سوشل میڈیا کی نئی دنیا میں جن چند لکھاریوں نے اپنا نام بنایا یا کہہ لیں خود کو برانڈ بنایا ان میں انعام رانا کا نام شامل ہے۔ رانا کی تحریریں پڑھتے ہوئے مجھے احساس ہوا اس سیلف میڈ انسان نے میچورٹی کا سفر بڑی خوبصورتی سے طے کیا ہے۔ مجھے اس کی تحریروں میں موجود ایک ماڈریٹ، حسّاس دل کے مالک ایک لبرل اور برداشت سے لبریز انسان نے متاثر کیا ہے۔
دنیا کا کوئی بھی موضوع آپ کے ذہن میں اُبھرے تو ممکن ہی نہیں اس کتاب میں اس پر باب آپ کو نہ ملے۔ میں سوچتا گیا اور پڑھتا چلا گیا۔ رانا کے پاس نئے خیالات کا ایک خزانہ ہے۔ہلکا پھلکا مزاح ہے، گپ شپ ہے۔ جگت ہے، دوستیاں ہیں، پرانی محبتیں ہیں لیکن ساتھ میں بَلا کی سنجیدگی بھی ہے۔ ایک خوبصورت نوسٹلجیا ہے، گزرے ماضی سے جڑے کرداروں کی بھولی بھٹکی یادیں ہیں، کربلا کے شہیدوں اور مظلوموں سے عشق ہے، اپنے باپ سے بے پناہ محبت ہے جس کا اظہار وہ نہ کرسکا اور آج تک وہ درد سینے میں چھپائے پھرتا ہے۔
اس کے پاس حسّاس دل ہے جو اپنوں اور پرائے کے دکھ میں جلتا رہتا ہے۔ اس کے قلم میں کاٹ ہے جو کسی بھی ادیب کے لیے ضروری ہے۔ اس کی باتیں سیدھی دل کو لگتی ہیں۔ اس کے پاس دلائل ہیں۔ سنجیدہ بحث و مباحثہ ہے۔ مجھے لگا آپ اس سے دلائل میں آسانی سے نہیں جیت سکتے۔ اس کی ہر تحریر میں مجھے نئی بات کا پتہ چلا اور یہ کسی بڑے لکھاری کی نشانی ہوتی ہے کہ اس کی تحریروں سے آپ کتنا سیکھتے یا جانتے ہیں ۔
اسے پڑھتے ہوئے لگا اسے آپ محض سرسری طور پر پڑھ کر نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اسے اپنی تحریر کو کہانی کا رنگ دینا آتا ہے۔ شروع کریں تو اسے ختم کیے بغیر نہ رہ سکیں ۔ بعض انسانی المیوں پر لکھی اس کی تحریریں آپ کو افسردہ کردیتی ہیں۔ جو کام کبھی اس دھرتی کے بہادر اور جنگجو راجپوت تلواروں سے کرتے تھے وہ اس راج پوت نے اپنے قلم سے کیا ہے۔ اس کے قلم کی کاٹ شاید تلوار کے گھاؤ سے بھی گہری ہو۔ اس نے جس طرح اہم بحث و مباحثوں کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا ہے وہ کمال ہے۔ وقت کے ساتھ بدلتے انسانی المیوں، رویوں اور دکھوں کو کاغذ پر بکھیر دیا ہے۔
انعام رانا کو میں اب تک صرف سوشل میڈیا پر ان کے فیس بک اسٹیٹس سے جانتا تھا لیکن اس کتاب میں چھپے رانا سے میرا تفصیلی تعارف یہ کتاب پڑھ کر اب ہورہا ہے اور مجھے کہنے دیں کہ کیا ہی شاندار تعارف ہوا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں