے پاس دلائل ہیں۔ سنجیدہ بحث و مباحثہ ہے۔ مجھے لگا آپ اس سے دلائل میں آسانی سے نہیں جیت سکتے۔ اس کی ہر تحریر میں مجھے نئی بات کا پتہ چلا اور یہ کسی بڑے لکھاری کی نشانی ہوتی ہے کہ اس کی تحریروں سے آپ کتنا سیکھتے یا جانتے ہیں ۔

اسے پڑھتے ہوئے لگا اسے آپ محض سرسری طور پر پڑھ کر نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اسے اپنی تحریر کو کہانی کا رنگ دینا آتا ہے۔ شروع کریں تو اسے ختم کیے بغیر نہ رہ سکیں ۔ بعض انسانی المیوں پر لکھی اس کی تحریریں آپ کو افسردہ کردیتی ہیں۔ جو کام کبھی اس دھرتی کے بہادر اور جنگجو راجپوت تلواروں سے کرتے تھے وہ اس راج پوت نے اپنے قلم سے کیا ہے۔ اس کے قلم کی کاٹ شاید تلوار کے گھاؤ سے بھی گہری ہو۔ اس نے جس طرح اہم بحث و مباحثوں کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا ہے وہ کمال ہے۔ وقت کے ساتھ بدلتے انسانی المیوں، رویوں اور دکھوں کو کاغذ پر بکھیر دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

انعام رانا کو میں اب تک صرف سوشل میڈیا پر ان کے فیس بک اسٹیٹس سے جانتا تھا لیکن اس کتاب میں چھپے رانا سے میرا تفصیلی تعارف یہ کتاب پڑھ کر اب ہورہا ہے اور مجھے کہنے دیں کہ  کیا ہی شاندار تعارف ہوا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply